مہنگائی کا جن اور ناقص حکومتی پالیسیاں



 پیٹرول کی قیمت میں 8.98 روپے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 1.06 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے۔پیٹرولیم ڈویژن کے ذرائع نے بتایا کہ حکومت پیٹرولیم لیوی کی شرح کو ایڈجسٹ کرکے 16 سے 31 جنوری تک قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رکھ سکتی ہے۔ اگر حکومت پیٹرول اور ایچ ایس ڈی کی قیمتوں میں بالترتیب 8.98 روپے اور 1.06 روپے فی لیٹر اضافہ کرتی ہے تو پیٹرول کی قیمت 214.80 روپے سے بڑھ کر 223.78 روپے فی لیٹر ہو جائے گی جبکہ ایچ ایس ڈی کی قیمت 228.86 روپے ہو جائے گی۔حکومت کے پاس اشیائے ضروریہ میں اضافے کے علاوہ معیشت کے استحکام کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔پاکستان میں مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہوا ہے اس کی جانب خود حکومتی اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح چالیس فیصد سے تجاوز کر گئی تھی جو ماہرین کے مطابق ابھی مزید بڑھے گی۔اس اضافے کی وجہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے جس کا منفی اثر آنے والے دنوں میں شدت سے محسوس ہو گا کیونکہ پاکستان توانائی اور غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے مزید مہنگی ہوں گی۔مہنگائی سے متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں بھی مہنگائی نے انہیں پریشان کیا لیکن گذشتہ دو تین مہینوں سے مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی کی ایک وجہ وہ عالمی حالات ہیں جن میں دنیا بھر میں تیل، گیس اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے عام فرد جس پریشانی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں میں ہونے والا اضافہ شامل ہے۔غذائی اشیا کی قیمتوں کے اعداد و شمار کے مطابق خوردنی تیل کی قیمت 48 فیصد اضافہ ہوا ، سبزیوں کی قیمت میں 35 فیصد، دالوں کی قیمت میں اوسطا 38 فیصد، چکن کی قیمت میں تقریبا چالیس فیصد اور گوشت کی قیمت میں 23 فیصد دیکھا گیا۔ دوسری جانب تیل مصنوعات کی قیمتوں میں 37 فیصد دیکھا گیا۔پاکستان مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں قائم کردہ مخلوط حکومت کے پہلے مہینے یعنی اپریل میں مہنگائی کی شرح 13.37 فیصد ریکارڈ کی گئی جو مئی کے مہینے میں 13.76 فیصد تک بڑھ گئی جب کہ جون کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 21.32 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔خوارک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پیاز کی قیمت 124 فیصد بڑھی، خوردنی تیل کی قیمت میں 70 فیصد اضافہ ہوا، چکن کی قیمت میں 47 فیصد، گندم کی قیمت میں 31 فیصد اور دودھ کی قیمت میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔دوسری جانب تیل مصنوعات کی قیمتوں میں 96 فیصد اور بجلی کی قیمت میں 34 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اگر پاکستان کی تاریخ میں دیکھا جائے تو ایسی بلند شرح 2008 اور 1974 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال اور موجودہ حکومت کے تقریبا چار مہینوں کو ملا کر چار سال میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اس عرصے کے دوران پلمبرز، مستری، مزدور، الیکٹریشن، ٹیکنیشن، میکنک وغیرہ کی آمدن میں 24 سے 27 فیصد اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی آمدن میں اضافے سے دوگنی قیمتیں بڑھیں۔پاکستان میں گورننس کی کمزوریوں نے بھی قیمتوں میں اضافہ کیا کیونکہ پرائس کنٹرول کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور مقامی سطح پر کوئی پرائس کنٹرول کا نظام نہیں کہ جو ناجائز منافع خوری کی روک تھام کر سکے۔ گزشتہ چار پانچ حکومتوں میں قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کا نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے کسی حد تک مقامی سطح پر قیمتوں پر نظر رکھی جاتی تھی۔بین الاقوامی قیمتوں کے علاوہ مقامی سطح پر روپے کی قدر میں کمی بھی مہنگائی کی بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے تیل مصنوعات اور دوسری چیزوں کی پاکستان میں درآمدات مہنگی ہو گئیں اور سارا بوجھ مقامی صارفین کو سہنا پڑا۔یہ سب کو معلوم ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا براہِ راست اثر مہنگائی پر پڑتا ہے۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ٹرانسپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔دوسری جانب بجلی کی قیمت میں اضافے کے باعث کاروبار پر آنے والی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے، ان دونوں کی وجہ سے خدشہ یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت مارجن پر ہیں وہ غربت کی سطح سے نیچے گر جائیں گے۔حکومت اور اکثر معاشی ماہرین کی جانب سے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے کہ یہ اضافہ ناگزیر تھا۔ تاہم ناقدین کا ماننا ہے کہ تمام بوجھ غریب عوام پر ہی کیوں ڈالا گیا ہے، جو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اگر ہم اصلاحات لائیں تاکہ ہم جو اس کا بوجھ لوگوں پر مہنگائی کی شکل میں ڈال رہے ہیں، لوگوں کو امید نظر آئے۔ اگر ہم نے ایک وسط مدتی اصلاحاتی منصوبہ آئی ایم ایف کو دیا ہوتا جو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اتحاد کے پاس نہیں تھا، کیونکہ کوئی سمت دکھائی نہیں دیتی، اس لیے اس کی تکلیف اور بھی زیادہ ہے کیونکہ اس غیر یقینی صورتحال ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق تقریبا ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ہے۔ شرح سود بھی اوپر جائے گی، معیشت جو حد سے زیادہ پھیلی ہے وہ اب سکڑے گی۔ تو اب مہنگائی کی شرح 2023 جون کے بعد نیچے آنے کی توقع ہے۔اس کے گہرے معاشی اثرات بھی ہیں اور اس کے سیاسی اعتبار سے بھی اثرات دیکھنے کو ملیں گے کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عوام کی طرف سے خاصا سخت ردِ عمل آنا شروع ہو گیا ہے کہ اشرافیہ سے آپ قربانی نہیں مانگ رہے، سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ کہ معیشت کی شرح نمو تو اس وقت چھ فیصد ہے لیکن پاکستان کا اصل چیلنج دہرے خسارے ہیں۔ یعنی ہماری درآمدات زیادہ ہیں برآمدات کم ہیں، جبکہ دوسری جانب ہمارے خرچے زیادہ ہیں لیکن ریوینو کم ہے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ معاشی ترقی کے لیے ایک طویل مدتی اصلاحاتی حکمتِ عملی بنائے، ہم ہر پانچ سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اسی وجہ سے جاتے ہیں، جب تک ہم معیشت کا ڈھانچہ نہیں بدلتے اور خساروں میں کمی نہیں لاتے تو ہم اس چکر میں پھنسے رہیں گے۔ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے ریئل سیکٹرز کی پیداواری صلاحیت نہیں بڑھ رہی۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے جب کھپت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہمیں چیزیں درآمد کرنی پڑتی ہیں۔جب ہم درآمد کرتے جاتے ہیں تو اس کے لیے ڈالر چاہیے ہوتے ہیں، ڈالر آپ کے پاس برآمدات سے آتے ہیں، برآمدات میں اضافہ تب ہوتا ہے جب سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہو اور وہ پیداواری سیکٹرز میں جائے۔ ہم ایک تجارتی معیشت بن کر رہ گئے ہیں، نہ کہ پیداواری۔ جب ہمارا درآمدات پر انحصار دن بہ دن بڑھتا جائے گا اور ہمارے پاس زرِ مبادلہ نہیں ہو گا تو ہمیں ڈھانچے میں تبدیلی لانی ہو گی۔ہمیں چاہیے کہ زراعت میں ویلیو ایڈیشن لائیں، ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کپڑے کے بجائے سوٹ بنائے تاکہ ہمارے زرِ مبادلہ میں اضافہ ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی نالج بیسڈ اکانومی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں چھوٹ دیں اور سرمایہ کاری کی ترغیب دیں۔عوام مہنگائی کے سامنے اتنے بے بس کبھی نہیں تھے جتنے کہ آج ہیں۔ یوٹیلٹی بلز اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے، جسکی وجہ سے  سفید پوش طبقہ تیزی سے متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت وقت تنخواہ دار طبقے پر مزیدٹیکس لگا رہی ہے۔ آدھی سے زیادہ تنخواہ اشیا خورونوش اور گھر کے کرائے پر خرچ ہو جاتی ہے، جبکہ ادویات روزانہ کے اخراجات ہیں، تنخواہوں میں اضافے کے بجائے کٹوتی ہو رہی ہے۔مہنگائی کے سبب اب گھریلو بجٹ میں پچاس فیصد اضافہ تو ہو گیا ہے مگر آمدنی وہی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات اور عیاشیاں ختم کرنے کے بجائے سارا بوجھ عوام پر منتقل کر رہی ہے۔ پاکستان میںمعاشی بحران کا  بڑا سبب اس ملک کے سیاستدان ہیں۔ آج ستر سال بعد بھی اس ملک میں کسی قدرتی آفت سے نمٹنے کا انتظام نہیں ہے،فقیروں کی طرح دنیا بھر سے سیلاب کے نام پر امداد مانگ رہے ہیں گندم بڑی مقدار میں موجود ہے مگر آٹے کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا ہے۔پاکستان میں قیمتیں بڑھنے کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ کے اندر اجارہ داری اور مانیٹرنگ کے طریقہ کار متحرک نہ ہونا ہے۔ پہلے تحصیل لیول پر اسسٹنٹ کمشنرز کے زیر اہتمام پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہوتی تھیں لیکن اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں، جس کی وجہ سے ایک ہی ضلع میں ہر دو کلومیٹر کے بعد ریٹ بدل جاتے ہیں۔ جس کا جتنا جی چاہے وہ مانگ لے، اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔