آٹے کا بدترین بحران



پاکستان کافی عرصے سے مس مینجمنٹ کا شکار ہے حکام بالا کو عوام کے مسائل کی کوئی فکر نہیں جو آتا ہے سیاسی جھگڑوں میں الجھ کر جلدی جلدی مال بناتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔حالت یہ ہے کہ زرعی ملک پاکستان میں گندم اور آٹے کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے 'ملک بھر میں آٹے کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں اور اس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطا 124 کلو گرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔وفاقی حکومت نے اس حوالے سے معاملہ صوبوں پر ڈال دیا ہے کہ یہ مسئلہ یا بحران ملز ایسوسی ایشنز اور صوبائی حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔ حکومت کے مطابق آٹے کے ذخیرے اور فلور ملز کو فراہمی سمیت اس کی قیمتیں مقرر کرنا بھی صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت رواں برس مئی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں ملک میں گندم کی پیداوار، موجودہ ذخائر اور صوبائی و قومی سطح پر کھپت جیسے معاملات زیر غور آئے۔اس اجلاس میں رواں برس گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 29 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جبکہ متوقع پیداوار دو کروڑ 26 لاکھ میٹرک ٹن تک ہو گی۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا۔وزیراعظم کی زیر صدارت اس اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب نے 91.66 فیصد، سندھ نے 49.68 فیصد، بلوچستان نے 15.29 فیصد جبکہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔مقامی ضرورت کے مقابلے میں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے وفاقی کابینہ نے ملک میں 30 لاکھ گندم کی درآمد کی منظوری دی۔گزشتہ برس ملک میں دو کروڑ 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی تھی تاہم یہ پیداوار بھی ملکی ضرورت سے کم تھی اس لیے پاکستان نے 20 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے منگوائی تھی۔ آج سے صرف دس دن پہلے گندم فی من 3300 روپے میں مل رہی تھی اور آج یہ نرخ 4350 تک پہنچ چکا ہے۔ سرکاری اجرا جو ملز کو ہو رہا ہے وہ کم ہے۔ مثال کے طور پر بلوچستان گندم دے ہی نہیں رہا، سندھ سوا دو لاکھ ٹن تک ماہانہ گندم دے رہا ہے حالانکہ سندھ کو پونے تین لاکھ ٹن ایشو کرنا چاہیے۔پنجاب میں ان دنوں میں 30 ہزار ٹن ایشو کیا جاتا رہا ہے، آج ساڑھے 21 ہزار ٹن ایشو کیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں سات ہزار ٹن ایشو ہوتا ہے آج پانچ ہزار ٹن ایشو ہو رہا ہے۔ اگر تمام صوبوں کا فرق نکالیں تو یہ دس ہزار ٹن یومیہ ہے، اس کا مطلب ہے ایک لاکھ بوری۔ اس کی وجہ سے سارا بوجھ اوپن مارکیٹ پر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس کے پاس گندم پڑی ہے وہ اپنی من مانی کے ریٹ مانگ رہا ہے۔ اس وقت کھینچا تانی چل رہی ہے۔ صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی ہے، خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو یہ کھچڑی بنی ہوئی ہے۔ اس وقت وفاق اور صوبوں کی جانب سے گندم بچانے کی بجائے اس کے اجرا کی ضرورت ہے تاکہ مارکیٹ معمول پر آ جائے۔دوسرا بڑا حل اس کا یہ ہے کہ یہ نجی سیکٹر کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دیی جائے 'ہمیں وہ 3300 سے 3400 روپے کے درمیان پڑے گی۔ ہم اگر لے آتے ہیں تو مارکیٹ خود بخود 4300 سے 3400 پر آ جائے گی۔چیئرمین فلور ملز اسوسی ایشن سندھ چوہدری محمد یوسف کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس سٹاک موجود ہے، اگر وہ آج ہی وہ گندم ایشو کر دیتے ہیں تو آٹا 50 روپے فی کلو کم ہو سکتا ہے، یا تو ہمیں اجازت دیں تو ہم 30 روپے کلو کم کر دیں۔محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے رواں برس کے پہلے نو ماہ میں 80 کروڑ ڈالر کی گندم درآمد کی۔وزیر مملکت برائے بین الصوبائی ہم آہنگی مہر ارشاد کے مطابق گندم ایک صوبائی معاملہ ہے۔ اس حوالے سے وفاق کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں جہاں سے گندم کا بحران پیدا کیا جا رہا ہے۔ گندم کی خریداری تک صوبے کرتے ہیں، گودام اور سٹورز تک صوبوں کے پاس ہیں۔ وفاق کے پاس تھوڑی مقدار پاسکو کی گندم کی ہو گی۔ مگر وفاق تو مسئلہ نہیں پیدا کر رہا ہے، وفاق نے بھی تو اپنے ہی ملک کو یہ گندم دینی ہے۔ یہ محمکہ خوراک کا مسئلہ ہے۔ وفاق بھرپور اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ تاہم ذخیرہ اندوزی کو روکنا صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ مارچ میں گندم کی امدادی قیمت کے دیر سے اعلان کی وجہ سے کسانوں کی گندم کی کاشت میں دو فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلی یعنی وقت سے پہلے گرمی کی شدت میں اضافہ بھی گندم کے طے شدہ ہدف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے۔گندم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین کے مطابق اگر گندم کی بلند قیمت اور روپے کی کم قیمت برقرار رہی تو درآمدی گندم پاکستانیوں کے لیے آٹے کی قیمت کو مزید بڑھا دے گی، جو ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی کی بلند سطح کو اوپر کی جانب دھکیل دے گی۔پنجاب  میں آٹا بحران کے خدشے کے پیش نظر وزیراعلی پرویز الہی نے وزیراعظم کو گندم کی فوری فراہمی کے لیے خط لکھا ہے ۔ وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں گندم کی عدم فراہمی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کو مسلسل یقین دہانیوں کے بعد اچانک گندم فراہمی سے انکار نامناسب ہے۔ وفاق کی جانب سے گندم نہ ملنے سے پنجاب میں آٹے کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب کو بلاتاخیر گندم فراہمی کا آغاز کرے۔  پنجاب نے مئی سے لے کر اکتوبر تک وفاق کو اس سلسلے میں متعدد خطوط لکھے اور وفاقی وزارتِ نیشنل فوڈ سکیورٹی نے ہر مرتبہ گندم فراہمی کی یقین دہانی کروائی، تاہم 29 ستمبر کو ایک خط کے ذریعے گندم فراہمی سے انکار کردیا گیا۔ وزیراعلی نے مطالبہ کیا کہ پنجاب کو 10 لاکھ ٹن گندم فراہم کی جائے جب کہ 3 لاکھ ٹن گندم فوری دی جائے۔ وزیراعظم نے وفاقی وزارتِ خزانہ اور نیشنل فوڈ سکیورٹی کو فوری اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب کو گندم فراہمی کے لیے تمام قانونی اور تجارتی اقدامات کیے جائیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب کے عوام کی آٹا ضروریات کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔بیس کلو گرام آٹے کا تھیلا سرکاری نرخ پر ایک ہزار 280 روپے میں دستیاب ہے تاہم شہری اس کے غیرمناسب معیار کے سبب مِلوں سے آٹا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں 20 کلو گرام آٹے کے تھیلے کی قیمت 2 ہزار 400 سے 2 ہزار 600 روپے کے درمیان ہے جبکہ 15 کلو کا تھیلا ایک ہزار 950 روپے میں دستیاب ہے۔ صوبے میں ایک ہزار سے زائد فلور ملز نے حکومتِ پنجاب سے گندم کا کوٹہ حاصل کیا جنہوں نے 100 کلو گرام کا گندم کا تھیلا 10 ہزار 800 روپے اور میدے کا 80 کلو کا تھیلا 5 ہزار 700 روپے میں فروخت کیا۔مظفر گڑھ، کوٹ ادو اور رحیم یار خان کے اضلاع میں سبسڈی پر آٹا فروخت کرنے والے مخصوص مراکز پر خریداروں کی طویل قطاریں دیکھی گئیں جسے آٹے کا بحران مزید سنگین ہونے کی علامت سمجھ جارہا ہے۔گزشتہ ہفتے قیمت میں اضافے کے بعد رحیم یار خان میں لوگوں کو گندم کے آٹے کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ طلب اور رسد کا مسئلہ ہے، فلور ملز روزانہ ایک کریانے کی دکان پر 10 کلو کے 75 تھیلے فراہم کرتی ہیں جو ایک گھنٹے میں فروخت ہو جاتے ہیں۔شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے آٹے کی فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ مارکیٹ میں سبسڈی کے حامل آٹے کی شدید قلت ہے۔دیہی علاقوں میں چکی آٹے کے مالکان زیادہ قیمتوں پر آٹا فروخت کر رہے ہیں، شہروں میں بھی دکانوں پر سرکاری نرخوں کے مطابق آٹا فروخت نہیں ہورہا۔ملک بھر میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے،  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت آٹا فراوانی سے دستیاب نہیں ہے، آٹے کی قلت ہے، لوگ تکلیف میں ہیں، اس میں کوئی عذر دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔حالیہ دنوں میں گندم کے بحران نے حکومت کے لیے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔گندم کے بحران کی وجہ سے گذشتہ ہفتے ملک کے کئی حصوں میں آٹے کی قیمتیں بڑھنے کے بعد دکانوں اور بازاروں میں آٹا غائب ہو گیا اور لوگوں کو قطاروں میں لگ کر آٹا خریدنا پڑا۔حیرت یہ ہے کہ  پاکستان کے لیے گندم اگانے والا صوبہ آٹے کی قلت اور مہنگائی کا شکار ہو رہا ہے۔