وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے محکموں کے عدالتوں میں زیر التواکیسز اور انصاف کی بروقت فراہمی کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں زیر سماعت مختلف محکموں کے کیسز کے بروقت فیصلوں اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو بہتر بنانے کےلئے تمام محکمے عدالتوں کےساتھ تعاون کرتے ہوئے خصوصی اقدامات کریں، سروسز ٹریبونل کو فعال بنائیںگے تاکہ سرکاری ملازمین کے مختلف کیسز کی شنوائی سروس ٹریبونل میں ہوسکے، پالیسیز کو بہتر بنائیں گے جس کی وجہ سے جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہو، کرمنل جسٹس سسٹم کو بھی بہتر بنانے کےلئے خصوصی اقدامات کریں گے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے صوبائی وزیر قانون کی سربراہی میں اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے کمیٹی بروقت انصاف کی فراہمی اور زیر سماعت کیسز کے حوالے سے تمام متعلقہ سیکرٹریز کے مشاورت سے جامع سفارشات تیار کرکے اصلاحات کےلئے پیش کرے گی۔کامےاب معاشروں کے نظام کی عمارت انصاف پر استوار ہوتی ہے‘معاشرے انصاف کی فراہمی ہی سے آگے بڑھتے اور ترقی کرتے ہےں‘کون نہےں جانتا کہ عام آدمی کا اعتماد ہی نظام انصاف کی بنیاد ہوتا ہے۔ اصلاحات ہوتی رہیں تو نظام انصاف جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر توانا سے توانا ہوتا جاتا ہے۔ہمارے نظام انصاف کو عام آدمی کے مقدمات کا بھی سوچنا چاہیے اور اسے سستا انصاف ملنا چاہیے لیکن ابھی یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ ابھی ہمارا نظام انصاف جن مسائل میں الجھا نظر آرہا ہے ، اس میں عام آدمی کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں سو موٹو کا کلچر بہت حاوی رہا۔۔ بڑے سے بڑے مسئلہ اور چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ پر بھی سو موٹو دیکھا گیا لیکن پھر قانون دان ہی نہیں بلکہ عوامی رائے عامہ بھی سوموٹو کے حق میں نہ رہی۔ عدلیہ کے اندر سے بھی سوموٹو کلچر کے خلاف آوازیں سنائی دیں۔ عدلیہ نے خود احساس کیا کہ سوموٹو نظام انصاف کا کوئی مثبت پہلو نہیں ہے۔اسی لیے بعد میں آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے اس اختیار کو بہت محدود کردیا۔جوڈیشل ایکٹوازم نظام انصاف کے لیے ایک حد تک ہی فائدہ مند ہوسکتا ہے ۔عدلیہ نے ملک میں میرٹ کی حفاظت کرنی ہے۔ میرٹ کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اگر ملک میں کسی سے بھی میرٹ سے ہٹ کر کچھ ہوتا ہے تو وہ عدلیہ کا دروازہ ہی کھٹکھٹانے پر مجبور ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ کا ہر جج سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہوتا ہے، سب برابر ہوتے ہیں۔ اہل لوگ ہی ہائی کورٹ کے جج بنتے ہیں۔ جو ہائی کورٹ کا جج بن سکتا ہے وہ سپریم کورٹ کا جج بھی بن سکتا ہے۔اس لیے جو جج بنے ہیں ان کی اہلیت پر کوئی ابہام نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی سنیارٹی کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ جب سب اہل ہیں تو پھر کس کو ایلیویٹ کیا جائے،اس کا بھی کوئی سسٹم ضرور ہونا چاہیے۔ بہرحال ہمارا نظام انصاف جس طرح سو موٹو اور دیگر مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہوا ہے، موجودہ مسائل کا حل بھی نکل آئے گا۔ےکساں انصاف نظام انصاف کی بنیادی روح ہے۔ ٹارگٹڈ انصاف کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو، اسے پسند نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کی اپیل جلدی لگ جائے اور کسی کی کئی سال نہ لگے۔ جب سب کوبائیومیٹرک کرانے کے لیے پا بند کیا جائے اور ایک کو رعایت دی جائے تو سوال اٹھیں گے۔ کیا عام آدمی کی بائیو میٹرک کے بغیر حفاظتی ضمانت کی اپیل سنی جا سکتی ہے۔ کیا کوئی عام ملزم یہ کہہ سکتا ہے کہ ماتحت عدالت کا جج چھٹی پر ہے، اس لیے میرا کیس ترجیحی بنیادوں پر آپ سن لیں۔ کچھ عرصہ قبل مختلف ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی اور عدالتی نظام ہائے سے متعلق اعداد و شمار جمع کر کے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں مختلف انڈیکس شامل تھے ۔ اِس رپورٹ میں شامل رول آف لا انڈیکس کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ اِس انڈیکس پر پاکستان جس نمبر پر موجو ہے وہ تشوےشناک ہے ۔ یہ پوزیشن نہ صرف ملک کے نظام انصاف کی کمزوریوں کا اجاگر کرتی ہے بلکہ اِس بات کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان میں عدالتی اصلاحات کس قدر ناگزیر ہو چکی ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف جلد اور معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ مگر افسوس کہ آزادی کے بعد پچھہتر سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ہمارے ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول اب بھی ایک خواب ہے۔ یہاں مقدمے کا فیصلہ آنے میں پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں اور بسا اوقات مدعی انصاف مانگتا اِس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔انصاف کا حصول تیسری دنیا اور ہمارے جیسے بے سمت معاشروں میں اس وقت تک دشوار رہے گا جب تک انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ریاستی سطح پر اقدامات پر اتفاق رائے نہیں ہوتا کیوں کہ عدلیہ سے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ قلم کسی غلطی کا مرتکب نہ ہو جائے اور یوں توہین عدالت کے الزام پر عدالت طلب کرلے۔ یہ عمل احتیاط کا متقاضی اور دشوار گزار راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں ریاستی ستونوں کی کش مکش کی گفتگو بہت پرانی ہے۔ ملکی اور عالمی قوانین کے مطابق عوام کو انصاف مہیا کرنے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اصلاحات سے ہی ریاست کے تینوں ستون اپنا اپنا کام بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ انصاف تمام عوام کے لیے برابر ہونا چاہیے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، ججوں کے احتساب کا عمل بھی جائز اور قانونی طریقے سے ہو۔ موجودہ حالات اِس بات کے متقاضی ہیں کہ عدالتی اصلاحات کو ترجیح ملے اور سیاسی ٹمپریچر کم کیا جا سکے۔ پاکستان کو ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں دیکھا جائے تو وہ مسلسل آخری نمبروں میں نظر آتا ہے۔ اِسی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں چالیس ہزار ، پانچوں ہائی کورٹس میں تین لاکھ اور زیریں عدالتوںمیں بیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں جو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا عملی سبب بنتے ہیں۔ایک عرصہ سے خود جج صاحبان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام اصلاحات کا متقاضی ہے۔ انصاف کی تلاش میں نکلے سائلین کی خواری معمول کی بات ہے۔ کتنے ہی جرائم میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی تاخیر ہے۔ عدالتی ٹرائل کے ذریعے ملزمان کی مجرمان میں تبدیلی کی شرح بہت کم ہے اِس لیے سول دیوانی ‘کریمنل فوجداری دونوں شعبوں میں اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہمارا سسٹم عام آدمی کو صحیح معنوں میں ڈےلیور نہیں کر پا رہا اور وہ اِس کے لیے شرمندہ ہیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسمبلی میں عدلیہ ریفارمز ایکٹ لایا جارہا ہے جس کے تحت ججز کو کنٹریکٹ پر لگایا جائے گا۔ ججز کے لیے ایک نیا سزا و جزا کا نظام ترتیب دیا جارہا ہے جس کے تحت عدلیہ میں بورڈ آف گورنرز بنایا جائے گا۔ عدالتوں کی مینجمنٹ بھی پرائیویٹ کردی جائے گی مگر باقی باتوں کی طرح یہ تمام باتیں بھی ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ جوڈیشل ریفارمز پارلیمان کی ترجیح ہی نہیں، دوسرا خیال یہ ہے کہ ساری خرابیاں عدالتی نظام میں دوسرے اداروں کی مداخلت کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عدالتی چھٹیاں بھی مقدمات میں تاخیر کی ایک اہم وجہ ہیں۔ پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی مہینے تک چھوٹی بڑی تمام عدالتیں بند رہتی ہیں۔ گرمیوں کے مہینوں میں جج صاحبان کام نہیں کرتے۔ یہ روایت برطانوی دور سے چلی آرہی ہے جن دنوں یہاں انگریز جج ہوتے تھے، ان کے لیے گرمیوں کے موسم میں عدالتی کام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور وہ دو مہینے کے لیے واپس انگلینڈ چلے جاتے تھے۔ کچھ ججز کا خیال ہے کہ پراونشل جسٹس کمپنی ایک ایسا فورم ہے جس کو بروئے کار لاکر صوبے میں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو بڑھا کر سائلین کے مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔اِسی طرح ہمارے ہاں دو معاملات پر وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمارا جسٹس سسٹم شکستہ اور کمزور ہے۔ چناں چہ اگر کسی کے ساتھ ریاست یا معاشرے کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے اور وہ اس کی دادرسی چاہتا ہے تو تاخیر سے ملنے والے انصاف یا اس کی عدم دستیابی کی صورت میں وہ مزید محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تنازعات کو حل کرنے سے قاصر ایک نظام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ایک ریاست جو ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے جو کم از کم شہریوں کی قانونی مساوات کا بھرم ہی رکھ لے، اس میں ہر کوئی ذاتی تحفظ کے لیے طاقت حاصل کرنا چاہے گا۔ ایسا نظام قانون کی حکمرانی کے تصور کے منافی ہوتا ہے۔ حقیقی چیلنج طاقت ور اشرافیہ اور افسران کے رویے میں تبدیلی کی تحریک پیدا کرنا ہے۔ افراد کے مقابلے میں اگر نظام کی مضبوطی کا عمل موجود نہ ہو تو یہ نظام طاقت ور افراد کے ہاتھوں یرغمالی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے کیوں کہ کمزور لوگوں کی بنیادی خواہش افراد کے مقابلے میں اداروں کی مضبوطی ہوتی ہے اور اِن ہی اداروں سے ان کو انصاف یا اپنے بنیادی حقوق شفاف انداز میں مل سکتے ہیں۔گلگت بلتستان میں اصلاحات کےلئے تشکےل کردہ کمےٹی اگر کامےاب ہو گئی تو ےہ نظام انصاف کےلئے خوش کن پےشرفت ہو گی۔
