تاجروں کے مسائل اور حکومت کی ذمہ داریا ں

گلگت بلتستان کی تاجر تنظیموں نے وزیر اعلی کی پریس کانفرنس سے اظہار لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے تاجروں پر ٹیکس لگانے کی مذمت کرتے ہوئے ریوینیو ایکٹ کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، حکومت کو اپنی شاہ خرچیاں ختم کرنے کا کہا ہے۔ حکومت چلانے کے لیے وسائل کی عدم فراہمی پر تاجر چندہ جمع کریں گے۔ سنٹرل پریس کلب گلگت میں تاجر تنظیموں اور مختلف وارڈز اور مارکیٹوں کے ذمہ داران نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام تاجر تنظیمیں اور تمام تاجر ایک ہیں اور آج کے بعد تاجروں کا جو بھی مسئلہ ہوگا ہم سب مل کر اس کو حل کرینگے اور تاجروں کی کوئی بھی تحریک ہوگی تمام تاجر تنظیموں کی مشاورت کیساتھ مشترکہ طور پر ہوگی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان نے گزشتہ دنوں انجمن تاجران سکردو کے ذمہ داروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی جس میں گلگت کی تاجر تنظیموں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مشاورت کی گئی لہذا اس پریس کانفرنس میں کئے گئے تمام فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں البتہ انجمن تاجران سکردو کے اگر کوئی مطالبات تسلیم ہوئے ہیں تو اس کا خیرمقدم کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی نے پریس کانفرنس میں نان لوکل تاجروں کے نام پر ریونیو ایکٹ کے تحت ٹیکسز کے نفاذ کی بات کی ہے وزیر اعلی کے تاجروں کو لوکل نان لوکل کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کو مسترد کرتے ہیں اور اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے تاجر نمائندے واضح کرتے ہیں کہ گلگت کے تمام تاجر ایک ہیں اور کسی بھی تاجر پہ ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دی جائیگی اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ کسی بھی تاجر پر ٹیکس لگے گا تو اس سے گلگت بلتستان کا عام شہری متاثر ہوگا اور پہلے سے مہنگائی میں پسی ہوئی عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا گلگت کی تمام تاجر تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ گلگت بلتستان کے اندر کسی بھی قسم کا ٹیکس غیرقانونی ہے اور ریونیو ایکٹ کو بھی غیرقانونی ایکٹ سمجھتے ہیں اور اس ایکٹ کی معطلی تک تاجر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔تاجروں کے جائز مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ نوبت ہڑتال تک نہ پہنچے اور معاملات کسی تلخی کے بغےر حل ہو سکےں۔ حکومت کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے جہاں سرمایہ کار طبقے میں بے چینی پائی جاتی ہے تو وہیں تاجر برادری بھی سراپا احتجاج ہے۔ کاروباری شخصیات کو حالات میں بہتری کی یقین دہانی کے باوجود تاجر بے چین اور بے یقینی کا شکار دکھائی دیتے ہےں اور احتجاج کا سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔گلگت بلتستان کے تاجروں کے علاوہ ملک بھر کے تاجر حکومتی پالےسوں سے ہمےشہ نالاں رہے ہےں کچھ عرصہ قبل جب ایف بی آر کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے مطابق کسی بھی قسم کے کاروباری حضرات کے لیے لازم ہو گا کہ وہ ہر اس خریدار کا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ رکھیں گے جو ان سے پچاس ہزار روپے یا اس سے زائد مالیت کا سامان خریدتا ہے۔ اس شرط سے تاجر کے ساتھ ساتھ کارخانہ دار کو بھی مسئلہ ہوتا رہا۔ہر خریدار شناختی کارڈ نہیں دینا چاہتا۔ اس طرح صنعت کاروں کا مال فیکٹریوں میں جمع ہوتا رہا ہے اور اس کی وجہ سے انہیں کیش فلو کا رہا۔ہر خریدار کارڈ دکھانا نہیں چاہتا اور ہو سکتا ہے کارخانہ دار بھی اتنی پیداوار دکھانا نہیں چاہتا جتنی وہ کر رہا ہے۔ برآمدات کے ساتھ منسلک کارخانہ داروں کو زیادہ مسئلہ نہیں تاہم اس سے منسلک تاجروں کے ریفنڈز کی ادائیگی ایف بی آر کی جانب سے گزشتہ چھ ماہ اور کچھ جگہوں پر ایک سال سے نہیں کی گئی۔ےہ بھی طے پایا کہ نیب سرمایہ کاروں کو ٹیکس کے کسی بھی قسم کے معاملات پر تنگ نہیں کرے گا۔ یہ کام ایف بی آر کرے گا اور یہ ہے بھی اسی کا کام۔ گزشتہ ایک برس کے دوران کرپشن کے خاتمے کے نام پر پانچ پانچ دس دس لاکھ کے کیسوں کے لیے بھی سرمایہ کار کو تنگ کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔سرمایہ کاروں کو نیب کے دفتر بلایا جاتا تھا اور نیب کے پاس لامحدود اختیارات ہیں۔ تو اس سے تنگ آ کر سرمایہ کار اور کاروباری شعبہ ایک ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم سرمایہ کاری ہی نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ سے نوکریوں میں کمی ہو گئی اور دیگر مسائل پیدا ہوئے تھے۔پھرچیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ٹیکس سے متعلقہ مقدمات کو واپس لینے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اب نیب کا ادارہ ٹیکس سے مقدمات کی تحقیق نہں کرے گا اور اگر کوئی کیس نیب کے نوٹس میں آیا تو اسے بورڈ آف ریونیو کو بھیج دیا جائے گا۔ کسی بھی کاروباری شخص کے لیے سب سے بڑا مسئلہ غیر یقینی کی صورتحال ہوتی ہے۔پاکستان میں بنیادی طور پر مسئلہ یہ بھی ہے کہ تاجر ہر حکومت سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اسے بڑی بڑی چھوٹ دے گی۔تاہم جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو اس کو کئی کام اور مشکل فیصلے ایک ساتھ کرنا پڑے جس کی وجہ سے معیشت میں پیسہ کم ہو گیا اور وہ سست ہو گئی۔ حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کرنا تھی اور اسے آمدن میں خسارے کا بھی سامنا تھا۔ اس کے لیے اسے شرح سود بھی بڑھانا پڑی اور ڈالر بھی مہنگا ہوا۔ اسی طرح بجلی بھی مہنگی ہوئی کیونکہ اس پر دی جانی والی چھوٹ حکومت نہیں اٹھا سکتی تھی۔دراصل حکومت نے تین چیزیں ایک ساتھ کر دیں جس میں شرح سود بڑھا دی، کرپشن کے خلاف کریک ڈاﺅن اور پھر ریگولرائزیشن کا عمل شروع ہو گیا۔پرچون اور تھوک کا کام کرنے والے تاجروں کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ پچاس ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر قومی شناختی کارڈ کی شرط ان کے حکومت سے تنازع کی بنیادی وجہ نظر آتی ہے۔پاکستان میں زیادہ تر کاروبار کرنے والا یا سیٹھ پڑھا لکھا نہیں ہے۔ وہ اپنے باپ دادا کا کاروبار چلا رہا ہے اور اس کے لیے ٹیکس ریٹرن جیسے معاملات گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ کئی لوگوں نے کمپیوٹر تو رکھ لیا ہے مگر اس کا استعمال نہ ہونے کے برابر کرتے ہیں۔ تاجر کو مسئلہ یہ ہے کہ حکومت انھیں ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا چاہتی ہے اور وہ آنا نہیں چاہتے۔حکومت نے سب کچھ ایک ہی وقت میں کرنا چاہا جس کی وجہ سے کاروباری حلقوں میں بے چینی پھیلی اور کاروبار متاثر ہوئے۔ حکومت نے کالے دھن کا راستہ روکنے کے اقدامات کیے، احتساب کے ادارے نیب نے بھی کاروباری افراد سے پوچھ گچھ شروع کی اور کرپشن کے خلاف بھی ساتھ ہی محاذ کھول دیا گیا۔ماضی میں بھی گلگت بلتستان کے تاجر مختلف مسائل پر ہڑتالےں کرتے رہے ہےں قبل ازےںگلگت بلتستان میں انتظامیہ نے ٹیکس نفاذ کے خلاف جاری احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی کہ وفاقی حکومت سے رابطہ کر کے ود ہولڈنگ ٹیکس کو علاقے میں نافذ نہیں کیا جائے گا۔مقامی لوگ گلگت بلتستان میں مظاہرے کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ علاقہ انتہائی پسماندہ ہے، یہاں نہ تو کارخانے ہیں اور نہ ہی کوئی معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں ہیں اور یہاں ٹیکس صوبہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے برابر لیا جا رہا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ علاقے میں چھوٹے دکاندار ہیں جو اپنا سامان ملک کے دیگر علاقوں سے لا کر یہاں بیچتے ہیں اور ان کا کاروبار پانچ لاکھ روپے سے زیادہ کا نہیں۔جب بینک کے ذریعے وہ رقم کہیں بھیجتے ہیں یا رقم نکلواتے ہیں تو انہیں ہزاروں روپے ود ہولڈنگ ٹیکس میں دینے پڑتے ہیں جس سے ان کا منافع تو ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے دیگر ٹیکسس کے نفاذ سے بھی یہاں لوگ پریشان ہیں۔اس حوالے سے گلگت پلتستان کے مختلف علاقوں میں احتجی مظاہرے ہوتے رہے ہےں ‘ جگہ جگہ دھرنے دیے گئے اور بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے باہر نکلے ۔ گلگت میں صرف تنخواہ دار طبقہ ہی ٹیکس دے رہا ہے۔ باقی کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا بعض لوگ سیاسی بنیادوں پر سازشیں کر رہے ہیں اور پرانے آرڈرز سامنے لا کر لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔سابق وزےرابراہیم صنائی کہہ چکے ہےں کہ وفاقی حکومت مختلف مدات رقم فراہم کر رہی جیسے خصوصی ترقےاتی پیکج میں ایک کھرب دو ارب روپے، ریگولر بجٹ میں پچیس چھبیس ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ میں انیس ارب روپے جبکہ گندم کی سبسڈی میں چھ ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ اب اگر حق کی بات کریں تو پھر بہت کچھ انہیں چھوڑنا پڑے گا یا واپس کرنا ہوگا۔ جب پوچھا گےاکہ گلگت بلتستان کو ٹیکسز سے کتنی آمدنی ہو جاتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ سینتالیس لاکھ ایک مد میں اور ود ہولڈنگ ٹیکس میں آٹے میں نمک کے برابر ٹیکس بھی نہیں آتا ایسے میں وہ ترقی نہیں کر سکتے۔ ماضی کے نئے ضوابط کے تحت تاجروں کو تین طرح کے گوشوارے جمع کروانے تھے ۔ سالانہ بنیادوں پر انکم ٹیکس ریٹرن، ششماہی بنیادوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کا ریٹرن اور ہر مہینے سیلز ٹیکس کا ریٹرن جمع کروانا ہوگا۔ ان تین ریٹرن کے لیے اکانٹنٹس رکھنے پڑیں گے۔ عملہ رکھنے پڑے گا پھر یہ ٹیکس وکلا کے ذریعے بھاری فیسیں ادا کرکے جمع کروانے ہوں گے اور پھر اس میں کوئی غلطی کوتاہی ہوئی تو سخت جرمانے اور ایک سال تک کی قید بھی ہوسکتی ہے۔ سپیشل جج مقرر کیے جائیں گے جو جلدی جلدی مقدمات نمٹا کر جلدی جلدی تاجروں کو جیل بھیج سکیں۔گلگت بلتستان کی حالےہ صورتحال میں حکام بالا پر لازم ہے کہ وہ تاجروں کو ہر حوالے سے اعتماد میں لے‘ ان کے جائز مطالبات کی تکمےل پر توجہ دے اور انہےں زےادہ سے زےادہ سہولتوں کی فراہمی کا اہتمام کرے ےاد رہے معاملات جب بلا آخر مذاکرات کے نتےجے ہی میں حل ہونا ہےں تو کےوں نہ مذاکرات کی راہ اپنائی جائے۔