وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے اس میں کوئی شک نہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے شہر صحبت پور میں عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی مخدوش حالات میں ہم نے حکومت سنبھالی، آئی ایم ایف سے معاہدہ ٹوٹ چکا تھا، مہنگائی عروج پر ہے اس میں کوئی شک نہیں، پاکستان کو پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے ہمیں خود ہمت پیدا کرنی ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ وفاق نے سیلاب متاثرین کے لیے سوارب روپے خرچ کیے اور اب بھی ان کے لیے کئی سو ارب روپے درکار ہیں۔ہم سمجھتے ہیں وزیراعظم کی جانب سے محض مہنگائی کا اعتراف کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔کون نہیں جانتا کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حکومتی دعوئوں کی قلعی کھل گئی ہے، مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دیں،سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ اشیا خورو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث شہری سبزیوں اور پھلوں کی قیمت معلوم کرکے اپنے ہوش کھو دیتے ہیں ، مہنگائی کی وجہ سے گوشت تو دور کی بات عوام سبزیاں خریدنے کے قابل بھی نہیں رہی،دوکاندار اپنی مرضی سے اپنے ریٹ لگائے بیٹھے ہیں،مہنگائی کی وجہ سے عوام شدید پریشان ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ اشیا خور ونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرے اور عوام کو اس مہنگائی سے نجات دلائی جائے، دوسری جانب دوکانداروں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں مہنگائی ہے قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی عروج پر ہے ہمیں جو چیز مہنگی ملے گی تو ہم مجبورا مہنگی فروخت کریں گے۔حکو متی دعوئوں کے باجو د مہنگائی کو کنٹرول نہ کیا جا سکا رروزا نہ کی استعمال ہو نے والی اشیا ضروریہ کے نرخ آسما ن سے با تیں کر نے لگے حکو مت عوام کو بھو ک و افلا س کی مو ت مارنا چا ہتی ہے لو گ فا قوں پر آگئے گھروں میں ایک وقت کا کھانا بننا بھی ناممکن ہو گیا۔عوام کو سستی اشیا کی فراہمی کیلئے لگائے گئے ما ڈل با زار بھی عوام کو ریلیف دینے میں نا کام دکھائی دیتے ہیں۔ با زاروں میں دستیا ب مصالحہ جات، سبزیا ں، گھی،دا لیں، چینی آٹا ما رکیٹ ریٹ پر ہی دستیا ب ہے ایک دو روپے کے فرق سے زیادہ اشیا خورونو ش کے نرخو ں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔حکو مت آئے روز تو یہ دعوے کرتی ہے کہ ہم نے مہنگائی کو کم کر نے کے اقدا ما ت کر لئے ہیں لیکن ان میں کوئی عملی اقدا م تو نظر نہیں آتا ا نہوں نے کہا کہ عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کیلئے بنائے جا نے والے یہ ما ڈل با زار تو نا م کے ہی ماڈل بازار ہیں ان میں دستیاب اشیا کی قیمتوں میں تو کوئی خاصا فرق نہیں۔حکومت سے جب مہنگائی اور بے روزگاری کے بارے میں سوال کیاجائے تو وہ پچھلی حکومتوں کوقصوروارٹھہراتی ہے مگرمہنگائی بے روزگاری اورلاقانونیت کی وجہ سے عوام ناراض آتی ہے۔مہنگائی کا جو طوفان آیاہے اس سے غربت میں بستے ہوئے نچلے طبقات کو سانس لینا تومحال ہوچکا ہے۔گزشتہ چند برسوں میں روزمرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نے غریب کی کمر توڑ دی ہے۔پاکستان کا شمار دن بہ دن ایک غریب ملک میں ہوتا جا رہا ہے جہاں پر لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بھی میسر نہیں۔ پاکستان میں اکثریت لوگوں کا ذریعہ آمدنی انتہائی قلیل ہونے کی وجہ سے لوگوں کا گزر اوقات انتہائی دشوار اور مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دن بدن تمام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح عروج پر پہنچ گئی اور اس مہنگائی نے گزشتہ چار پانچ سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی۔جوں جوں وقت گزر رہا ہے مہنگائی کاجن بوتل سے باہر آرہا ہے۔ڈالر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ملکی معیشت ہردن کے ساتھ ہچکولے کھارہی ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے عوام کے لیے درد سر بن گیا۔ملک بھرمیں ہوش ربا مہنگائی کے سونامی سے عام آدمی کے لیے دو وقت کی آبرو مندانہ روٹی کا حصول مشکل تر ہو گیا ہے۔ اشیائے خورونوش کے نرخوں میں اضافے کے روز افزوں رجحان کے باعث عام شہری کے لیے زندگی اس حد تک مشکل اور وبالِ جاں بن چکی ہے کہ وہ اس سے چھٹکارے کے لئے خودکشی کا مسافر بننے کو آسان سمجھتا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ عام صارف انہیں دیکھ تو سکتا ہے مگرخرید نہیں سکتاتو دوسری طرف نئے تعلیمی سال کے آغاز میں کمر توڑ مہنگی نے کئی متوسط گھرانوں کے نونہالوں کے لیے معیاری تو کجا عام تعلیم کا حصول بھی ایک ادھورا خواب بنا دیا ہے۔ تعلیمی سال کے آغاز پر بچوں کو نئی کتابیں کاپیاں دلانا والدین کے لیے چیلنج بن چکا جب کہ بچوں کا تعلیمی کورس خریدنے کے لیے نکلے کئی والدین مہنگائی کے باعث اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔پھر ادویات مہنگی ہونے کی بدولت متعدد غربت کے ماروں کی زندگی اجیرن ہو گی۔اب نہ تو ہسپتالوں میں غریب کیلئے ادویات دستیاب ہیں ۔ نہ ہی باہر سے خریدنے کی سکت رہی ۔تعلیم صحت بنیادی حقوق ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ایک عام شہری کیلئے ان حقوق کا حصول ایک مسئلہ بن چکا اور پھر ملک میں اکثر نوجوان جو سب کچھ لٹا کر تعلیم حاصل کر کے ڈگریاں لے کر بے روزگاری کا شکار ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ مہنگائی پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، شرح میں اضافہ مجموعی طور پر نو اعشاریہ41 فی فیصد تک ریکارڈ کیا گیا۔ محکمہ شماریات کے ماہانہ اعداد و کے مطابق ملک میں مہنگائی نے گزشتہ پانچ سال کی بلند ترین سطح کو عبور کر لیا ہے۔ اس وقت سبزیوں، دالوں، پھلوں، گوشت، دوائیوں، آٹا، چاول، چینی اور چائے کی پتی تعلیم صحت علاج معالجہ ایک غریب آدمی کی دسترس سے دور کر دی ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو ہماری زندگی کا لازمی جزو نہ لیکن کمر توڑ مہنگائی نے خلق خدا کو ان سے محروم کر دیا ہے۔ اشیائے خورونوش کے علاوہ بجلی کے بلوں نے بھی عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ چھ ہزار روپے ماہوار کھانے والا شخص کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے۔ بچوں کو روکھی سوکھی بھی کھلانی ہے۔ بیمار بھی ہونا ہے۔ کام پر جانے کے لئے بس میں سفر بھی کرنا ہے۔ گھر آئے مہمان کو بھی بھگتانا ہے۔ بچوں کی شادیاں بھی کرنا ہیں۔ سو جس طرح وہ زندہ رہتا ہے اس زندگی میں ہر لمحے ایک موت چھپی ہوتی ہے۔ شائد وسائل پرتعیش زیست والوں کو علم ہی نہیں کہ یہ غربت کیا گل کھلاتی ہے اور معاشرے کی اخلاقی قدریں کن تاریک گلیوں کے سفر کر رہی ہیں۔یہاں اس وقت چھ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق جس شخص کی یومیہ آمدن دو ڈالر روزانہ سے زیادہ نہ ہو، وہ غریب شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ایک تہائی آبادی اس معیار سے نیچے حد درجے افلاس اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ غربت صرف دیہاتوں تک محدود نہیں، بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اکثریت انہی غریبوں کی ہے، جو دو تین عشرے پہلے متوسط درجے کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ غربت کی سطح پر آگئے۔ غربت کے ساتھ مہنگائی کا جن ہمارے سروں پر کچھ اس طرح مسلط ہے کہ جان چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ایک غیر ملکی سروے رپورٹ کے مطابق اکثر پاکستانیوں کی آمدن کا تقریبا پچاس فیصد حصہ فقط خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے، اس وقت ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچہ پندرہ سے بیس ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ چارآدمیوں پر مشتمل گھرانے کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی اور بالکل سادہ کھانے کا حساب لگائیں تو بڑے آرام سے چار پانچ سو روپے بنے گا۔ جن لوگوں کی آمدن تیس سے چالیس ہزار ماہانہ ہے، ان کے بارے میں تو یہ کہنا درست ہے کہ ان کی آمدن کا نصف خوراک پر خرچ ہوتا ہے، مگر جن کی آمدن ہے ہی آٹھ سے بارہ ہزار روپے تک ہے، وہ لوگ کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں۔معاشرے کا کون سا طبقہ کتنا متاثر ہوا اس نے غریب تو غریب متوسط طبقے کے لوگوں کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس مہنگائی نے غریب عوام کیلئے جینا محال کردیا ہے اور غریب و مزدور طبقہ کی تو بات ہی مت پوچھئے ان کے یہاں تو چولہا جلنا ہی دشوار ہوگیا ہے۔ بھوک افلاس فاقہ کشی کا منظر بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ بہ صورت حال کو کہ ملک میں خوردنی اشیا کی قلت اور مہنگائی دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس نے غریبوں کا خون تک نچوڑ لیا ہے ۔ہمیں متوسط غریب طبقہ کو سامنے رکھ کر پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں اور ملک میں خوشحالی ہو۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نرخوں پر کنٹرول کرے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
