توانائی بچت پلان کے نفاذ کی منظوری



وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سفارش پر توانائی بچت پلان کے نفاذ کی منظوری دے دی ہے جو فی الفور پورے پاکستان میں نافذ العمل ہوگا، ملک میں مارکیٹیں ساڑھے آٹھ اور شادی ہالز دس بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،سرکاری محکموں میں تیس فی صد بجلی بچائی جائے گی اور توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے دیگر ذرائع کا استعمال کیا جائے گا،فیکٹریوں میں اب غیر موثر پنکھے نہیں بنائے جائیں گے، ملک میں صرف پنکھے بارہ ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں،ملک میں اسٹریٹ لائٹس پچاس فیصد آن ہوں گی۔ ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے۔ آج کابینہ اجلاس میں کوئی لائٹ نہیں جل رہی تھی۔ اجلاس مکمل طور پر سورج کی روشنی میں ہوا۔ ہماری عادات و اطوار باقی دنیا سے مختلف ہیں۔ وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ اللہ کی عطا کی گئی روشنی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم بتیاں جلاتے ہیں۔ دکانیں دوپہر 12یا ایک بجے کھلتی ہیں۔ ہمیں گھروں میں بھی سورج کی روشنی استعمال کرنی چاہیے۔ ہم گرمیوں میں29ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یکم فروری کے بعد پرانے بلب تیار نہیں کیے جائیں گے۔ غیر معیاری پنکھے بھی اب نہیں بنیں گے جب کہ غیر معیاری پنکھوں پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ توانائی بچت پلان ملک بھر میں نافذ العمل ہوگا۔ ساتھ ہی ملک بھر میں الیکٹرک بائیکس کو فروغ دیا جائے گا۔ موٹرسائیکل کی مد میں صرف تین ارب ڈالر کا فیول استعمال ہو رہا ہے۔ الیکٹرک بائیکس کی وجہ سے سالانہ  تین ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پانی کی بچت سے متعلق بھی اقدامات کیے جائیں گے جس کے لیے بلڈنگ بائی لاز میں تبدیلی کی جائے گی۔ہم قدرتی توانائی کے بجائے توانائی کو خود پیدا کرتے ہیں، جس پر پیداواری لاگت آتی ہیں۔ پالیسی کے نتیجے میں شادی ہال، ریستوران اور مارکیٹوں کے اوقات کار کی پابندی سے 62 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ غیر موثر پنکھوں کا استعمال ترک کرنے سے 15 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ گرمیوں میں استعمال ہونے والی بجلی میں سے 5300 ائرکنڈیشنڈ اور باقی بجلی پنکھوں اور لائٹوں کی مد میں استعمال ہوتی ہے۔ایک سال میں گیزرز کے اندر ایکونیکل بیفلز نصب کیے جائیں گے، اس سے گیس کی بچت کے ساتھ 92 ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔دریں اثناء پنجاب حکومت نے بازار جلد بند کرنے سے متعلق وفاق کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم خود کریں گے اور تمام اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کے بعد کریں گے۔پنجاب کے سینئر وزیر میاں اسلم اقبال نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ خود کرے گی، اس کیلئے پنجاب حکومت اپنی کابینہ کا اجلاس خود بلائے گی، ملک میں بے روزگاری بہت بڑھ رہی ہے اس بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے۔ وفاقی حکومت اپنی ناکامی کے فیصلے عجلت میں کررہی ہے لیکن ہم تمام اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کریں گے، پنجاب کے چیمبرز اور دکان داروں سے میٹنگ کی جائے گی۔ ملک کی معیشت پہلے ہی سکڑ گئی ہے، حکومت اپنی ناکامی کا بدلہ عوام سے لے رہی ہے، امپورٹڈ حکومت کے فیصلے پنجاب حکومت کسی صورت میں نہیں مانے گی۔ بجلی کی بچت ہم سب کی ذمہ داری ہے'جب ہم گھر میں توانائی بچاتے ہیں، تو ہم سب بجلی کی پیداوار کی ضرورت کو کم کرنے میں ایک مددگار اور چھوٹا لیکن قابل قدر کردار ادا کر سکتے ہیں۔بجلی کے ذریعے تمام استعمال ہونے والے آئٹمز اور بجلی کے بِل میں اضافہ کرنے والے عوامل کے علاوہ گھر میں کچھ ایسی اشیا موجود ہیں جو بجلی کے خرچ کا باعث بنتی ہیں اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا۔سٹینڈ بائی پوزیشن پر کوئی بھی الیکٹرانک مشین، ٹی وی، کمپیوٹر سسٹم، میوزک سسٹم، گیمز، سوئچ بورڈ میں لگے موبائل فون کے یا دیگر چارجرز بجلی کے وولٹیج میں خاموش اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ آپ ان تمام برقی آلات کو مکمل طور پر آف رکھیں تاکہ بجلی کی بچت کو صحیح معنوں میں ممکن بنایا جا سکے۔پیک آورز میں بجلی کے کم سے کم استعمال کے علاوہ باقی گھنٹوں اور وقت کے دوران بھی بجلی کے استعمال پر غور کریں اور بجلی کے بل میں بڑھتے اضافے کو اپنے طور پر کم کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے علم میں اضافے کے لیے بجلی کے فی یونٹس پرائز پر نظر رکھیں۔انورٹر ریفریجریٹر، واشنگ مشین اور ایئرکنڈیشنر کا استعمال بجلی میں زائد نہیں تو کچھ حد تک کمی ضرور لاتا ہے۔ اسی طرح ایک عام بلب کی جگہ آپ انرجی سیورز کو اپنے گھر کی زینت بنائیں تو یہ بھی بجلی کا کم سے کم استعمال کرتے ہوئے آپ کے گھر کو روشنی بخشتے ہیں۔ریفریجریٹر کا درجہ حرارت کم رکھیں'ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس درجہ حرارت پر زیادہ توجہ نہیں دیتے جس پر ہمارا ریفریجریٹر چلتا ہے۔ یقینا، ہمارے پاس کولڈ ڈرنکس ہیں اور سبزی تازہ رہتی ہے۔ تاہم، جب توانائی کے تحفظ کا خیال رکھتے ہیں، تو درجہ حرارت کو چند ڈگری نیچے رکھنے سے بجلی کی بچت ہوتی ہے۔اس کے تھرموسٹیٹ میں ہلکی سی موافقت کے ساتھ، آپ کا فریج اب بھی ہر چیز کو ٹھنڈا اور تازہ رکھے گا، جبکہ اس چھوٹی سی تبدیلی کے نتیجے میں بجلی کے بلوں کو کم کرنے میں مدد ہوگی۔ فریزر کو کبھی کبھار ڈیفروسٹ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے، عام طور پر مہینے میں ایک بار۔ جب فریزر میں ضرورت سے زیادہ برف جمع ہو جاتی ہے، تو سسٹم اس تمام برف کو محفوظ رکھنے اور ٹھنڈی ہوا کو رواں رکھنے کے لیے سخت محنت کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، ڈیفروسٹ کی ضرورت والے فریزر میں زیادہ توانائی استعمال ہوتی ہے اور آپ کی توانائی کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔جب بھی آپ ڈیفروسٹ کرنا چاہیں، صرف فریزر کو ان پلگ کریں اور کھانے کی تمام اشیا کو ہٹا دیں۔ تیزی سے پگھلنے کے عمل کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیں۔زیادہ تر گھرانوں میں کپڑے دھونے اور سکھانے کے لیے واشنگ مشین اور ڈرائیر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گھر بھر کے کپڑے دھونے کے لیے یہ ایک آسان اور فوری حل ہے لیکن اس کا سمجھدار استعمال بجلی کی بچت میں آپ کی بہتر مدد کر سکتا ہے۔اسی طرح ڈرائیر کا زیادہ استعمال کرنے کے بجائے اگر دھوپ میں کپڑے سکھائے جائیں تو یہ بھی بجلی کی بچت کا زریعہ ہے۔بظاہر یہ بات کچھ لوگ تسلیم نہیں کرتے کہ ہم شام میں کس طرح لائٹس کے بغیر رہ سکتے ہیں یعنی ہمیں ہر کمرے، کچن اور ٹی وی لانج میں لائٹ کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو انہی روشنیوں میں سے کچھ اضافی ہیں۔ جیسے گھر کے مرکزی گیٹ اور باغچے میں جتنے بھی بجلی کے پوائنٹس نصب ہوں لیکن آپ ان سب میں ایک ہی روشن کریں۔کچھ لوگ رات سونے سے پہلے کچن کی لائٹ آف نہیں کرتے اور استعمال کے بغیر بھی کچن روشن رہتا ہے جو کہ بجلی کا اضافی خرچ ہے۔ اسی طرح گھر کے جس بھی حصے میں پنکھے اور لائٹ کی ضرورت نہیں اسے آف ہونا چاہیئے۔پرانی برقی تاریں، کیبل اور وہ سوئچ بورڈ جو کافی عرصہ سے زیرِ استعمال ہیں اور ان سے منسلک کیبلز وغیرہ مختلف جگہوں سے خراب ہو گئی ہیں، کٹ گئی ہیں یا پھٹ گئی ہیں ان کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ کبھی بھی نہ صرف کسی حادثے کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ زیادہ برقی توانائی کھینچنے کا باعث ہیں۔سورج ڈھلنے کے بعد گھر کی کھڑکیاں اور دروازے کھولنے سے تازہ ہوا کا گزر ممکن ہو پائے گا اور یوں گھر کے درجہ حرارت میں واضح کمی واقع ہو گی۔بجلی دورِ جدید کی اہم ضرورت ہے۔ برقی آلات کے محتاج ہیں۔ گھر ہو یا دفتر، فیکٹری ہو یا سڑک نیز ہر جگہ بجلی ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر پچھلی چند دہائیوں سے نہ صرف ہماری روزمرہ کی زندگی میں بجلی کا استعمال بڑھ گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ضیاع بھی افسوس ناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ گلی اور سڑکوں کی سٹریٹ لائٹس صبح آٹھ بجے تک جلتی دکھائی دیتی ہیں جہاں ایک لائٹ اور پنکھے سے گزارا ممکن ہے وہاں تین تین پنکھے چلتے دکھائی دیتے ہیں غیر ضروری آلات کا استعمال تقریبات کے موقع پر برقی قمقموں کا استعمال یہ سب اس بات کی نشاندہی ہے کہ بجلی کے بحران میںہمارے رویوں کا بھی حصہ ہے اور پھر ہم اس بات کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ہمارا جینا محال کر رکھا ہے۔ ہمارے شمالی علاقوں میں پن بجلی کے لئے جو قدرتی مواقع موجود ہیں وہ کسی بھی ترقی پسند قوم کیلئے ایک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔اسی طرح توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہوا اور شمسی توانائی وغیرہ اور روایتی ذرائع مثلا کوئلہ اور گیس وغیرہ کا نہ صرف اقتصادی موازنہ ضروری ہے بلکہ ان کے دور رس ماحولیات اور صحت پر پڑنے والے اثرات کا تجزیہ بھی نہایت اہم ہے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دنیا کے دیگر ممالک اس وقت کس سمت میں جارہے ہیں اور سائنسی بنیادوں پر کیا چیز ہمارے لئے بہترین ثابت ہوگی۔ جب تک ہم تمام صورت حال کا جائزہ نہیں لے لیتے ہمیں یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کہ ہم کس ذریعے کو اختیار کرتے ہوئے ترقی کریں۔ہمیںسستے بلکہ ماحول دوست اور مستقبل میں فائدہ مند ذرائع کو کام میں لانا ہوگا۔