چیف کورٹ کی حوصلہ افزا کارکردگی

گلگت بلتستان چیف کورٹ نے چیف جسٹس علی بیگ کی سربراہی میں عوام کو سستے اور فوری عدل وانصاف کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے سال 2022 یکم جنوری تا 31دسمبر 2022تک دیوانی اور فوجداری پر مشتمل3ہزار 499مقدمات نمٹا دئیے۔ معزز عدالت نے اس دورانیہ میں ڈویژن بنچوں میں ایک ہزار 272 اور سنگل بینچوں میں 2ہزار 2 27مقدمات پر فیصلے سنا کر نمٹائے جن میں دیوانی کے2ہزار 61اور فوجداری کے 14 سو 38 مقدمات پر فیصلے سنائے جبکہ نمٹائے گئے مقدمات میں گلگت پرنسپل سیٹ میں 2ہزار 8سو46، سکردوبنچ کے 5 سو 40 اور دیامربنچ کے 113مقدمات شامل ہیں جبکہ مجموعی طور پر سال 2022میں 3499مقدمات نمٹائے گئے۔ سال 2022 یکم جنوری تا 31دسمبر 2022تک گلگت بلتستان چیف کورٹ میں 3ہزار 6سو 46مقدمات دائر ہوئے، 2022کے اختتام پر گلگت بلتستان چیف کورٹ میں 1ہزار 7سو96مقدمات باقی رہ گئے ہیں۔شعبہ تعلقات عامہ گلگت بلتستان چیف کورٹ سے جاری سالانہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق سال 2022کے اختتام تک چیف جسٹس گلگت بلتستان چیف کورٹ جسٹس علی بیگ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ میں 1313مقدمات جبکہ چیف جسٹس نے سنگل بینچ میں 279مقدمات نمٹائے۔ جسٹس ملک عنایت الرحمن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ میں 1211، سنگل بینچ میں 232، جسٹس جوہر علی خان نے دو رکنی بینچ میں 1562، سنگل بینچ میں 299، جسٹس راجہ شکیل احمد نے دو رکنی بینچ میں 1078، سنگل بینچ میں 200مقدمات نمٹائے۔ اسی طرح جسٹس مشتاق احمد نے دو رکنی بینچ میں 193، سنگل بینچ میں 29مقدمات نمٹائے، جسٹس جاوید احمد نے دو رکنی بینچ میں 295، سنگل بینچ میں 205مقدمات جبکہ جسٹس جہانزیب خان نے دو رکنی بینچ میں 87اور سنگل بینچ میں 28مقدمات پر فیصلہ سنا کر نمٹائے۔ یکم جنوری 2022تا 31دسمبر2022تک گلگت میں 2ہزار 7سو 81، سکردو میں 624اور دیامر میں 241مقدمات دائر ہوئے۔ایک ایسے وقت میں جب ہماری عدالتیں مقدمات التوا میں ڈالنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں چیف کورٹ میں مقدمات نمٹانے کی حوصلہ افزاء کارکردگی کو یقینا سراہا جانا چاہیے۔ اگرچہ پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ مقدمات کو نمٹانے کے حوالے سے زیادہ روشن نہیں ہے بلکہ مقدمات کو لٹکانے کی شہرت میں ہماری عدلیہ کے ذمہ دار بھی کئی بار بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ سارے عدالتی نظام کے تطہیر سے گزارنے کے اعلانات بھی ہوئے۔ عدل کی اہمیت کے پیش نظر اسی شعبہ کو معاشرے میں احترام اور وقار بھی ملا مگر معاشرتی زندگی پر اس شعبے کے مثبت سے زیادہ منفی مضرات ہوئے۔ اس دوران کئی روایات ٹوٹیں یعنی ججز کے بارے میں یہ محاورے بنے تھے کہ وہ خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں خود ججز نے اس محاورے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں اور اس رسم بد کو شروع کرنے کا سہرا آسانی سے نسیم حسن شاہ کے سر باندھا جا سکتا ہے جنہوں نے نواز شریف کو بطور وزیر اعظم ہٹانے کے خلاف مقدمہ میں ماضی کی ساری روایات توڑ کر خود بدلنے کی ایسی رسم کا آغاز کیا کہ عدلیہ کے احترام اور ججوں کے مقام کو ملحوظ نظر رکھ کر لکھی جانے والی وہ کتاب بالکل غیر متعلق ہو گئی جو عدلیہ کا حصہ بننے والے کسی جج کو اس کا کوئی دانشور دوست تحفہ دے دیتا تھا اور جس میں باقی باتوں کے علاوہ یہ بات سب سے اہم تھی کہ ہائیکورٹ کا جج مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے سامنے پانی کا ایک گلاس ضرور رکھے جونہی سماعت شروع ہو تو ایک گھونٹ پانی منہ میں پینے کی غرض سے نہیں بلکہ اسے منہ میں روکے رکھنے کی غرض سے اس وقت تک رکھے جب تک وہ برداشت کر سکتا ہے جب بات برداشت سے باہر ہو جائے تو اسے حلق سے اتار کر دوسرا گھونٹ پانی منہ میں ڈال لے اور یہ کام وقفے وقفے سے دوران سماعت جاری رکھے اگر گلاس سے پانی ختم ہو جائے تو دوسرا گلاس پانی کا منگوا کر اپنی اس پریکٹس کو جاری رکھے مقصد اس کا سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ جج خاموش رہنے پر مجبور ہو وہ بولے نہیں صرف سنے ۔ افتخار محمد چودھری نے چیف جسٹس آف پاکستان بن کر نسیم حسن شاہ کی اس رسم بد کو اتنا پانی دیا اتنی کھاد ڈالی کہ سپریم کورٹ میں جانے والے اپنی عزت بچانے کیلئے صدقہ خیرات کر کے عدالت جانے پر شریف آدمی کی توہین و تضحیک، جیل بھیجنے کی دھمکیاں اور نوکری سے چھٹی کرانے سے لیکر ہتھکڑیاں لگوا کر ذلیل کرنے تک کی زبان اتنے تواتر سے چلائی کہ انصاف کے حصول سے لوگ تائب ہونے لگے۔ اس کی افتخار محمد چودھری نے ہرگز پرواہ نہ کی اور جہاں کسی بے عزتی کرنے کو دل چاہا اور اسے کسی زیر سماعت مقدمہ میں عدالت میں نہ پا کر اسے کسی سوموٹو میں بلا کر بے عزت کر دیا اخبارات میں ایسی خبریں لگوا کر اہم ازاں بعد ٹیلی ویژن کے نئے چینلز پر اپنے ٹکر چلوا کر وہ خوش ہوتے تھے۔ ان کے نزدیک انصاف کی صرف اتنی اہمیت تھی کہ انہیں ان کی مرضی کاانصاف ضرور ملنا چاہئیے چنانچہ سپریم کورٹ کا فل بنچ ہفتوں نہیں مہینوں صرف ان کو انصاف فراہم کا مقدمہ ہی سننے اور عملا ان کو انصاف دینے کیلئے صبح سے شام تک سپریم کورٹ صرف ایک مقدمہ سنتی اور باقی پورے پاکستان کے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والا ادارہ محدود بہت ہی محدود سرگرمی میں جت گیا۔ اس سے پہلے سید سجاد علی شاہ کا نواز شریف کو ان کی مرضی کا انصاف نہ دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ پر سیاسی حملہ کی شکل میں ایک نئی تاریخ رقم کر چکا تھا اور یہ لڑائی پاکستانی سیاست پر لکھی جانے والی کسی بھی کتاب میں پڑھی جا سکتی ہے مگر یہ لڑائی بھی مقدمے کی سماعت کے دوران ججوں کی خاموشی کو نہ توڑ سکی اور وہ اس روایت کی پاسداری کرتے رہے۔جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس شیخ انوار کے بنچوں پر سیاسی جانبداری کی تہمت ذوالفقار علی بھٹو لگاتے رہے مگر ان حضرات نے بھی عدالت کے کمرے میں زبان بند رکھی جو کسی مقدمے کے فیصلے میں کیا۔ اس سے بہت پہلے جسٹس منیر کے کردار کو مقدمے اور ان کے ریمارکس کو سمجھے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ہماری بدقسمتی جسٹس منیر بھی ریٹائرمنٹ کے بعدنجی محفلوں میں اپنے فیصلے میں کہتے تھے کہ ان سے غلطی سرزد ہو گئی ۔یہ سچ ہے کہ بہت ساری شکایات کا تعلق سرکاری حکام کے امتیازی اقدامات اور ان کے صوابدیدی اختیارات کے ناجائز استعمال سے ہے۔ جن سے لوگوں کے حقوق، مفادات اور آزادیوں پر زد پڑتی ہے۔ یوں متاثرہ افراد ناانصافی کے ازالے کیلئے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کو یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں کی طرف سے ملکی نظامِ انصاف کو مضبوط و مستحکم کرنے کے بارے میں بے عملی یا بہت ہی کم عملی سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔ عدالتوں، خاص طور پہ ماتحت عدالتوں کے پاس موثر کارکردگی کیلئے درکار مناسب وسائل کا نہ ہونا ہے۔ بلاشبہ کئی عدالتیں انتہائی بے سروسامانی کے حالات میں کام کر رہی ہوتی ہیں یعنی عدالتی افسران اور انتظامی عملہ کی مستقل کمی۔ کچھ شعبوں میں ججز کی تعداد کو دگنا بلکہ تگنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیرِ التوا مقدمات کے ساتھ رفتار برقرار رکھی جا سکے۔ ناکافی عدالتی عمارتیں، جج صاحبان اور انتظامی عملہ کیلئے رہائشی سہولتوں کے فقدان کا مسئلہ بھی مذکورہ بے سروسامانی کی کڑی ہے۔ ان عدالتوں کے پاس مناسب دفتری سازوسامان کی کمی ہے اور انہیں جدید ٹیکنالوجی تک بھی رسائی حاصل نہیں حتی کہ ان کی لائبریریوں میں قانون اور فیصلوں کے متعلق انتہائی ضروری کتابیں بھی نہیں پائی جاتیں۔ ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پر سست نگرانی بھی تاخیر کی وجوہات میں شامل ہے۔عدالتی کارروائی کا موثر بندوبست نہ ہونا، مقدمات کی نامکمل فائلیں، قانونی و عدالتی تربیت کے نظام میں نقائص، تنازعات کے متبادل حل کے نظام کا عدم استعمال، پرانے قوانین، غیرلچکدار ضابطے، سبھی خراب صورتِ حال میں اضافہ کرتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی طرف پیش قدمی، شہری زندگی کا رجحان، نجکاری کی پالیسی اور اس کے نتیجہ میں مزدوروں کی تخفیف کا عمل، جیسے عوامل معاشرتی ڈھانچے میں مزید دراڑیں ڈالتے ہیں اور جرائم کے گراف کو اونچا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بلاشبہ یہ فہرست بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال امنِ عامہ میں خرابی کا باعث بنتی ہے اور اقتصادی ترقی کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ یہ اگر انصاف تک رسائی کو ناممکن نہ بھی بنائے تو بھی اس کو محدود ضرور کرتی ہے اور نظامِ انصاف پر عدم اعتماد کا باعث بنتی ہے۔ عدالتی نظام کو درپیش مسائل اور مشکلات بہت ہی گمبھیر اور بھیانک نظر آتے ہیں، تاہم یہ ہمیں انہیں حل کرنے کا بیش بہا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ایسے میں چیف کورٹ کی کارکردگی کو سراہا جانا چاہیے جس نے مقدمات کے تیزی سے فیصلوں کو یقینی بنا کر سائلین کو انصاف فراہم کیا۔