معیشت اور دہشت گردی کے چیلنجز

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے ایک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور اس کے لیے معیشت اور دہشت گردی کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔کچھ عرصہ قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے وہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے وقت یا 1998 کے جوہری تجربات کے بعد اقتصادی پابندیوں سے بھی بدتر ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی غیر ایماندارانہ پالیسیوں کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ 2017 کے ایک ٹریلین روپے سے کم ہو کر رواں سال 500 ارب روپے سے بھی کم رہ گیا۔ پاکستان میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا اصل مسئلہ سیاسی نظام نہیں بلکہ آئین کے تقدس کو نہ ماننا ہے۔احسن اقبال نے کہا تھا کہ ہمیں ایسے سنگین چیلنجز درپیش ہیں جن کا ہم نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا، حتی کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت یا جب ہم نے جوہری تجربات کرنے کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تب بھی ایسے چیلنجز نہیں تھے۔گزشتہ 75 برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چوتھی سہ ماہی میں ترقی کے لیے کوئی فنڈز نہیں ہیں اور حکومتی خزانہ خالی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشی ترقی کا دارومدار سیاسی استحکام اور حکومتی پالیسیوں کے تسلسل پر ہے، اس بات پر غور کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان میں آئینی اور جمہوری اصولوں کو مضبوط کیا گیا یا کمزور کیا گیا اور جمہوری اور آئینی عمل کیوں آگے نہیں بڑھا۔ جنوبی ایشیا اور افریقہ کی دیگر اقوام نے اقتصادی اور ترقیاتی محاذوں پر پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا جو پاکستانیوں کے لیے گہری تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان کی برآمدات تقریبا بیس کروڑ ڈالر تھیں جو بڑھ کر 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ اسی عرصے میں جنوبی کوریا کی برآمدات 10 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 770 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ملک میں ترقی کا پہیہ آگے بڑھانے کے لیے ہمیں سیاسی تقسیم اور محاذ آرائی کو ہنگامی بنیادوں پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ کامیاب ممالک نے اپنی معیشت اور ترقی میں تبدیلی لانے کے لیے ایک متفقہ اور سوچی سمجھی حکمت عملی اپنائی، امید ہے کہ پاکستان بھی ایسے چیلنجز پر قابو پا سکتا ہے۔پاکستان کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے پالیسی کے تسلسل پر ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ ہم آزادی کے بعد سے اب تک ترقی کیوں نہیں کر سکے۔یوں گمان ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں گھوم کر اس صورتحال پر واپس آ گئے ہیں جہاں سے ہم نے 1947 میں آغاز کیا تھا۔ چین، بھارت، بنگلہ دیش اور ملائیشیا جیسے ممالک چند دہائیاں قبل معاشی طور پر پاکستان سے پیچھے تھے لیکن اب وہ پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں۔ پاکستان میں امن وامان کی خراب صورت حال، عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ملک کے بڑے حصے میں آنے والے سیلاب، بجلی اور قدرتی گیس کی شدید قلت شرح نمو میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کو بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے اور اس ضمن میں پاکستانی حکومت کو اسے کم کرنے کے لیے شدید مشکلات درپیش ہیں۔ بجٹ کے خسارے کی بڑی وجوہات میں سکیورٹی اخراجات میں اضافہ، مختلف اشیا پر سبسڈی اور سیلاب کے معیشت پر برے اثرات شامل ہیں۔پاکستان میں بجلی اور قدرتی گیس کی شدید قلت نے صنعتی پیداوار بالخصوص ٹیکسٹائل اور کھاد کی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ۔اقوام متحدہ نے غربت کے خاتمے کے لیے پاکستان پر معاشی اصلاحات پر عملدرآمد، سرکاری محکموں کو مضبوط کرنے، گورننس میں بہتری اور ایسا نظام تشکیل دینے کی صرورت پر زور دیا جس کے تحت غریب طبقوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی کمی کا رجحان ہے۔ یوں مسلسل بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے، معمول کی ادائیگیوں اور سکڑتی ہوئی ترسیلات زر کی وجہ سے زرِ مبادلہ پر دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اسی دبائو کی وجہ سے حال ہی میں روپے اور ڈالر کی شرح میں چار فی صد تک کمی ہوئی ہے۔ آنے والے سالوں میں پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ اگر برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا اور درآمدات کی حوصلہ شکنی نہ ہوئی تو زرِمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے پاکستان کو مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے ۔ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب خطرناک حد تک کم ہے۔ ماضی میں کی گئی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ ٹیکس نظام میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آسکی۔ بلیک اکانومی کا حجم بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ کچھ ماہرین بلیک اکانومی کو مجموعی اکانومی کے حجم کا ساٹھ فی صد سے بھی زائد بتاتے ہیں۔ معاشی ناہمواری اور علاقائی تفاوت بھی وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔ آبادی کے نئے اعدادوشمار سے ظاہر ہوا کہ آبادی کا حجم توقع سے کہیں زیادہ نکلا۔ ہر سال چالیس لاکھ سے زائد افراد ملازمت کی حد کو پہنچتے ہیں لیکن روزگار کے امکانات اس رفتار سے نہیں بڑھ رہے۔ عالمی ادارے اور ماہرین معیشت اداروں میں اصلاحات پر زور دیتے آئے ہیں لیکن مختلف ادوار کی حکومتوں کا اصلاحات کا ریکارڈ مایوس کن ہی رہا۔ پبلک سیکٹر کارپوریشنز اس کی ایک واضح مثال ہیں جن میں سالہا سال سے سیکڑوں ارب روپے کا خسارہ ہو جاتا ہے لیکن اس خسارے کو روکنے کی سبیل نظر نہیں آتی، حالانکہ اس خسارے کا جی ڈی پی پر سالانہ ڈیڑھ سے دو فی صدصرف ہو جاتا ہے ۔الغرض معیشت میں کچھ مثبت رجحانات ہیں تو کئی خطرناک منفی رجحانات بھی موجود ہیں۔ معیشت میں بہتری لانے کے لئے مثبت رجحانات کو مزید مضبوط اور مثر بنانے کی ضرورت ہے اور منفی رجحانات کو مثبت سمت میں لوٹانا ضروری ہے۔ جن مثبت رجحانات کو جاری رکھنے اور مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ان میںمعیشت کی سالانہ شرح نمو ہے۔  ملکی معیشت میں زراعت کا اہم کردار ہے۔ زراعت میں فصلوں اور لائیو اسٹاک دونوں کے لئے الگ الگ ہنگامی پروگرام ترتیب دینے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جس سے فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں دنیا کے عمومی معیار کے مطابق اضافہ حاصل کیا جائے۔ لائیو اسٹاک میں نمایاں مقام ہونے کے باوجود پاکستان کی لائیو اسٹاک برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پیداوار کے طریقوں اور فوڈ سیفٹی کے عالمی معیارات سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ دنیا کے ساتھ اس واضح فرق کو پورا کرکے زراعت کی کایا پلٹی جا سکتی ہے۔معیشت کے زیادہ تر شعبے دنیا کی رینکنگ میں کہیں آخری نمبروں پر پائے جاتے ہیں۔ عالمی تجارتی سمجھوتوں اور ورلڈ ٹرید آرگنائزیشن کے قیام کے بعد ہمارے ہاں درآمدی ٹیرف غیر ضروری عجلت میں بہت کم کئے گئے جس کی وجہ سے صنعت کے زیادہ تر شعبے اپنے آپ کو ان تبدیلیوں کے لئے بروقت تیار نہ کر سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ آسان امپورٹ اور پر کشش کم درآمدی ٹیرف کی وجہ سے گزشتہ بیس بائیس سالوں کے دوران مقامی مارکیٹوں میں غیر ملکی سامان کی بہتات ہو گئی ۔ دوسری طرف انڈسٹری پر دستاویزی انتظام میں آنے اور مختلف النوع ٹیکسوں کے ساتھ ساتھ درآمدات کی یلغار نے نہایت منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ پاکستان میں انڈسٹری کے ڈھانچے میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جس سے بڑی انڈسٹری کے ساتھ ساتھ درمیانی اور چھوٹی انڈسٹری میں بہتر اور برتر ٹیکنالوجی بروئے کار لائی جائے۔ پیداوار کے اعتبار سے ضروری مصنوعات تیار کی جائیں۔ انڈسٹری کے لئے عالمی معیار کے ہنر مند افراد کی تعلیم اور تربیت کے لئے تعلیمی نظام کو ڈگری بانٹنے والے زیاں کار رجحان سے بدل کر ٹیکنالوجی اور سائنسی میدان کا شہسوار بنائے بغیر چارہ نہیں۔ زراعت اور صنعت کو جدید اور بہتر ٹیکنالوجی پر ترتیب دینے سے لامحالہ سروسز سیکٹر خود بخود نئے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ ہو سکے گا۔ دوسری جانب دہشت گردی کا عفریت سر اٹھائے کھڑا ہے۔دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی ریڈ الرٹ کردی گئی ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ممکنہ دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر پولیس  کو رپورٹ دی گئی ہے، جس کے بعد اسلام آباد میں سیکیورٹی ریڈ الرٹ کرکے حفاظتی اقدامات سخت کردیے گئے ہیں۔ممکنہ دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کی سیکیورٹی مزید سخت کرتے ہوئے بیرونی گیٹ پر ایف سی کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے اور ساتھ ہی غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بھی مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ اسلام آباد کی سکیورٹی کے پیش نظر مختلف مقامات پر چیکنگ شروع کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے عوام کو دفاتر اور کاروباری مقامات تک پہنچنے میں تاخیر کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر سکیورٹی کے سخت اقدامات کے باعث دفاتر یا  کاروباری مقامات  پر جانے کے لیے  پندرہ سے بیس منٹ پہلے نکلیں۔پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سخت چیکنگ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کی جا رہی ہے، جس پر زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔پولیس کی جانب سے شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ دوران چیکنگ اہل کاروں کے ساتھ تعاون کریں اور کسی بھی غیر معمولی سرگرمی کو دیکھتے ہی اطلاع دیں۔