دہشت گردی کی نئی لہر

ڈپٹی کمشنر ہائوس چلاس میں نامعلوم افراد کی جانب سے دستی گرینڈ سے حملہ کیا گیا جس کے باعث چلاس شہر لرز اٹھا۔ تاہم واقعے میں کوئی جانی ومالی نقصان نہیں ہوا۔ ملزمان دستی گرنیڈ ڈی سی ہائوس کی چاردیواری میں عقب کی جانب سے پھینک کر فرار ہوگئے۔ ڈی سی ہائوس کی سیکیورٹی نے گرنیڈ حملے کے بعد جوابی فائرنگ کی اور دس منٹ تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ واقعے کے اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری ڈی سی ہائوس پہنچ گئی اور نامعلوم افراد کا تعاقب کیا تاہم رات گئے تک گرفتاری عمل میں نہ آسکی۔ پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری نے رونئی محلہ کے داخلی اور خارجی راستوں پر سیکیورٹی مزید سخت کردی ہے۔ دیامر میں گزشتہ ایک ہفتے سے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پولیس کی بھاری نفری چلاس پہنچ گئی تھی اور امن و امان کے حوالے سے حالات سازگار نہیں تھے۔چلاس ڈپٹی کمشنر ہائوس میں بم دھماکے کے دوران ڈپٹی کمشنر دیامر فیاض احمد ہائوس میں موجود تھے۔یہ المناک حقیقت ہے کہ ایک بار پھر دہشت گردی اور دہشت گرد سر اٹھانے لگے ہیں حالانکہ دہشت گردوں کو آپریشن ضرب عضب کے ذریعے کاری ضرب لگائی گئی تھی۔گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک مشکوک ٹیکسی ڈرائیور اور خاتون مسافر کو تلاشی کے لیے روکا گیا، تو انہوں نے خود کو بم سے اڑا دیا۔ برسوں بعد پاکستانی دارالحکومت میں دہشت گردی کی اس واردات پر شہریوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔پولیس  ناکے پر ہوئے خودکش حملے میں ایک پولیس اہلکار اور حملہ آور سمیت تین افراد ہلاک جبکہ چھ زخمی ہو گئے۔ پولیس کے حکام کے مطابق یہ اس شہر میں برسوں بعد ہونے والا اس نوعیت کا پہلا حملہ ہے۔اسلام آباد ملک کے دیگر بڑے شہروں لاہور اور کراچی کے ساتھ ساتھ افغانستان کے قریب سرحدی علاقوں میں ہونے والے نچلے درجے کے حملوں سے اب تک بچا رہا تھا۔ اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی سہیل ظفر چٹھہ کے مطابق یہ واقعہ سیکٹر آئی ٹین فور میں اس وقت پیش آیا جب پولیس نے ایک مشکوک ٹیکسی کو تلاشی کے لیے روکا۔ اس ٹیکسی میں  ایک مرد ڈرائیور اور ایک خاتون مسافر سوار تھے۔ٹیکسی کو روکا گیا اور اس میں سوار لمبے بالوں والے آدمی کو باہر آنے کو کہا گیا وہ باہر آیا لیکن وہ جلدی سے واپس گاڑی کے اندر چلا گیا اور اس نے ایک بٹن دبا دیا جس  کے بعد گاڑی زور دار دھماکے سے اڑ گئی۔ ایک وقت تھا جب پاکستان بھر میں تقریبا روزانہ بم دھماکے ہو رہے تھے لیکن 2016 میں شروع ہونے والے فوجی کریک ڈائون کے بعد سیکیورٹی میں کافی بہتری آئی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان کے ساتھ  شمال مغربی سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی حکام اس تشدد کے لیے پاکستانی طالبان سے منسلک عسکریت پسند گروپوں پر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اسلام آباد دھماکے کے بعد جمع ہونے والے افراد نے فوری طور پر ٹی ٹی پی کو مورد الزام ٹھہرایا حالانکہ اس گروہ کی طرف سے ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ ہجوم میں موجود ایک شخص نے کہا،وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور حکام سے اس واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔اس واقعے کے بعد اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے شہر میں سیکیورٹی ریڈ الرٹ کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ انہوں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے کرایہ داروں اور گھریلو ملازمین کو فوری طور پر پولیس کے ساتھ رجسٹر کروائیں۔ہمارے ہاں مذہبی دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ان مذہبی دہشت گردتنظیموں کے مربی ممالک کی غلطیوں کاخمیازہ آج دنیاکے مختلف خطوں کے بے گناہ اورمعصوم افراداسطرح بھگت رہے ہیں کہ 1990کی دہائی کے آخری عشرے میں بین الاقوامی سطح پر اپنی کاروائیاں کرنے والی واحد مذہبی عسکریت پسندتنظیم القاعدہ تھی۔ لیکن آج اس تنظیم کے بطن سے کئی بین الاقوامی دہشت گردمذہبی تنظیمیں وجودمیں آچکی ہیں جو دنیاکے مختلف خطوں میں اپنی کاروائیاں کررہی ہیں۔مشرق بعیدکے ملک فلپائن میں ابوسیاف گروپ ہے ۔کاکیشیاکے علاقے میں چیچن مذہبی دہشت گردگروپ ہے جوچیچنیا اور انگوشتیامیں اپنی کارروائیاں کررہاہے۔ وسطی ایشیا میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، چین میں ایسٹ ترکستان انڈیپنڈنٹ موومنٹ ' افغانستان اور پاکستان میں مرکزی افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان ، تحریک طالبان پاکستان 'جماعت الحرارگروپ، پنجابی طالبان۔برصغیرکے ممالک برما، بنگلہ دیش اور بھارت میں القاعدہ ۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں الجماع السلامیہ۔ جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ اِن عرب پینینسولا، مشرق وسطی کے ممالک عراق اورشام میں دولت الاسلامیہ فی العراق والشام داعش اور جبہہ النصر۔شمالی افریقہ میں القاعدہ اِن اسلامِک مغرب ،نائجیریا میں بوکوحرام۔ سومالیہ میں الشباب وغیرہ وغیرہ۔ستاون مسلمان ممالک میں شایدہی کوئی ایساخوش نصیب ملک ہوگاجہاں پر مذہبی دہشت گردتنظیم وجودنہ رکھتاہویاپھرمذہبی دہشت گردی کاکوئی واقعہ رونمانہ ہواہو۔باقی ممالک میں اگرچہ دو یا پھر زیادہ ترایک قسم کی مذہبی دہشت گرد تنظیم وجود رکھتی ہے۔ جبکہ پاکستان واحدملک ہے جہاں مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے تین طبقات  پائے جاتے ہیں۔پہلے طبقے میں وہ دہشت گردتنظیم ہے جسکادائرہ کاربین الاقوامی سطح پرہے۔دوسرے طبقے میں وہ مذہبی دہشت گردتنظیم ہے جوقومی سطح پراپنی کارروائیاں کررہی ہیں۔جبکہ تیسرے طبقے میں وہ دہشت گردتنظیم ہے جولوکل سطح پراپنی دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے۔ان تین مختلف سطحوں پرکام کرنے والی عسکریت پسندتنظیموں کے مابین زبردست اشتراک کار قائم ہیں۔تینوں طبقوں کی ان مذہبی دہشت گرد تنظیموں کے مابین منصوبہ بندی سے لے کر جنگی حکمت عملی، طریقہ کاراوراپنی کاروائیوں کوعملی جامہ پہنانے تک دہشت گردی کے تمام مراحل میں ایک دوسرے کی کارروائیوں کو کامیابی سے ہمکنارکرنے کیلئے ہرقسم کے تعاون کاماحول قائم ہے۔ دہشت گرد بلواسطہ و بلا واسطہ حملے کرتے ہیںانکا تعلق زیادہ ترسیاسی و تزویراتی ہے۔عوامی سطح پر بے چینی اوراحساس عدم تحفظ پیداکر کے حکومت وقت پرعوامی و سیاسی دبائومیں اضافہ کرنامقصود ہو تو مذہبی دہشت گردشہری آبادی پراسطرح حملہ کرتا ہے جسمیں زیادہ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو جائیں۔شہری آبادی پراس قسم کاحملہ کرناہوتو رہائشی علاقوں یامذہبی رسومات پر اسطرح حملہ کرتے ہیں کہ جسمیں زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوجائیں تاکہ حکومت ِوقت کی کارکردگی کوعوام کے سامنے بے اثراورانتہائی شرمناک بنایاجاسکے۔ اسطرح کے حملے سے مذہبی دہشت گردتنظیمیں دوطرح کے مفادات حاصل کرتی ہیں۔ ایک طرف اپنے مخالف فرقے کوخاک وخون میں نہلاکرانہیں معاشی، معاشرتی اورسیاسی نقصانات پہنچایاجاتاہے جبکہ دوسری طرف حکومتِ وقت کوشدیدسیاسی چوٹ دی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی گزشتہ دورحکومت میں دہشت گردی کاجب کوئی واقعہ ہوجاتاتوسیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتاجاتاجسکی وجہ سے اسکی سیاسی ساکھ کو سخت دھچکا پہنچتا۔ماضی میں دہشت گردتنظیموں کوبنانے کیلئے بین الاقوامی سطح پرجسطرح کئی ممالک مشترکہ طورپرفنڈزاوراسلحہ مہیاکرتے تھے آج انہی ممالک پرمشتمل فوجی اتحادتشکیل دیکر ان مذہبی دہشت گردتنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کیاجارہاہے۔اس سلسلے میں انکی پالیسی کے دو نہایت اہم پہلو ہیں۔ ایک پہلویہ ہے کہ ان مذہبی دہشت گردتنظیموں کوجڑسے اکھاڑکرنہ پھینکاجائے بلکہ صرف انہی مذہبی دہشت گردتنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے جو بین الاقوامی سطح پرانکے مفادات کو زک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اس پالیسی کے علمبرداراورحمایتی مختلف ممالک ہیں  جواس بات کے خواہشمند ہیں کہ ان تنظیموں کو صرف اسی قدرنقصان پہنچایاجائے جس سے انکی بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں ختم ہوسکیں تاکہ یہ مذہبی دہشت گردتنظیمیں علاقائی سطح پراپنے مخالفوںکے خلاف دہشت گردی کی اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔اس پالیسی کادوسراپہلویہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پرتمام ممالک اس بات کے خواہشمند ہیں کہ یہ دہشت گردتنظیمیں اپنی سرگرمیاں اسی طرح جاری رکھیں اگریہ انکے مخالف ملک یا ممالک پرحملہ آورہوتے ہیں۔ انہیں اس وقت تشویش لاحق ہوتی ہے جب مذہبی دہشت گرد تنظیمیں اپنے حملوں کا رخ انکی طرف پھیرلیں۔اس سلسلے میں تمام حکومتوں 'مکاتب فکر اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردوں پر کڑی نگاہ رکھیں تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔