چیف سیکر ٹری کا مستحسن اقدام

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے کہا ہے کہ حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے ابتدائی طورپرگلگت کو پلاسٹک فری شہر بنانے کے فیصلے پر یکم جنوری 2023  تک عمل درآمد کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا فیصلے پرعمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے مجسٹریٹس اوردیگر متعلقہ اداروں کے اہلکارگلگت بھرکے دکانوں اور کاروباری مراکز کا دورہ کر رہے ہیں اور عوام کو اس ضمن میں شعور فراہم کرنے کے لئے مہم بھی جاری ہے تاکہ وہ معینہ تاریخ تک اپنے پلاسٹک بیگ کے ذخیرے کو تلف کر دیں دی گئی تاریخ کے بعد شہرمیں پولی تھین بیگز کی اجازت نہیں ہوگی اور اس فیصلے پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔چیف سیکرٹری نے مزید کہا کہ گلگت میں پلاسٹک بیگز پر لگائی جانے والی پابندی ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے اور آنے والے مہینوں میں اس فیصلے کا اطلاق گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں بھی کیا جائے گا۔چیف سیکرٹری کی جانب سے گلگت کو پلاسٹک فری بنانے کی یقین دہانی خوش آئند ہے۔ہمارے ہاں روزمرہ  کی اشیا کیلئے پلاسٹک کے تھیلوں کااستعمال کیا جاتا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ماحول کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جانوروں کی گھٹن کے باعث ہلاکت، سمندروں،    دریاں میں  آلودگی اور نہروں کی رکاوٹوں سمیت ماحولیاتی اثرات بہت نقصان دہ ہیں۔ان مختلف  اثرات کے نتیجے میں دنیا کے کئی ممالک کے  عوام اور کارکنوں نے اس حد تک غم و غصے کا اظہار کیا ہے کہ کچھ قومی حکومتوں نے خریداری کے لئے پلاسٹک کے تھیلے کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔پلاسٹک کے تھیلے کو پوری دنیا کے لینڈ فلز میں اندھا دھند پھینک دیا جاتا ہے جوسینکڑوں، ہزاروں  ٹن ہیکٹر رقبے پر قبضہ کرتے ہیں اور ان کی سڑن کے مرحلے کے دوران ان لینڈ فلز سے خطرناک میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسوں کے ساتھ ساتھ انتہائی زہریلی طرح کے مادے خارج ہوتے ہیں جو کہ زمینی ماحول کے لیے بے حد نقصان دہ ہیں۔پلاسٹک کے تھیلے جوکوڑے کے ڈھیروں پر پائے جاتے ہیں ان میں موجود ضائع شدہ کھانے کی اشیا جنہیں جانوراور پرندے  عام طور پر کھاتے ہیں اور اکثر جانور ان تھیلوں سے بری طرح  الجھتے ہیں جس کی وجہ سے جانوروں کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ وہ پلاسٹک ان کھانے کی اشیا کے ساتھ الجھ کر  ان کادم گھونٹ سکتا ہے بلکہ ان کے نظامِ انہظام کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ اگر پلاسٹک کے تھیلے ٹھیک طرح سے ضائع نہیں کیے جاتے ہیں تو وہ کئی قسم کی  گندگی سمیت پانی کی نالیوں میں رکاوٹ پیدا کرکے ماحول کو متاثر کرسکتے ہیں۔ماحول پر پلاسٹک کے  تھیلوں کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ ان کے گلنے میں کئی سال لگتے ہیں، اس کے علاوہ  جب زہریلے مادے مٹی میں خارج ہوجاتے ہیں جس سے مٹی ناقابل کاشت ہو جایاکرتی ہینہ صرف یہ کہ اس جگہ پر حشرات الارض کی افزائش بری طرح متاثرہوتی ہے اوراگر پلاسٹک کے تھیلوں کوکھلے علاقوں میں  جلایا جائے توان سے  زہریلے مادے ہوا میں خارج ہوتے  ہیں جس سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے جو طرح طرح بیماریوں کاباعث بنتی ہے۔پلاسٹک کے تھیلے نہ صرف سمندری حیات  بلکہ زرعی اراضی کے لئے بھی خطرہ ہیں،پلاسٹک کے تھیلے ماحول اور زرعی زمین کی خستہ حالی کے لئے جوابدہ ہیں یہ اب ماحولیاتی اور زرعی پیداوار کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، منقطع پلاسٹک کے تھیلے جو پہلے ہی قابل کاشت اراضی  میں رچ بس  چکے ہیں وہ نہ صرف خاص طور پر کھیتی باڑی کے لئے نقصان دہ ہیں بلکہ سخت نقصان دہ ہیں جن سے مختلف طر ح کا کینسرپھیل رہا ہے ۔پلاسٹک کی موجودگی  اب سمندری وآبی  ماحول میں ایک بہت بڑا  مسئلہ بن چکی ہے اور اس بڑھتے ہوئے رجحان کو فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ پلاسٹک کو سمندری ماحول میں ایک پریشانی کی حیثیت سے پہچانا گیا ہے، لیکن سمندری اور میٹھے پانی کے ماحول میں پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے کو حال ہی میں عالمی مسئلے کے طور پر شناخت کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں، سمندرمیں  پلاسٹک تھیلوں  کی آلودگی حکومتوں، سائنس دانوں، غیر سرکاری اداروں اور عالمی برادری کے لئے قابل ماحولیاتی تشویش بن گئی ہے۔ سمندری ماحول میں پلاسٹک کی موجودگی نے کئی چیلنج کھڑے کردیئے ہیں جو معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں،ساحل سمندر کے ساتھ پھنسے ہوئے پلاسٹک کے تھیلے ماحولیاتی چیلنج پیدا کرتے ہیں جس سے سیاحت پر نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں۔ اقتصادی نقصان سیاحت کی کم آمدنی، سیاحوں کی سرگرمیوں پر منفی اثرات اور سمندری ماحول کو پہنچنے والے نقصان سے منسلک ہے۔یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے اگرچہ پلاسٹک کے تھیلوں نے پوری دنیا میں زرعی پیداوار کو کم کرتے دیکھا ہے،مناسب موثر اور ٹھوس سرگرم عمل انجام دینے کے لئے شعور اجاگر کرنے میں بہت کم اہم بات رہی ہے، در حقیقت، بین الاقوامی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے پلاسٹک کے تھیلے کی بڑھتی ہوئی کھپت کو کم کرنے کے لئے کچھ سنجیدہ سائنسی تحقیقات کی گئی ہیں، پلاسٹک کے تھیلے پر عالمی سطح پر پابندی عائد کی جانی چاہئے اور ان مجموعی اور نقصان دہ امور کو حل کرنے کے لئے ان کے حیات بخش توازن کو عملی جامہ پہنایا جانا چاہئے۔حالیہ برسوں میں، فضلہ پلاسٹک کی ری سائیکلنگ ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی جاری ہے۔ اس میں، سب سے زیادہ توجہ دینے والا ایک فضلہ پلاسٹک کی مسلسل پائرولیسس ٹیکنالوجی ہے، یہ ٹیکنالوجی بیکار پلاسٹک کو مستحکم عمل اور فیکٹری پروڈکشن موڈ میں ٹھوس ایندھن اور دیگر مصنوعات میں تبدیل کر سکتی ہے۔شہریوں کو پلاسٹک کے تھیلے کا استعمال نہ کرنے کے بارے میں آگاہ کیا جائے بلکہ قدرتی ریشوں اور کاغذ سے بنے ماحول دوست متبادل بیگ استعمال کریں تاکہ پلاسٹک بیگ کے ضائع ہونے سے متعلقہ پریشانیوں کو کم کیا جاسکے۔کچھ ممالک میں پلاسٹک کے تھیلے سے اندھا دھند استعمال اور کچرے کے ری سائیکلنگ کے خلاف ضابطے کی سختی کی گئی ہے، اسی طرح دکانداروں کے ذریعہ پلاسٹک بیگ کی مفت فروخت پر بھی پابندی عائد ہے۔پلاسٹک کے کچرے کو موثر انداز میں کم کرنے کے لئے ہمارے پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے اپنی روزمرہ کی عادات میں ترمیم کرنا، جب کوئی اچھا متبادل موجود ہو تو پلاسٹک کا استعمال نہ کریں اور جب سختی سے ضروری ہو تب ہی پلاسٹک کا استعمال کریں۔ پلاسٹک کے تھیلے کو دوبارہ استعمال یا مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بارے میں سوچنا ضروری ہے کہ تصرف کرنے سے پہلے ان کا دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔لوگوں کو پلاسٹک کے تھیلے استعمال کرنے کے ماحولیاتی اور صحت کے اخراجات کے بارے میں آگاہ کر کے طرز عمل کی بہتری کا ایک اور اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ ہمیں کمیونٹی میں کچرے کو ضائع کرنے کی ناقص سرگرمیوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیات پر پلاسٹک کے تھیلے کے اثرات کو محدود کرنے کے لئے جو دیگر اقدامات کیے جاسکتے ہیں ان میں محلے کی صفائی ستھرائی کی کوششوں میں حصہ لینا، گھریلو کچرے کو رضاکارانہ طور پر ری سائیکل کرنا، پلاسٹک شاپنگ بیگوں کو کچرے سے بچنا اور قانونی طور پر ماحول دوست مواد استعمال کرنا شامل ہیں۔ ایسی قانون سازی کرنا جو پلاسٹک کے تھیلے کے استعمال کو کم پرکشش بنائے۔ پلاسٹک بیگ زمین میں با آسانی تحلیل نہیں ہوتے بلکہ سیوریج یا گٹر لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کر دیتے ہیں اور یوں ہر جگہ سیوریج کا پانی بہتا دکھائی دیتا ہے جو مچھروں کی افزائش کا باعث بھی بنتا ہے اور ماحول کو متعفن بھی کرتا ہے۔ پلاسٹک زمین میں تحلیل نہیں ہوتی جس سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ماحولیاتی آلودگی دنیا کے لئے خطرہ ہے جس میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اضافہ ہو ر ہا ہے اور اگر مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ ابھی سے نہ کیا گیا تو پھر اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔گلگت میں پلاسٹک کے بیگ استعمال کرنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے جو یقینا یہ ایک قابلِ ستائش عمل ہے، اگر خام مال پراسیسنگ کرنے کے دوران ڈی ٹو ڈبلیوکیمیکل مکس کیا جائے تو اِس سے بنائے ہوئے پلاسٹک بیگ تھوڑے عرصے بعد خود بخود پگھل جاتے ہیں اور دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔