گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کا عندیہ

چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن سمیت جنرل الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں جنرل الیکشن کو صاف شفاف بنانے کے لیے ووٹر فہرستوں میں نظر ثانی کی جارہی ہے اور اس حوالے سے عملے کو تربیتی ٹریننگ دینے کا کام شروع ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق ہر سال الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی فہرستوں کی درستگی عمل میں لائے'نظر ثانی کرے ۔ الیکشن ایکٹ 2017 کا نفاذ گلگت بلتستان میں ہونے کی وجہ سے گھر گھر ویریفیکیشن کی بجائے پرانی فہرستوں پر آئندہ متوقع الیکشن جنرل یا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے لازمی ہے کہ گھر گھر تصدیق کے عمل کو بروقت انجام دیا جائے۔ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے اس کام کی انجام دہی کے لئے تیرہ سوسے زائد سرکاری ملازمین کو مختلف محکموں سے تعینات کیا ہے۔گلگت بلتستان کے دس ضلعوں کے ڈپٹی کمشنر ز کوڈپٹی الیکشن کمشنرز کے اختیارات تفویض کئے گئے۔ اور ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر ز کواضافی اختیارات تفویض کئے گئے ہیں تمام اسٹنٹ کمشنر ز کو رجسٹریشن افسران کی ذمہ داری دی گئی ہے جبکہ تحصیلداراور نائب تحصیلدارکو اسسٹنٹ رجسٹریشن آفیسرز کی زمہ داریاں دی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے اپنے سینئر ماسٹرٹرینرز بلتستان کے تمام اضلاع میں ٹریننگ کے لئے تعینات کیا ہے۔اس عمل کو بہتر طریقے سے انجام دینے کیلئے الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے متعلقہ افسران اور آفیشلز کی رہنمائی کیلئے گائیڈ بکس ، قانونی کتابچے ،ضروری فارمز و دیگر نمونہ جات مہیا کیے ہیں۔صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے انتخابی فہرستوں کا درست ہونا بے حد ضروری ہے۔ گھر گھر تصدیق کے عمل کے لئے دو سے تین مہینے درکار ہوتے ہیں اس کے پنتالیس دنوں بعد فائنل ڈرافٹ الیکٹورل رول تیار ہوگا۔ گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کا شور عرصے سے سنائی دے رہا ہے لیکن اس جانب پیشرفت نہیں ہو سکی حالانکہ بلدیاتی انتخابات عوامی مسائل کے حل کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ بلدیاتی نظام میں بنیادی سطح یا ضلع کی سطح پر عوامی مسائل کے حل کیلئے عوامی نمائندوں کو چنا جاتا ہے ۔ ان کو مسائل کے حل کے لیے رقوم فراہم کی جاتی ہیں ۔ ان عوامی نمائندوں کا انتخاب بھی سیاسی بنیادوں پر ہی اکثر و بیشتر کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ان نمائندوں کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور کبھی پارٹی بنیادوں پر الیکشن کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے یہ نمائندے پچھلے ادوار میں اگر ناظمین اور نائب ناظمین کہلوائے تو موجودہ دور میں انہیں چیئرمین ، وائس چئیرمین کا نام دے دیا گیا۔ ان چیئرمین اور وائس چیئرمین کی معاونت کے لیے نچلی سطح پر مزید نمائندے منتخب کے جاتے ہیں جنہیں کونسلرز کا نام دیاجاتا ہے ۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ عوامی سطح پر جلد از جلد مسائل کو حل کیا جائے ۔ یہ نظام پاکستان میں ہمیشہ اس وقت لایا گیا جبکہ ملکی حکومت آمریت یا فوج کے ہاتھ میں ہوئی ۔ہرآمر ، فوجی حکمران نے اس نظام کو قابلِ عمل بنانے کی جدوجہد کی ، الیکشن بھی کروائے لیکن چونکہ وہ الیکشن سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوئے اور کرپشن اس دور میں بھی موجود رہی اس لیے اس نظام کے فوائد عوام تک نہیں پہنچ سکے اور نہ ہی یہ نظام عوام میں مقبولیت پا سکا ۔ جمہوریت کے زمانہ میں یہ نظام زیادہ ترنافذ نہیں کیا گیا بلکہ اکثر و بیشتر اس نظام کو مارشل لاء کی پیداوار سمجھ کر رد کر دیا گیا۔یہ ایک خوبصورت نظام ہے اگر اس میں کرپشن نہ ہو اور منتخب نمائندگان اس نظام کو احسن طریقے سے چلائیں کیونکہ اگر عوامی مسائل عوامی سطح پر حل ہونے لگیں تو ملکی مسائل میں پچاس فی صد کمی کی جا سکتی ہے ۔ اگر عوامی سطح پر منتخب یہ نمائندے ، فراہم کی گئی رقوم کو احسن طریقے سے استعمال کریں تو کسی گلی محلے کی گلیاں کچی نہ ہوں اور نہ ہی کہیں نالیوں اور اس نوعیت کے دیگر مسائل ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی منتخب ہو اس کا مقصد سیاست برائے سیاست نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد عوام کے مسائل کا حل اور عوام کی خدمت ہونا چاہیے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ماضی میں جب تیسری سیاسی قوت کا راگ الاپا گیا تو یہ تاثر لے لیا گیا کہ شاید ملک کی تقدیر سنورنے کی طرف آ رہی ہے۔ لیکن بلدیاتی انتخابات میں  پھر پرانے چہرے نئے ناموں کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ کرتے نظر آتے ہیں۔پرویز مشرف جسے عام طور پر آمر کہا جاتا ہے، نے موجودہ جمہوریت سے بہت بہتر انداز میں اقتدار نچلی سطح پر نہ صرف منتقل کیا بلکہ اس نظام کو با اخیتار بھی بنایا جس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن جمہوری ادوار شروع ہوتے ہی آمرانہ دور کے اچھے اقدامات کو بھی تبدیل کرنا ضروری خیال کر لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی نظام کو ایک نئی شکل دی گئی ۔ اس نئی شکل پر بہت سے خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں اور اب بھی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اس بات پہ متفق نظر آتی ہیں کہ اس نظام سے عوام کے مسائل اس طرح سے حل نہیں ہو پائیں گے جس طرح عوام توقع کیے بیٹھے ہیں۔ بلدیاتی نمائندے ہر وقت عوام میں موجود رہتے ہیں۔ اور جب ان کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہوں گے تو نہ صرف وہ عوام کے بنیادی مسائل بروقت حل نہیں کر پائیں گے بلکہ وہ اپنی قدرو قیمت بھی کھو دیں گے۔ یہاں یہ بات واضع ہونی چاہیے کہ جو بھی رقوم ان نمائندوں کو دی جائیں ان کا احتساب ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ کرپشن کی گنجائش نہ رہے ۔ نظام کوئی بھی ہو کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو عوام کو اس کے فوائد تب تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس نظام میں موجود کرپشن کو ختم نہ کیا جائے ۔ عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا جائے ۔اگر وہ رقوم جو مسائل کے حل کے لیے فراہم کی جا رہی ہوں ان کا احتساب ہو گا اور ان کی خرد برد کی پکڑ ہوگی تو اس نظام کی بہتری عوام کونظر آئے گی۔بلدیاتی نظام کو حکومت کی ریڑھ کی ہڈی اور جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ جمہوریت میں بلدیاتی نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے بلکہ اسے جمہوریت کی روح کہا جاتا ہے۔چونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو قومی،علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ براہ راست عوام کے مسائل کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور اگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں کے ذریعے ان مسائل کا تریاق نہ کیا جائے تو یہی مسائل ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرتے ہوئے بعض اوقات حکومتوں تک کو نگل جاتے ہیں۔بلدیاتی ادارے فرد اور ریاست کے درمیان پل کا کام دیتے ہیں۔اسی وجہ سے دنیا میں جہاں بھی بلدیاتی ادارے مضبوط ہیں، وہاں ریاست اور جمہوریت بھی مضبوط ہے۔بلدیاتی نظام حکومت کے بے شمار فوائد میں سے تین فوائد بڑی اہمیت کے حامل ہیں:ایک یہ کہ عوام کے مقامی مسائل کے حل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے، لوگوں کے روز مرہ مسائل کا حل ان کی دہلیز پر ملتا ہے،سڑکیں بنتی اور پختہ ہوتی ہیں،پینے کے لئے صاف پانی کا بندوبست ہوتا ہے،محلے سے گندے پانی کے اخراج کے لئے نکاسی آب کا انتظام کیا جاتا ہے،گائوں کے چھوٹے چھوٹے معاملات اور تنازعات تھانے کچہری کے بجائے،محلے کی مصالحتی عدالت یا پنچایت میں حل کیے جاتے ہیں۔دوسرا یہ کہ نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھرنے کے مواقع میسر آتے ہیں،بلدیاتی ادارے مقامی قیادت کے لئے نرسریوں کا کام دیتے ہیں۔یوں یہی ادارے پھر جمہوریت کی تجربہ گاہیں بھی ثابت ہوتے ہیں اور پھر یہ ریاست کے لئے اہم ترین اور مضبوط ترین ستون فراہم کرتے ہیں۔تیسرا اور سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس نظام کی وجہ سے اختیارات کی مرکزیت ختم ہوتی ہے۔اقتدار چند ہاتھوں سے نکل کر عوام میں منقسم ہو جاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو جمہوریت کو آمریت سے ممتاز کرتی ہے۔لیکن حکام اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے کیونکہ اس کے نتیجے میں ممبران اسمبلی کا زیادہ تر کام قانون سازی تک محدود ہو کررہ جاتا ہے اور یوں اپنی انتخابی مہم کے دوران لٹائی ہوئی دولت کو پورا کرنا ذرا دشوار ہو جاتا ہے۔آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں اسلئے اب گلگت بلتستان میں اس حوالے سے مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہیے تاکہ عوام اس نظام سے مستفید ہو سکیں۔لہذا کہ بلدیاتی انتخابات کے ضمن میں ضروری اقدامات کرتے ہوئے جلد از جلد انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ بلدیاتی الیکشن قومی سیاسی منظر نامہ پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ موثر بلدیاتی ادارے وجود پانے کے بعد تازہ دم اور براہِ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان عوامی خدمت کریں گے۔یوں تمام سیاسی جماعتوں کے پاس  بڑی تعداد میں منتخب کونسلر اور چیئرمین ہوں گے جن کی سیاست کا خمیر براہِ راست عوامی رابطوں سے اٹھا ہوگا۔