وزےراعلی گلگت بلتستان کا اہم قدم

وفاقی و صوبائی حکام پر مشتمل اعلی سطحی وفد کے ہمراہ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کیمبرج انٹرنیشنل کے گلوبل ہیڈکوارٹرز کا دو روزہ دورہ کیا۔دورے کے موقع پر شعبہ تعلیم کے حالات اور حکومت کی تعلیمی اصلاحات کےلئے منصوبہ بندی و اقدامات اور کرونا سمیت ماحولیاتی اور معاشی چیلنجز کے پیش نظر حکومتی ترجیحات کی نشاندہی اور ان پر تبادلہ خیال بھی کرنا تھا۔ وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان صوبے کے بچوں اور بچیوں کو اعلی معیاری تعلیم کی فراہمی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے ۔ اس موقع پر وزیر اعلی گلگت بلتستان نے مزید کہاکہ ہم پراعتماد ہیں کہ ہمارے بچوں و بچیوں کو حصول تعلیم کےلئے ورلڈ کلاس مواقع فراہم کرنے کےلئے کیمبرج انٹرنیشنل کیساتھ کئے گئے حالیہ معاہدے سے ہم گلگت بلتستان کے ایک بہترین تعلیمی مستقبل کا ویژن حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ ہماری حکومت صوبے میں شعبہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کےلئے سنجیدہ کاوشیں کر رہی ہے۔ اس اہم ہدف کو حاصل کرنے کےلئے ہمیں کیمریج انٹرنیشنل سمیت دیگر تمام متعلقہ پارٹنرز کے تعاون کی ضرورت ہے۔دنےا کے قدم بہ قدم ساتھ چلنے کےلئے معےاری تعلےم بہت ضروری ہے۔نظام تعلیم اور نظام تربیت دو ایسے بنیادی عنصر ہیں جن کو معیاری اورمستحکم بنانے کے لیے جلسوں، میٹنگوں اور منصوبوں سے زیادہ ضروری عملی اقدامات ہیں، تعلیمی نظام ومعیار پر توجہ برائے نام اور دوسرے نمبر پر ہوتی ہے اور تربیتی ماحول سازی اور اس کے لیے عملی کوششوں یا اساتذہ کرام سے طلبہ کی تربیت کے موضوع پر گفتگو یا مشاورت کا کبھی نمبر نہیں آتا اور یہ شعبہ ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہتے ہوئے تعلیمی سال پورا ہوجاتاہے، اس کا منفی اثر دیکھنے میں آتا ہے کہ طلبہ کا نہ اخلاق وکردار قابل اطمینان ہوتے ہیں اور نہ ہی تعلےم ۔ تربیت سے کورے ایسے طلبہ معاشرہ میں کیا اثرات چھوڑتے ہیں، ہر ذی شعور آدمی اس کا نہ صرف اندازہ لگاسکتا ہے؛ بلکہ تربیتی ماحول سے عاری سکولوں کے ایسے غیرتربیت یافتہ طلبہ کا بخوبی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اگر واقعی ہم مخلصانہ طور پر تعلےم کو فروغ دےنا چاہتے ہےں ۔لائق اور باصلاحیت استادکا انتخاب کریں، گرانی کے مدنظر اور یہ سوچتے ہوئے کہ مدرس بھی ہماری طرح ایک انسان ہے، اس کے بھی بشری تقاضے ہیں، بہت زیادہ نہیں تو اچھی مناسب تنخواہ اس کے لیے تجویز کریں۔ہفتہ میں نہیں تو پندرہ روز میں ضرور اپنے مدرسین کو بٹھا کر کتاب مثالی استاذ میں سے کچھ مضمون سنائیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مذاکرہ کریں۔ہرماہ تعلیمی جائزہ کا نظام بنائیں، خود یا اپنے معتمد سے تعلیمی تحریری جانچ کرائیں جانچ کا پرچہ اس طرح مرتب ہو کہ ہر بچہ کی ہر ماہ کی تعلیمی کیفیت اورایام حاضری محفوظ ہوجائیں؛ تاکہ اگلے ماہ جائزہ میں فرق سامنے آجائے، کمزوری بدستور رہنے کی صورت میں استاذ سے بازپرس ہو۔تعلیمی امور سے متعلق اگر کوئی استاد مشورہ پیش کرے تو اس کو یکسر نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کو سنجیدگی سے سن کر ادارہ کے مفاد میں مناسب اقدام کریں ۔ششماہی وسالانہ امتحان کا انعقاد باقاعدگی کے ساتھ ہو عجلت اور خانہ پری کے پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے فراغت واطمینان کے ساتھ تقریری وتحریری امتحان کا نظم کیا جائے۔ اچھے باذوق مدرسین کو مدعوکریں اور بہ وقت امتحان ان سے واضح طور پر بتادیں کہ امتحان کا رسمی تاثر نہ لکھ کر طلبہ کی انفرادی یا اجتماعی خامی، کمزوری کی نشاندہی کریں؛ تاکہ اس کے ازالہ کی مثبت کوشش بآسانی اساتذہ کرام انجام دے سکیں۔ نیز ممتحن حضرات کی نشان زدہ خامیوں اور غلطیوں پر کبیدہ خاطر نہ ہوں بلکہ خوش دلی کے ساتھ ان کو قبول کریں اور مہمان ممتحن حضرات کو اپنا خیرخواہ ومحسن تصور کرتے ہوئے اپنے ادارہ میں انہیں بلانے کا سلسلہ متواتر جاری رکھیں۔ خامیاں سامنے آنے پر اساتذہ کو اصلاح کا موقع دیں، ان سے بدظن نہ ہوں اور نہ ان کو معزول کرنے کا خیال کریں۔ایک ادارہ کے سربراہ و ذمہ دار کے لیے جس طرح ادارہ کے تعلیمی وانتظامی امور میں سرپرست حضرات سے مشاورت لازم ہے، اسی طرح اپنی نگرانی واصلاحِ نفس کے لیے بھی اپنا بڑا کسی کو مقرر کرنا ضروری ہے۔ تعلیمی سال کے آغاز میں اگر ہوسکے تو اپنے ادارہ میں زیرتعلیم بچوں کے سرپرست حضرات کی ایک میٹنگ ضرور منعقد ہوجائے۔ اس میں تعلیمی امور سے متعلق چند ضروری باتیں سرپرستوں سے زبانی ہو کہ بچہ کی تعلیم میں اہل خانہ مزید اعانت کس طرح کریں، گھر جانے پر بچہ کی نگرانی،غلط مصاحبت سے بچہ کو کیسے بچایا جائے وغیرہ ان باتوں کو تحریری طور پر مرتب کرکے سرپرستوں کے حوالہ بھی کردیں تاکہ وہ ان کو سامنے رکھیں اور اساتذہ کی کوششوں کے ساتھ اہل خانہ بھی بچہ کی اخلاقیات سنوارنے میں معاون ثابت ہوسکیں۔ جو معروضات پیش کی گئیں ان کو عمل میں لائیں تو تعلیم و تربیت میں بہتری آئے گی اور رفتہ رفتہ تعلیمی معیار میں ترقی کے آثار شروع ہوں گے۔معیارِ تعلیم وتربیت کو اچھا بنانے کے لیے ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کا سلسلہ شروع کریں۔تعلےم کےلئے اتنا سب کرنے کے بعد کیا ان کے بچوں کو معیاری تعلیم مل پا رہی ہے یا معیاری تعلیم کے فرضی دکھاوے، رکھ رکھاﺅ اور چمک دمک نے ان کی خواہشات کا استحصال کیا ہے؟کیا صرف خوب صورت لباس اور عمارتیں ہی معیاری تعلیم ہونے کی دلیل ہیں یا کوئی اور کسوٹی ہے جس کے ذریعے ہم کسی اسکول کے تعلیم کو معیاری یا غیر معیاری کہہ سکتے ہیں۔تعلیم کے معیارات کو چانچنا والدین کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔کیوں کہ اس میدان میں مقابلہ آرائی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیاں تعلیم میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور تاجر اس کو منافع کی تجارت سمجھ کر۔ نیشنل،انٹرنیشنل اور اسلامی ناموں کے ساتھ ہر سال نئے نئے اسکول منظر عام پر آرہے ہیں جو دیدہ زیب پمفلٹ،پوسٹر اور بڑے ہورڈنگ کے ذریعہ معیاری تعلیم کا دعوی پیش کر رہے ہیں اور والدین کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور والدین مخمصے میں ہیں کہ کونسا اسکول بہتر ہے ۔اسکول کی عمارت کتنی ہی خوبصورت ہو،اگر وہاں پڑھانے والے اساتذہ یا ٹیچرز تربیت یافتہ اور ماہر نہ ہوں تو معیاری تعلیم ممکن ہی نہیں۔ایک ماہر استادہی تعلیمی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے۔طلبہ میں تبدیلی،کردار میں نکھار،صلاحتوں میں نشوونما اور شخصیت کا ارتقا ایک اچھے استاد ہی کی بدولت ہوتی ہے۔اچھا استاد عمارت کی خوبصورتی کی کمی،وسائل کی قلت کو اپنی قابلیت سے پورا کر سکتا ہے لیکن پر کشش عمارت،وسائل کی فراوانی اور ظاہری رکھ رکھاﺅ ایک ماہر استاد کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔اس لئے سب سے پہلے اس نکتہ پر غور کیا جائے کہ اسکول کے اساتذہ کیسے ہیں،انتظامیہ ان کے انتخاب اور تربیت پر کتنا توجہ دیتی ہے،تعلیم کے میدان میں ہونے والے نئی تحقیقات سے وہ کتنا واقف ہیں،تدریس کے نئے اصول اور طریقوں کا استعمال وہ کتنا کرتے ہیں۔تعلےم اور دلچسپی ایک سکہ کے دو رخ ہیں اور ان دونوں میں سمجھ بوجھ کا پل حائل ہے جتنا وہ مواد کو سمجھیں گے اتنی ہی دلچسپی پیدا ہوگی۔تو ا س طرح جس اسکول میں مواد کو سمجھانے،تصورات کو واضح کرنے ا ور مہارت و صلاحیت کو پروان چڑھانے کے جتنے مختلف طریقے استعمال کئے جائینگے، تعلیم کا معیار اونچا ہوتا جائیگا۔ایک معیاری اسکول کے ترکیبی عناصر میں اس اسکول کے طلبہ کو دئےے جانے والے پروجکٹ،تحقیقی کام اور آموزشی وسائل شامل ہیں۔یہ سرگرمیاں جتنی تخلیقی ہونگی اور جتنی بہتر انداز میں طلبہ کی رہنمائی کی جائیگی۔طلبہ میں تحقیقی سوچ اور خود اکتسابی کی صلاحیت پیدا ہوگی۔اور تعلیم کا عمل نصابی کتابوں سے اطراف کے ماحول اور معاشرے میں پھیل جائیگا۔آج عام طور پر جو پروجےکٹ اور تحقیقی کام دئیے جاتے ہیں وہ کچھ تصوریں یا الفاظ جمع کرنا ہوتاہے جو کسی کتاب،اخبار یا گوگل پر آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں،اس میں ذہنی اور تحقیقی پہلو بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن ایک معیاری اسکول اس نکتہ پر بہت اہمیت دیتا ہے اور طلبہ کو اس کام میں اتنا مشغول کرتے ہیں کہ کم عمر میں ہی وہ نئی سوچ اور نئے آئیڈیاز کے مالک بن جاتے ہیں۔ایک معیاری ادارے میں لائبریری ایک بنیادی ضرورت ہے،جس سے طلبہ میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔فکری و ذہنی صلاحےتیں پروان چڑھتی ہیں اور وہ غور و فکر کے عادی بنتے ہیں۔ایک اہم نکتہ جو معیاری اسکول کے ضروری ہے وہ اس اسکول کا بچوں کی صحت پر توجہ دینا۔کیوں کہ تعلیم ایک ہمہ جہتی عمل ہے جس میں صحت و تندرستی بھی تعلیم کاحصہ ہونا چاہئے۔صحت ایک کا میاب زندگی گزارنے کے لئے اور اچھے دل اور دماغ کے لئے ضروری ہے۔ہر روز کھیل کا گھنٹہ ہونا چاہیے،کھیل سے طلبہ کی نہ صرف صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ ان میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،لیڈرشپ کی صلاحیت اور ٹیم اسپرٹ کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔اچھی صحت کے لئے کلاس روم روشن اور ہوادار ہونے چاہےں ۔پینے کے صاف پانی کا انتظام، دوپہر کے کھانے کی سہولت اور پاک و صاف ماحول میسر ہو۔