بانی¿ دو قومی نظریہ سر آغا خان

غلام قادر بیگ 

 2 نومبر(1877ئ) ہز ہائنس سر سلطان محمد شاہ آغا خان( سوئم ) کا یومِ ولادت ہے آنجناب عالم اسلام اور اقوامِ عالم کے ایک عظیم مدبّر، اتحادِ بین مسلمین اور امنِ عالم کے داعی اور جلیل القدر ہستی تھے ،اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے نہ صرف برّصغیر کے مسلم قائدین بلکہ ملکہ وکٹوریہ سمیت عالمی لیڈر بھی آپ کو عزّت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے، ملکہ وکٹوریہ نے انیسویں صدی کے آخر میں اپنے پیلس میں وزراءاور سفراءکو ایک بڑے جشن کے لئے مدعو کیا تو انہوں نے گیٹ تک خود چل کر کمالِ احترام کے ساتھ سر سلطان محمد شاہ آغا خان کا استقبال کیا اور انہیں عیسائی مذہب کے سربراہ پوپ کے خاص تخت پر بٹھاتے ہوئے کہا کہ حاضرین کو تعجب ہوا ہوگا مگر آپ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سر آغا خان کوئی عام شخص نہیں وہ اپنے خاندانی پس منظر( آلِ نبیﷺ ہونے)کی وجہ سے ہم سب کے رہنما ہیں اور وہ ایسی عزّت و تکریم کا حق رکھتے ہیں، اس کے بعد فرانس، جرمنی، اٹلی، بےلجئم اور یورپ کے دوسرے ممالک کے سربراہانِ حکومت نے بھی سر آغا خان کو اپنے ملک میں مدعو کیا اور یوںآپ کے تعلقات عالمی سطح پر محیط ہو گئے (ماخوذ از Saint Gazette ، 1898 ۔8۔22) اس پس منظر میںبرِصغیرکے مسلم قائدین آپ کو اپنا رہنما سمجھتے تھے،مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر کے ان کے سیاسی، سماجی اور دینی مفادات کے تحفظ کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام اور صدارت کا مرحلہ آیا تو مسلم زعماءنے 29 سالہ سر آغا خان کو اتفاقِ رائے سے اس تنظیم کا بانی صدر چنا ، آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کی پگڑی آپ کے سر پر رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ مسلم زعما یہ سمجھتے تھے کہ سر آغا خان سوئم آلِ نبیﷺ ہونے اور غیر معمولی صلاحیتوں سے معمور اُن کی قیادت میں انگریز حکمرانوں سے مطالبات منوانے، ہندﺅوں سے جوانمردی سے مقابلہ کر تے ہوئے مسلمانوں کی اپنی شناخت دوبارہ حاصل کرنے اور خود مسلمانوں کی صفوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے میں کامیابی ملے گی ، اِن امیدوں کی روشنی میںسر آغا خان نے مسلم قائدین کے ایک وفد کے ساتھ وائسرائے ہند سے ملاقات کی اور ان پر واضح کیا کہ مسلمان اپنی تہذیبی اور نظریاتی تاریخ کے ساتھ ہندوﺅں سے ایک الگ قوم ہے اس طرح آنجناب نے اپنی بصیرت، دانائی اور وسیع اثر و رسوخ کے بل بوتے پر وائسرائے ہند سے پہلی بارمسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ منوایا، یہ تاریخ ساز جداگانہ نمائندگی آگے جا کر دو قومی نظریہ اور قیامِ پاکستان کی بنیاد بنی، اس لئے مورخین ہز ہائنس سر سلطان آغا خان سوئم کو دو قومی نظریہ کا بانی قرار دیتے ہیں،آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر عالمی رہنماﺅں نے آپ کو لیگ آف نیشنز کا صدر چنا تو آپ نے اس پلیٹ فارم سے اتحاد بین المسلمین کے لئے کوششیں تیز کیں اورخلافتِ عثمانیہ کی بقا کے لئے آپ نے برطانیہ کے وزیر اعظم کو للکار کر کہا کہ اگرچہ وہ بڑھاپے سے دوچارہیں مگر پھر بھی مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے لاٹھی لے کر جدوجہد کریں گے، آپ نے برِ صغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ترقی اور مسلم سائنسدانوں کو پروان چڑھانے کے لئے علیگڑھ یونیورسٹی قائم کر کے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ، جنوری1911ءمیں مسلمانوں کے لئے علیگڑھ یونیورسٹی کے قیام کے لئے آپ کی قیادت میں عطیات جمع کرنے کے لئے لاہور میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کے لئے آپ ریلوے اسٹیشن پہنچے تو قد آورمسلمان لیڈر وں نے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو بگھی میں سوار کیا اور بگھی کو خودکھینچتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچا دیا ، آپ نے اپنی ٹوپی کو کشکول بنا کر عطیات کے لئے اپیل کی تو عطیات کی بارش ہونے لگی ، اس یونیورسٹی کے قیام سے برِصغیر کے مسلمانوں میں ایک الگ وطن کے قیام کے لئے نیا ولولہ پیدا ہوا اور اسی جذبے نے آگے جا کر تحریکِ پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ، آپ نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جو اُن کے مرید خاندان کے چشم و چراغ تھے کی اخلاق و کردار سازی اور سیاسی تربیت کی اور انہیں پاکستان کے قیام کے لئے ابھار کر ہر قسم کی مدد فرمائی،محققین اور دانشوروں کا یہ کہنا بجا ہے کہ علیگڑھ یونیورسٹی حقیقت میںپاکستانِ صغیر ( Mini Pakistan) تھی جس کے باطن سے حسین ثقافتوں پر مبنی پاکستانِ کبیر ( Greater Pakistan)معرضِ وجود میں آیا ، پاکستان کے قیام پر آنجناب نے جن روشن امیدوں کے ساتھ یادگار ریمارکس دئے وہ اسلام اور پاکستان سے محبت کے آئینہ دار ہیں ہز ہائنس نے فرمایا : Now Islam rises once again,the new state(Pakistan) is a mighty infant,the greatest child of Islam. اب اسلام ایک دفعہ پھر ابھرتا ہے، نئی مملکت( پاکستان) ایک طاقتور ترین نوزائیدہ اور اسلام کا سب سے بڑا فرزند ملک ہے( بحوالہ¿” دی آغا خانز، AgaKhans The جرمن اسکالر وِلی فِرِشارFrischauer Willi۔ آپ اتحادبین المسلمین کے عظیم داعی تھے، ترک خلافتِ عثمانیہ کے خلاف برطانیہ نے کارروائیاں شروع کیں تو آپ نے برطانوی وزیر اعظم کو للکار کر کہا کہ اگرچہ میں اس وقت بڑھاپے کا شکارہوں مگر اپنے عصا(چھڑی) سے بھی لڑ کر خلافتِ عثمانیہ کو بچانے کی کوشش کروں گا کہ یہ مسلم اتحاد کا واحد پلیٹ فارم ہے,پاکستان کے قیام کے بعد گوادر ” سلطنتِ اومان “ کی ملکیت تھا جس پر اغیار کی نظر لگی ہوئی تھی مگر پاکستان کے پاس اتنا فارن ایکسچینج نہیں تھا کہ اس اسٹر یٹیجک اہمیت کے حامل علاقہ کو خرید کر وطن عزیز کا حصہ بنائیں ، ہز ہائنس سر سلطان آغا خان نے اپنے ذاتی وسائل سے اس بیش بہا خزانہ کو خریدنے کی خواہش کا ا ظہار فرمایا چنانچہ1958 ءمیںآپ کی ہدایت کی روشنی میں ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان چہارم نے گوادر کو اومان حکومت سے خرید کر پاکستان کے حوالہ کیا یہ وزیر اعظم فیروز خان نون کا زمانہ تھا ، آج یہ ”ڈیپ سی بندرگاہ “ سی پیک پروجیکٹ کی اہمیت کے لحاظ سے پاک چین دوستی، ملکی اقتصادی استحکام اورروشن مستقبل کا ضامن ہے،آپ 2 نومبر1877ءکوکراچی میں پیدا ہوئے،آپ کی والدہ نواب عالیہ شمس الملک جو ایران کے بادشاہ قاچار” فتح علی شاہ“ کی پوتی تھی نے کمالِ بصیرت سے اپنے فرزندِ دلبند کو تکمیلِ شخصیت کے لئے دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی لیس کیا،جس سے آپ اسلام اور انسانیت کے پلیٹ فارم پر فلاحی کاموں اور اقوامِ عالم سے قریبی تعلقات کے لئے گلوبل ویژن کے ساتھ ایک متحرک شخصیت کے مالک بن گئے۔آپ اپنے والدِ بزرگوار امام آغا علی شاہ کی رحلت پر تقریباََ آٹھ سال کی عمر میں مسندِ امامت پرجلوہ افروز ہوئے ،آپ نے اس موقع پر فرمایا کہ میں حضرت فاطمہؑ اور حضرت علی المر تضیٰؑ کی اولادہونے کے ناتے سے اُن کے روحانی و علمی فضائل کا وارث ہوںاور اس وجہ سے میرا غیر منقطع سلسلہ رسولِ پاکﷺ سے جاملتا ہے(مفہوم) ، آپ نے خواتین کو تعلیم کے میدان میں ترجیح دینے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا” جس کے پاس ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے اور وہ صرف ایک بچے کو پڑھا سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹی کو اعلیٰ ٰتعلیم دے ، اس سے خاندان ترقی کرے گا اوربیٹے کو کسی ہنر سے وابستہ کریں“ ،1957ءمیںآنجناب کی رحلت کے بعد آپ کے پوتے پرنس کریم آغا خان نےAKDN کے نام سے پاکستان، اسلام اور انسانیت کی خدمت کا یہ فلسفہ جاری رکھا ہوا ہے اور اپنے مریدوں کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے ملک کے وفادار اور آئین وقانون کے پاسدار رہیں۔