افغان مہاجرےن ےا افغان سلےپر سےلز

رانا فیضان علی

 اللہ تعالی نے قرآن مجےد میں ارشاد فرماےا ہے ’کےا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی کچھ ہو سکتا ہے‘ ےقےنا اللہ احسان کا بدلہ کئی گنا کر کے عطا کرتا ہے تاہم بہت سے انسان احسان کرنے والوں کے ساتھ شر سے باز نہےں آتے وہ احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی محسن کی پےٹھ میں چھرا گھونپنے سے گرےز نہےں کرتے ۔باب العلم حضرت علیؑ نے اسی لےے فرماےا تھا جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔اس قول کو عملی جامہ پہنانے میں افغان مہاجرےن نے کوئی دقےقہ فرو گزاشت نہےں رکھا ےہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔لاکھوں افغان مہاجرےن برسہا برس سے ےہاں مقےم ہےں‘ ان کے ےہاں کاروبار ہےں‘ دو دو نسلےں جوان ہو چکی ہےں‘ےہاں تعلےم حاصل کر رہے ہےں لےکن آستےن کے ےہ سانپ ڈسنے کی اپنی طبےعت و مزاج سے باز نہےں آتے۔انہےں پاکستان کے دشمن بھارت سے پےار ہے جس نے طالبان کی آمد پر انہےں اپنے ہاں پناہ دےنے سے انکار کر دےا لےکن جہاں ےہ پناہ لےے ہوئے اور کھلے بندوں دندناتے پھرتے ہےں اسی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہےں‘غےر قانونی طور پر مقےم ہونے کے باوجود بھی انہےں کبھی کچھ نہےں کہا گےا حالانکہ کوئی ملک کسی بھی ملک کے شہری کو غےر قانونی طور پر اپنے ہاں کاروبار کرنا تو درکنار ٹھہرنے کی اجازت بھی نہےں دےتا۔ ستم ظرےفی ےہ ہے کہ دھڑلے سے کہتے ہےں کہ ہم ےہےں پےدا ہوئے لہذا ہم پاکستانی ہےں ےہ کےسے پاکستانی ہےں جو ناجائز طور پر سرحد عبور کر کے آئے مہمان نوازی کا فائدہ اٹھاےا اور زہر اگلنے کی اپنی فطرت سے پچاس سال گزارنے پر بھی باز نہےں آئے ۔اےسے میں کےسے ان سنپولوں کو اپنے ہاں مزےد قےام کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ےہ دنےا بھر میں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے ذرےعے ملک کو بدنام کرانے میں مصروف ہےں ۔نگران اور موجودہ حکومت کے دور کا ےہ بڑا کارنامہ قرار دےا جا سکتا ہے کہ ان حکومتوں نے ان کے خلاف اےکشن کا آغاز کےا۔انہوں نے آج تک پاکستان کے اس احسان کو تسلےم نہےں کےا کہ انہےں اپنے گلی محلوں‘ بازاروں میں جگہ دی ‘کاروبار کرنے دےا‘ تعلےم کے مواقع فراہم کےے ‘اپنا مسلمان بھائی سمجھ کر حسن سلوک سے کام لےا لےکن انہوں نے پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دےا۔ےہاں دہشت گردی پھےلائی‘خود کش حملے کےے‘ افغان دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ فراہم کی ‘دہشت گردوں کے سہولت کار کا فرےضہ انجام دےا‘نہ صرف افغانستان سے آئے دہشت گردوں کو اپنے گھروں میں ٹھہراےا بلکہ چورےاں‘ڈاکے لوٹ مار اور قتل و غارت گری میں مصروف رہے‘سمگلنگ‘بدمعاشی منشےات فروشی ‘اغوا برائے تاوان ‘قبضہ گروپ بن کر جائےدادوں پر قبضہ کرنے ‘گاڑےاں چھےننے اور اسلحے کی ناجائز ترسےل میں ملوث رہے‘ ہر ناجائز دھندے کے ڈانڈے انہی سے ملتے ہےں۔بھارت کے لےے کرائے کے قاتل بن کر دہشت گردی کرتے رہے ‘بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں و رےشہ دوانےوں میں معاون بنے رہے۔ انہوں نے پاکستان کے احسان کی لاج رکھنے کی بجائے وطن عزےز کو نقصان پہنچانے میں اپنی توانائےوں و صلاحےتوں کا بھرپور استعمال کےا۔ےہ جن جن علاقوں میں مقےم رہے وہاں معصوم و شرےف پاکستانےوں کی زندگےاں انہوں نے اجےرن بنائے رکھےں ‘امن و امان کی تباہی میں ان کا کےلدی کردار رہا جب بھی ان دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے ےہ اکھٹے ہو کر بلےک مےلنگ پر اتر آئے اور اپنی مظلومےت کا رونا روتے رہے۔بار بار اس سوراخ سے ڈسے جانے کے بعد حکام بالا نے انہےں دےس نکالا دےنے کا درست فےصلہ کےا ہے کےونکہ جو ملک ان کے لےے جنت کی حےثےت رکھتا ہے ےہ اسے ہی جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہےں۔ ےہ افغان مہاجرےن اےک ملےن سے زائد تعداد میں اےران میں بھی مقےم ہےں لےکن اےران نے انہےں مہاجر کےمپوں سے باہر نکل کر شہروں میں داخلے کی اجازت نہ دی اب اےران نے بھی دس لاکھ سے زائد مہاجرےن کو بے دخل کر کے واپس افغانستان بھےجنے کا اعلان کےا ہے ۔ےوں بھی افغانستان سے روسی اور امرےکی فوجوں کی واپسی کے بعد ان کا مہاجر بن کر ےہاں قےام کا کوئی جواز باقی نہےں رہتا۔پاکستان کو ان کی غےر قانونی سرگرمےوں کا مزےد بوجھ ہرگز نہےں اٹھانا چاہےے۔پاکستان نے تمام غیر قانونی تارکین وطن اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو31 مارچ 2025 تک ملک چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔ وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین پر امن طور پر واپس اپنے ملک نہ گئے تو یکم اپریل 2025 سے ان کی جبری ملک بدری کا آغاز کر دیا جائے گا ۔ حکومت پاکستان نے بجا طور پر یہ اقدام قومی سلامتی اور معاشی دباﺅ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔ےہ حقےقت ہے کہ پاکستان کی معیشت و معاشرت یہ بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتی‘ افغان مہاجرین کی وطن واپسی ناگزیر ہوچکی ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں بحالی کے منصوبے شروع کرے تاکہ واپس جانے والے افغان مہاجرین وہاں باعزت زندگی گزار سکیں اور اپنے ملک کی تعمیر میں حصہ لے سکیں۔حکومت پاکستان کا افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ درست اقدام ہے جس سے عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی‘ لوگوں کو روزگار ملے گا اور مکانوں کے کرایوں میں کمی ہو گی کون نہےں جانتا جس دن سے افغان مہاجرین کو کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی اس دن سے مقامی آبادی کو پریشانی میں مبتلا ہے لہذا غیر قانونی افغان مہاجرین کو بلاتاخےر ملک سے نکالا جائے اور رجسٹرڈ شدہ افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کیا جائے۔پاکستان میں رہنے والے افغانوں کی واپسی کا سلسلہ ستمبر 2023 سے شروع ہے پندرہ دسمبر 2024 تک تقرےبا آٹھ لاکھ مہاجرین اپنے ملک واپس جا چکے تھے۔گزشتہ سال سال مئی اور جون میں 76 ہزار لوگ افغانستان کو واپس گئے۔حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کو پی او آر کارڈ دکھانے کی صورت میں جون 2025 تک ملک میں رہنے کی اجازت دی تھی‘ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ملک میں ایسے افغانوں کی تعداد تقریبا چودہ لاکھ پچاس ہزار ہے۔ ان کے علاوہ تقریبا نو لاکھ افغان شہری تاحال کسی قانونی دستاویز کے بغیر پاکستان میں موجود ہیں۔اس دوران ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی حراستوں اور ملک بدری کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ ان حالات میں لاکھوں افغان گرفتاری کے خوف سے پاکستان چھوڑ گئے۔گزشتہ سال کے آخر میں قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے ملک میں مقیم تارکین وطن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو ملکی شہریت دیے جانے کے قانون میں ترمیم بھی منظور کی جس کے بعد پاکستان میں رہنے والے بہت سے افغان شہریوں کے بچوں کے لیے یہ سہولت ختم ہو گئی ہے‘ کمیٹی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے صرف اسی بچے کو شہریت مل سکے گی جس کے والدین میں سے کم از کم ایک کے پاس پاکستانی شہریت ہو گی۔پاکستان سے واپسی اختیار کرنے والے افغان مہاجرین میں اکتےس فیصد کا تعلق ایسے گھرانوں سے ہے جن کا مرد سربراہ نہ ہونے کے باعث کنبے کی کفالت کا بوجھ خواتین اٹھاتی ہیں۔تارےخ پر نگاہ دوڑائےں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔1990 تک بتےس لاکھ مہاجر پاکستان آ چکے تھے ۔ سوویت یونین کی واپسی کے بعد 1990 کی دہائی میں افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران بھی مہاجرین پاکستان آتے رہے۔2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا رخ کرنے والے افغانوں کی مجموعی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے بعد تقریبا سات لاکھ افغانوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں پناہ لی۔مےجر ساجد مسعود کے مطابق عالمی قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے والی افغانی کٹھ پتلی حکومتوں نے ہمیشہ ہی بھارتی چانکیائی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ہمیشہ دوست، مددگار اور بڑا بھائی سمجھنے کی بجائے اپنا دشمن سمجھا جس کی ایک بڑی وجہ مغربی دنیا اور بھارت کا افغانستان میں اپنے مفادات کے لیئے گٹھ جوڑ بھی ہے۔ افغانستان بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے مغربی علاقوں فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردی کرتا رہا ۔ان لوگوں نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنی اپنی بستیاں بسا رکھی ہیں جس سے نہ صرف ہر شہر کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی سہولت کاری میں بھی کئی مواقع پر یہی افغانی ملوث پائے گئے ہیں۔ پاکستان کی افغانی تارکین وطن کو واپسی کی ڈیڈ لائن ایک ایسا فیصلہ ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا لیکن ماضی کی تمام پاکستانی حکومتوں نے افغان مہاجرین کو اپنے مسلم بھائی جان کر اور افغانستان کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر نہ صرف انہیں اپنے ملک میں پناہ دیے رکھی بلکہ انہیں کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں رہ رہے ہیں۔افغانی حکومت کی خام خیالی اور عاقبت نااندیشی کا یہ عالم ہے کہ وہ سپر پاورز کو زیر کرنے کا جو گےت گا رہی ہے اس میں اصل کردار پاکستان کا تھا اور افغان حکومت کو یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ امریکہ نے تو چند ہفتوں میں طالبان کا تختہ الٹا تھا افواج پاکستان چونکہ افغانستان کے چپے چپے سے نہ صرف واقف ہےں بلکہ ان کے ہر خفیہ ٹھکانے سے بھی واقف ہےں اس لیئے پاکستانی بری اور ہوائی افواج کے لئے یہ کام چند گھنٹوں کا ہے۔ چالیس سالہ ان مہمانوں جن کی پاکستان نے ہمیشہ خدمت کی اور انہوں نے پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ایسے مہمانوں کے لےے اب وقت آ گےا ہے کہ زبردستی انہےں ان کے وطن روانہ کیا جائے۔