یوکرین کے لیے یورپی حمایت

 سید مجاہد علی

برطانوی وزیر اعظم کئیر اسٹارمر کی سربراہی میں یورپی لیڈروں نے یوکرین کے دفاع کے لیے یک جہتی کا اعلان کیا ہے اور امریکی امن منصوبے کے مقابلے میں امن کے لیے یورپی تجاویز تیار کی گئی ہیں جنہیں اسٹرامر میکرون منصوبہ کا نام دیا جا رہا ہے۔ البتہ ابھی ان تجاویز کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ لندن اجلاس میں البتہ ایک طرف یوکرین کی حفاظت پر اتفاق کیا گیا، دوسری طرف اس پہلو پر زور دیا گیا کہ امن کا کوئی بھی منصوبہ امریکہ کے ساتھ مل کر ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔برطانوی وزیر اعظم اسٹامر نے بیشتر یورپی ممالک کے لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ براعظم یورپ کی سلامتی کے حوالے سے فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اب باتوں کا وقت نہیں ہے بلکہ عمل کرنے کا وقت ہے۔ اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم نے یوکرین کو میزائلوں کی خریداری کے لیے ایک ارب 60 کروڑ اسٹرلنگ پائونڈ امداد دینے کا اعلان بھی کیا۔ یورپی لیڈروں نے دفاعی اخراجات میں اضافہ پر اتفاق کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکہ کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ یورپی ممالک اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ تاہم اسی کے ساتھ یہ لیڈر سلامتی کے سوال پر امریکہ کی حمایت اور تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں۔دوسری طرف ماسکو میں یوکرین کے سوال پر امریکہ اور یورپ میں پیدا ہونے والے اختلافات پر اطمینان محسوس کیا جا رہا ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوو نے کہا ہے کہ یوکرین میں فوجی آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک تمام اہداف پورے نہیں کر لیے جاتے۔ یوکرین کے ساتھ امن کا کوئی منصوبہ ابھی ہمارے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغربی اتحاد میں اب اتحاد کم نظر آ رہا ہے۔ مغربی اتحاد کی ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا آغاز ہو گیا ہے اور ممالک کے درمیان اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ کچھ ممالک کا گروپ بظاہر اب بھی جنگ چاہتا ہے۔ یہ ملک یوکرین کی جنگ جاری رکھنے میں حمایت کر رہے ہیں اور انہیں فوجی کارروائیوں کے لیے رسد فراہم کر رہے ہیں ۔موجودہ صورت حال میں پایا جانے والا یہ اطمینان قابل فہم ہے۔ صدر ولادیمیر پوتن یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یوکرینی جنگ کے بارے میں امریکی پوزیشن تبدیل ہوئی ہے اور وہ سابق صدر بائیڈن کی طرف روس کو تنہا کرنے کے حامی بھی نہیں ہیں بلکہ ان کی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ روسی شرائط پر بند کردی جائے اور یوکرین ان تمام شرائط کو مان لے جن پر امریکہ روس کے ساتھ اتفاق کرتا ہے۔ ان شرائط میں یوکرین کے بیس فیصد علاقے پر روس کا قبضہ بحال رہے گا جس پر اس نے تین سال جنگ کے دوران تسلط قائم کیا ہے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی کا موقف رہا ہے کہ جنگ اس وقت تک بند نہیں ہو سکتی جب تک روس مقبوضہ یوکرینی علاقوں سے واپس نہیں جاتا۔ اب لگتا ہے کہ یہ خواہش شاید کبھی پوری نہ ہو سکے۔جمعہ کے روز وائٹ ہائوس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی کے درمیان پیدا ہونے والی تلخی کی بظاہر وجہ بھی ٹرمپ کا یہی موقف تھا کہ یوکرین اپنی پوزیشن تبدیل کرے اور جنگ بند کرنے کے لیے امریکہ کا مشورہ مان لے۔ زیلنسکی نے جب روس کو جارح اور پوتن کو اپنے لوگوں کا قاتل قرار دیتے ہوئے اس تجویز سے اختلاف کیا تو ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے نائب صدر وینس شدید ناراض ہو گئے۔ اور تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے یوکرینی صدر پر واضح کیا کہ آپ کے پاس کوئی کارڈ نہیں ہیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ شرائط منوانے پر اصرار کریں۔ امریکہ کے بغیر جنگ میں یوکرین کو تباہ کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس تلخ کلامی کے بعد یہ ملاقات ختم ہو گئی اور زیلنسکی معدنیات کے مجوزہ معاہدے پر دستخط کیے بغیر وائٹ ہائوس سے روانہ ہو گئے۔ وائٹ ہائوس نے دونوں لیڈروں کی مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ یوکرینی صدر ابھی امن پر تیار نہیں ہیں تاہم جب وہ امن چاہیں تو واپس آ سکتے ہیں۔یورپ میں وائٹ ہائوس میں زیلنسکی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر شدید رد عمل دیکھنے میں آیا اور اسے جمہوری اقدار اور یوکرین کی خودمختاری کے خلاف موقف قرار دیا گیا۔ یورپ میں عام طور سے اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ یورپ یوکرین کے ساتھ کھڑا رہے گا اور اس جنگ میں اسے تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس موقف کی تکرار اب لندن کانفرنس میں بھی سننے میں آئی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ابھی یورپی لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کو ناقابل اعتبار حلیف کہنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کئیر اسٹارمر نے اگرچہ یوکرینی صدر کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور تمام یورپی لیڈروں نے ان کے موقف کی تائید کی لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ کو اس عمل میں شامل رکھنے اور یوکرین کے سوال پر اس کے تحفظات دور کرنے کی تجاویز پر غور کیا گیا۔ یوکرین جنگ کے حوالے سے ٹرمپ کا اثر یوں بھی دکھائی دیتا ہے کہ اب یورپی لیڈر جنگ جاری رکھنے کی بجائے اسے بند کرانے اور کسی بھی طرح جنگ بندی کی مانیٹرنگ کو موثر بنانے کی بات کرتے ہیں۔ اس سے پہلے عام طور سے روس کی شکست اور یوکرینی علاقوں سے واپسی کا مطالبہ سر فہرست ہوتا تھا۔وزیر اعظم اسٹارمر نے فرانس کے صدر میکرون کے ساتھ مل کر یوکرین میں امن کے لیے جو تجاویز تیار کی ہیں، ان کا باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان تجاویز میں جو نکات شامل ہیں، ان میں یوکرین کے دفاع کو مضبوط کرنا، یورپ کی طرف سے سکیورٹی کی ضمانت اور اس منصوبہ کے لیے امریکہ کی حمایت کا اصول شامل ہے تاکہ روس طے شدہ امن شرائط سے انحراف نہ کرے۔ بعد میں فرانسیسی صدر نے میڈیا سے باتوں میں ان تجاویز کے بارے میں کچھ اشارے دیے ہیں جن میں تین ماہ کی عبوری جنگ بندی کا معاہدہ کرایا جائے گا جس کے دوران قابل اعتبار یورپی امن فوج جنگ بندی کی نگرانی کرے گی۔ جبکہ فضائی و انٹیلی جنس نگرانی کے لیے امریکی تعاون پر انحصار کیا جائے گا۔ ان تجاویز پر اب برطانیہ کے وزیر اعظم امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے اور انہیں کسی متفقہ فارمولے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پہلے ٹرمپ وزیر اعظم اسٹارمر اور صدر میکرون کی اس خواہش کو مسترد کرچکے ہیں کہ امریکہ یوکرین کی فوجی امداد جاری رکھے۔ لندن کانفرنس میں البتہ یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ یورپی ممالک کو خود یوکرین اور براعظم کی سلامتی کے لیے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔لندن کانفرنس میں یہ خواہش سامنے آئی ہے کہ یورپ ابھی تک یوکرین کو تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے کیوں کہ یوکرین کی مکمل ہزیمت کی صورت میں یورپ کی سیکیورٹی کو شدید خطرہ لاحق ہو گا۔ اسی لیے اب یورپین یونین اس ہفتے کے دوران یوکرین کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کرنے والی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یورپی لیڈر چاہتے ہیں کہ یوکرین کا معاملہ امریکہ اور روس ہی مل کر طے نہ کریں بلکہ یورپ کو بھی اس میں شامل کیا جائے اور اس کی رائے کو وقعت دی جائے۔ لندن کانفرنس میں جن امن تجاویز پر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے، ان میں یورپی شراکت کا اصول ہی سر فہرست ہے۔ یوکرینی صدر نے ان تجاویز پر کوئی تبصرہ تو نہیں کیا ہے لیکن ان کے پاس اس رائے کے ساتھ چلنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے ورنہ انہیں یورپ کی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا۔یہ صورت حال بظاہر یوکرین کے موقف کی ناکامی ہے اور اب امریکہ کے علاوہ یورپی لیڈر بھی جنگ بند کرنے اور کسی بھی طرح یورپ امریکہ اتحاد قائم رکھنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ لندن کانفرنس میں سامنے آنے والی تجاویز کے بعد امید ہے کہ شاید واشنگٹن بھی اس شرط پر اس امن معاہدہ میں شامل ہو جائے کہ اسے اس معاملہ میں زیر بار نہ ہونا پڑے اور روس کو تنہا کرنے کی کوششیں ترک کی جائیں۔ روس، یوکرین کے مقبوضہ علاقوں پر قابض رہ کر کسی امن معاہدے کو اپنی کامیابی ہی سمجھے گا۔ زیلنسکی نے لندن میں ایک بار پھر امریکہ کو معدنیات پر معاہدہ کرنے کی پیش کش کی ہے۔ اس طرح ٹرمپ نے دبائو ڈال کر کام نکالنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے وہ فی الوقت کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔تاہم امریکہ اور روس کے درمیان طویل المدت اشتراک کی توقع شاید قبل از وقت ہوگی۔ دونوں ملکوں کے درمیان سات آٹھ دہائیوں پر مشتمل دشمنی و رقابت کا رشتہ ہے۔ اسے محض ایک صدر کی مہم جویانہ طبیعت سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ روس کو ایک بار پھر عالمی نظام میں واپسی کا ایک باوقار راستہ فراہم کرنے کا سبب ضرور بن رہے ہیں۔ وقت ہی بتائے گا کہ ٹرمپ، روسی صدر پوتن سے اس رعایت کی کیا قیمت طلب کرتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلق و رشتہ کیسے آگے بڑھے گا۔