امیرجان حقانی
ضلع دیامر کے نوجوان علما نے حقوق دو، ڈیم بنائو تحریک کا آغاز کیا ہے۔ شاندار اور مفصل چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ، یہ تحریک گزشتہ تین ہفتوں سے جاری ہے، اور عوام نے ایک بار پھر علما کرام کو اپنا مسیحا سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں علما کرام کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے چند اہم گزارشات پیش کی جا رہی ہیں، جن پر عمل پیرا ہونا کامیابی کی ضمانت ہوگا۔ میں امید کرتا ہوں کہ علما کرام، میری ان گزارشات کو سنجیدگی سے لیں گے۔
تحریک کو ریاست مخالف رنگ نہ دیا جائے:یہ تحریک بالخصوص دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کے حقوق کے حصول کے لیے ہے، نہ کہ ریاست سے ٹکرائو کے لیے اس لیے تصادم اور ریاست مخالفت سے گریز لازمی ہے۔ قرآن پاک میں واضح ہدایت ہے:اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلائو۔ریاست سے تصادم کا راستہ نہ صرف تحریک کو سبوتاژ کر سکتا ہے بلکہ اس سے علاقے میں مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ انتظامیہ کی کوشش ہوگی کہ علما کو اشتعال دلا کر ریاست کے خلاف کھڑا کر دیا جائے، لیکن اس جال میں ہرگز نہ پھنسیں۔
خون خرابے سے ہر قیمت پر گریز کریں:تحریکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی پرامن احتجاج پرتشدد رخ اختیار کرتا ہے، تو وہ اپنی منزل کھو بیٹھتا ہے۔ نبی کریمۖ کا ارشاد ہے:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔اس لیے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تحریک میں کوئی ایسا عمل نہ ہو جس سے کسی کی جان و مال کو خطرہ ہو۔ اور انتظامیہ کے چاہنے کے باوجود بھی خون خرابہ اور قتل و غارت سے تحریک اور عوام کو بچانا ہے۔
اتحاد و اتفاق برقرار رکھیں:جب دیامر کے عوام نے علما کو مسیحا سمجھا ہے اور اسی طرح پورے گلگت بلتستان کی تائید انہیں حاصل ہوئی ہے، تو اس بھروسے اور تائید کو قائم رکھنا بھی علما کی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی قبائلی، لسانی، یا سیاسی و مذہبی تعصب میں نہیں آنا۔ نبی کریمۖ نے فرمایا:اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے، وہ اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔یہ تحریک دیامر کے عوام کے اجتماعی مفاد کے لیے ہے، اسے کسی مخصوص جماعت، قبیلے یا گروہ کا مسئلہ نہ بننے دیں۔
مالی اور ذاتی مفاد پر تحریک کا سودا نہ کریں:یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ اگر مالی لالچ، ذاتی فائدہ یا وقتی مفادات کی خاطر اس تحریک کے ساتھ خیانت کی گئی، تو یہ تحریک ایک عبرتناک مثال بن جائے گی اور علما کرام مستقبل میں قوم کو چہرہ دکھانے سے بھی ڈر جائیں گے۔ یاد رکھیں:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔یہ سماجی تحریک قوم اور متاثرین کی طرف سے آپ کے پاس ایک امانت ہے، اور عوام نے آپ کو اہل سمجھ کر یہ قیادت کی امانت تمہیں سپرد کی ہے۔ اور اب اس کی کامیابی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب تحریک کے تمام شرکا اور بالخصوص علما کرام اپنی ذات اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیں۔ یاد رہے کہ علما کی تھوڑی سی کمزوری، لالچ، اور انا، آپ کو اوج ثریا سے قعر مذلت میں گرا دے گی۔ لہذا آپ نے انتہائی محتاط اور حساس رہنا ہے۔
مذاکرات کی تیاری انتہائی ضروری ہے:مذاکرات ایک انتہائی نازک اور تکنیکی مرحلہ ہوتا ہے۔ حکومت اور بیوروکریسی کے ماہرین مذاکرات میں ایسے حربے استعمال کریں گے کہ اندازہ بھی نہیں ہوگا۔ لہذا، چند بنیادی نکات ذہن نشین کر لیں:مذاکرات میں سنیئر وکلا اور ماہر بیوروکریٹس کی مدد ضرور لیں۔ زبانی دعووں اور وعدوں پر بھروسہ نہ کریں، ہر بات تحریری معاہدے کی صورت میں طے کریں۔ کسی بھی جذباتی جملے یا اشتعال انگیزی سے بچیں، کیونکہ حکومت ہمیشہ ایسی غلطیوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ مذاکرات میں بنیادی مطالبات واضح اور دوٹوک انداز میں پیش کریں، لیکن حکمت اور تدبر کا دامن نہ چھوڑیں۔مذاکرات میں کامیابی کے لئے چند اہم نکات اور تجاویز پیش کرنے کی کوشش کرونگا تاکہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی کے لیے علما کرام اور عوامی نمائندے ان چند اہم تکنیکوں اور حکمت عملیوں کو اپنا کر حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ کو تسلیم کرنے پر مجبور کر سکیں۔ چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
مذاکرات کو قانونی تحفظ فراہم کرنا
عدالت کو ضامن بنانا
مذاکرات کے دوران حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت کسی معاہدے پر متفق ہوتی ہے تو اس معاہدے کو عدالت میں جمع کروا کر قانونی تحفظ حاصل کیا جائے تاکہ مستقبل میں حکومت اس سے انحراف نہ کر سکے۔ جب عدالت ضامن بنے گی تو مستقبل میں کام آسان ہوگا۔
تحریری معاہدہ:زبانی اور اخباری وعدے اکثر پورے نہیں کیے جاتے، لہذا مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں کو تحریری معاہدے کی شکل میں لایا جائے، جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوں۔
عوامی دبائو، میڈیا اور یکجہتی برقرار رکھنا
عوامی حمایت:اگر عوام متحد رہیں اور مسلسل پرامن احتجاج جاری رکھیں، تو حکومت پر دبائو بڑھے گا۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا:جماعت کے ساتھ رہو، کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔لہذا جب تک تحریری معاہدہ ہوکر عدالت ضامن نہیں بنتی عوامی حمایت اور یکجہتی جاری رہنی چاہیے۔
میڈیا کا موثر استعمال:اب تک تحریک کے لئے میڈیا موثر کردار ادا کررہا ہے، میڈیا روایتی اور سوشل میڈیا کو مزید موثر استعمال کر کے حکومت پر دبائو ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ مذاکرات میں تاخیری حربے نہ اپنائے اور عوام کے حقوق تسلیم کرے۔ نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا تک رسائی بھی ضروری ہے۔
مذاکراتی ماہرین اور قانونی مشیروں کی شمولیت:حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے لئے ماہر وکلا، ریٹائرڈ ججز، یا تجربہ کار بیوروکریٹس کو شامل کیا جائے تاکہ وہ قانونی و تکنیکی پہلوئوں پر نظر رکھیں اور حکومت کے ممکنہ چالاکی بھرے حربوں کو ناکام بنا سکیں۔ علما اس پر بھی فوری کام شروع کریں تاکہ عین وقت پر مشکلات کا سامنا نہ ہو ۔
حکومت کے کمزور پہلوں کو سمجھنا اور ان کا فائدہ اٹھانا
بین الاقوامی دبائو:حقوق دو ڈیم بنائو تحریک کا معاملہ انسانی حقوق اور ترقیاتی حقوق سے متعلق ہے، لوگوں کی ذاتی زندگی بھری طرح ڈسٹرب ہے۔ تو اسے بین الاقوامی اداروں کے علم میں لایا جا سکتا ہے تاکہ حکومت پر مزید دبائو پڑے۔ یہ کام فوری کرنا چاہیے۔ علما کرام کو اس پر فوری توجہ دے کو ایک ٹیم تشکیل دینی چاہیے ۔
حکومت کی سیاسی مجبوریوں کا فائدہ:حکومتیں ہمیشہ اپنی ساکھ اور ووٹ بینک کے حوالے سے حساس ہوتی ہیں ، اس لیے ایسے نکات کو اجاگر کیا جائے جو حکومت کے لیے عوامی سطح پر پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
مرحلہ وار مذاکرات کی حکمت عملی
ابتدائی مطالبات:پہلے وہ مطالبات سامنے رکھے جائیں جنہیں حکومت آسانی سے قبول کر لے تاکہ مذاکرات مثبت سمت میں چلیں۔
بنیادی مطالبات:اصل مطالبات کو مرحلہ وار پیش کیا جائے، اور ہر مرحلے پر حکومت کی یقین دہانی کو تحریری طور پر محفوظ کر لیا جائے۔
حتمی فیصلہ:جب حکومت کچھ نکات مان چکی ہو، تب اہم مطالبات کو منوانے کا دبائو ڈالا جائے۔ ایک دم، شروع میں ہی اہم مطالبات رکھ دینے سے شاید بہت ساری چیزوں سے دستبردار ہونا پڑے گا، لہذا ان مطالبات کو آخر میں منوالیا جائے جو سب سے اہم اور لازمی ہوں۔
متبادل اقدامات کی دھمکی دینا لیکن محتاط انداز میں:اگر حکومت ٹال مٹول کرے تو نرم انداز میں متبادل اقدامات کی تجویز دی جائے، جیسے:
سپریم کورٹ میں ڈیم خلاف کیس دائر کرنا۔
طویل پرامن دھرنا دینا، جو طویل مدتی دبائو پیدا کرے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے رجوع کرنا۔
حکومتی ٹیم کے اندر اختلافات کو سمجھنا اور استعمال کرنا:اکثر حکومت کی ٹیم میں مختلف آرا ہوتی ہیں۔ اگر کوئی حکومتی شخصیت عوام کے حق میں بہتر رویہ رکھتی ہے تو اسے مذاکرات میں بطور اتحادی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے بھی ٹیکنیکل انداز میں کام کرنا ہوگا۔ حکومت میں موجود، تحریک کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں سے مدد لینا ہوگا ۔مذاکرات میں صبر، حکمت، اور بہترین حکمت عملی اپنانے سے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر علما کرام ان نکات کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھیں، تو ان شا اللہ حقوق دو، ڈیم بنائو تحریک اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔
آخری بات:حقوق دو ڈیم بنائو تحریک ایک سنہری موقع ہے کہ دیامر کے حقوق کو منوایا جائے۔ لیکن یہ اسی وقت کامیاب ہوگی جب حکمت، تدبر، صبر، اتحاد، اور ایمانداری کے ساتھ چلائی جائے۔ علما کے لیے یہ ایک سخت ترین آزمائش بھی ہے اور ایک شاندار موقع بھی کہ وہ اپنی قیادت کی صلاحیت کو ثابت کریں۔ علما کرام کو یاد رکھنا چاہیے کہ پوری قوم کی نظریں آپ پر جم چکی ہیں، کہیں تم داستان سناتے سناتے خاموش نہ ہوجا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس تحریک کو کامیاب فرمائے اور دیامر کے عوام کے حقوق انہیں دلوانے میں مدد کرے۔ اور دیامر کے نوجوانوں علما کرام کو سرخرو کرے، آمین۔