نثار حسین
گزشتہ ہفتے والد محترم کی برسی کے سلسلے میں خاکسار لاہور میں تھا جہاں بھائیوں سے بڑھ کر پیار کرنے والے سچے اور کھرے دوست زاہدعباس سید نے میزبانی کا شرف بخشا ،وہ شہر لاہور کی یادیں تازہ کرنے والے عہد ساز شاعر رہ گئے ہیں،جنہوں نے شعبہ صحافت میں بھی 40برس تک سچ کے ساتھ زندہ رہنے کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ،زاہد عباس سید کو قریب سے دیکھا ،40سال پہلے جب انہیں سیف زلفی ،نردوش ترابی،حبیب جالب اور محسن نقوی جسے شاعر آکر ہمارے سامنے ملتے تو ہم سمجھتے کہ ادبی خبریں دینے کی وجہ سے ان شعرا کیساتھ زاہد عباس سید کا گہرا تعلق بن گیا ہوگا لیکن مجھ پر ان کے قادرالکلام شاعر ہونے کا راز اس وقت ہی کھل گیا جب ممتاز شاعر اور میرے بزرگ ساتھی ظہیر کاشمیری نے ایک مصرعے پر بینظیر کے لئے فی البدیہہ نظم کہنے کے لئے ہمارے سامنے دعوت دی تو صرف 15منٹ کے دوران زاہد عباس سید نے شاہکار نظم تخلیق کردی اور دوسرے روز یہ نظم مساوات کے صفحہ اول پر ہمارے استاد حضرت اعجاز رضوی نے شائع کی ،پھر انکی دبنگ شاعری کے ہرسوں چرچے رہے ،اس واقعہ سے بہت پہلے شاعر اہل بیت محسن نقوی سے ہمارے دفتر کی کچھ ساتھی لڑکیوں نے زاہد عباس سید کے بارے میں سوال کیا کہ"کیا یہ بھی شاعر ہیں؟ تو محسن نقوی نے برجستہ جواب دیا کہ" یہ تو ہم سے بھی بڑے شاعر ہیں" "روحی کنجاہی اور احمد راہی اکثر انہیں ملنے دفتر تشریف لاتے رہے ،اس زمانے میں تو زاہد عباس سید مساوات کے ادبی ایڈیشن کے انچارج بھی نہیں تھے ،لیکن جب وہ مساوات کے ادبی ایڈیشن تیار کرنے لگے تو خاکسار نے اعجاز رضوی سے دریافت کیا کہ اس ادبی ایڈیشن کا معیار کیسا ہے ؟ جس پر اعجاز رضوی نے برجستہ جواب دیا کہ زاہد عباس سید دنیا کا سب سے معیاری ادبی ایڈیشن تیارکرتے ہیں ،اسکے ساتھ ہم نے ایک عہد گزار دیا پھر صحافت میں تیزرفتار ترقی کے ساتھ سچ کے تناور درخت کے سائے کی جگہ تازہ ذہنوں کو جھلستی جھوٹ کی دھوپ نے لے لی ،پھر جھوٹ کی یلغار پھیلتی ہی چلی گئی ۔کئی صحافی سچائی کے سائے سے محروم ہوتے چلے گئے ،اقدار تبدیل ہوئیں اور جھوٹ کو سچ کے خوبصورت ملبوس میں پیش کرنے کا رواج عام ہوتا چلا گیا،مگر سچ کو من وعن سامنے لانے والے صحافیوں کا سفر بھی جاری رہا ،اس راہ میں بہت کچھ کھونا پڑا ،اس عہد کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے آج اس کے نقصان پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے بلا کی اداکاری بھی کرتے ہیں اور اپنے کسی رنج کو کسی سچے اور کھرے صحافی کے رنج سے جوڑدیتے ہیں،کمارت مہارت کیساتھ موقع سے فائدہ اٹھانے والوں کے جھوٹ کوبھی بے آبرو کرنے والے اپنا صائب کردار نبھاتے چلے آرہے ہیں ،اب برسوں بعد ہم جب زاہد عباس سید کے ساتھ لاہورکے مختلف مقامات پر اپنے گزرے وقت کے اوراق سے کچھ واقعات کے تناظر میں گفتگو کررہے تھے تو شام کو لاہور پریس کلب میں کئی ساتھیوں کا ذکرہوتا رہا جن میں ارشد شریف کے ایک جگہ کام کرنے اور ان سے زاہد عباس سید نے جو سچائی کے انتظار کے عنوان سے مکالمہ کیا تھا اسے یاد کرکے بہت دیر تک محظوظ ہوئے ،اس وقت ارشد شریف کس کرب کا سامناکررہے تھے ہمیں اس بات کا تو کوئی اندازہ ہی نہ تھا ہم لوگ اس بات سے بے فکر رہے کہ جس ارشد شریف کے ساتھ غائبانہ خلوص کا اظہار کررہے ہیں وہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں مارا جائے گا ،دوسری صبح یہ اطلاع ملی تو ہمیں جھٹکا لگا،ارشد شریف کے بارے میں اس اطلاع نے مجھے جھنجھوڑکر رکھ دیا,لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے زاہدعباس سید سے الوداعی ملاقات پر یہ جملہ بھی فی البدیہہ نکلا کہ شاہ جی ،اب شائد اگلی ملاقات بھی ہم کرسکیں یاشائد ہمیشہ کے لئے بچھڑجائیں گے ،کچھ بھی ہوسکتاہے"اس کے بعد اب تک میں شہر اقتدارمیں آکر بھی سکتے کی حالت میں ہوں ،انکی ناگہانی موت نے تو پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے ،ہمیں تو کسی بھی پاکستانی کی نیت پر شک نہیں ،ادارے اپنا کام کررہے ہیں مگر ملک دشمن حقائق کو مسخ کرکے افراتفری پھیلانے میں مہارت رکھتے ہیں ،ہر محب وطن پاکستانی کو ارشد شریف کی المناک موت کا دلی رنج ہے اور دکھ کی اس گھڑی میں اہلخانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں،اب تک ارشد شریف کی کینیا میں موت کی تحقیقات کے لیے وزارتِ داخلہ نے ٹیم تشکیل دے کر روانہ بھی کردی ہے ۔وزارت داخلہ کی تشکیل دی گئی تین رکنی تحقیقاتی ٹیم میں ایف آئی اے، آئی بی اور آئی ایس آئی کے افسران شامل ہیں۔ڈائریکٹر ایف آئی اے اطہر وحید، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی بی شاہد حامد اور آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ کرنل سعد احمد بھی ٹیم میں شامل ہیں۔وزارت داخلہ کے جاری کردہ نوٹی فےکیشن کے مطابق تحقیقاتی ٹیم فوری طور پر کینیا روانہ کی گئی اور یہ اب اپنی رپورٹ وزارت داخلہ کو پیش کرے گی۔کینین پولیس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ارشد شریف کو شناخت میں غلطی پر سر پر گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔گزشتہ روز انہیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپردِ خاک کر دیا گیا ،جنازے میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ شریک ہوئے اور شرکادل گرفتہ رہے ،پوراماحول سوگوار رہا ۔ارشد شریف کے سچ کو جھوٹ کی آمیزش کیساتھ انتشار پھیلاکر قوم کو گمراہ کرنیوالوں کی ہر کوشش بھی اب پاکستان کی آبرو پر جانیں نچھاور کرنے والے ناکام بناچکے ہیں ،اس لئے ارشد شریف کے قتل کو کسی طور بھی کوئی اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال نہیں کرسکے گا کیونکہ پوری قوم کی نظریں سچ پر ہیں اور قوم سچائی کے طشت ازبام ہونے کی منتظر ہے ،سچ لکھنے والوں کا سفر جاری رہے گا ،مقتول محسن نقوی نے بجا طور پر ہی یہ توقع ظاہر کی تھی ،عہمارے بعدبھی رونق رہے گی مقتل میںہم اہل دل کوبڑے حوصلوں میں چھوڑ ائے۔