احسان علی دانش
خپلو بالا میں ہمارے اجداد کا پیشہ نہایت مقدس مگر نہایت خطرناک پیشہ تھا۔ میں نے جب آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو معلوم ہوا میرے والد محترم موسی علی بیافو وا دریائے شیوک آر پار کرنے والے زخ بان (کشتی بان)تھے۔ زخ جانوروں کی کھالوں میں ہوا بھر کر اور باہم جوڑ کر بنایا جاتا۔ اس کام کے لئے حکومت کی طرف سے مراعات تو اتنی نہیں تھی البتہ سال میں ایک بار علاقے کی عوام اپنی اجناس سے ایک حصہ ہمارے نام مختص کرتی جسے ہم بخوشی جمع کرتے۔ گرمیوں میں دریا چڑھتا اور زخ کے نذر طوفاں ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا تو ہمارے بابا فورا بلند آواز میں امام رضا علیہ السلام کی شان میں لکھا کوئی فارسی قصیدہ پڑھنے لگتے اور زخ بحفاظت کنارے لگتا۔ بابا کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہوئے وہ قصیدہ خود مجھے بھی یاد ہوگیا۔ آج جب کبھی کسی کام میں دشواری محسوس کرتا ہوں تو اس قصیدے کو یادداشت کے تہہ خانے سے نوک زبان پر لاتا ہوں۔ زخ کی سواری گھر سے تبرکات لے آتی جن میں روٹی ، اذوق ، چپاتی وغیرہ ہوتے۔ شام کو ابو اس طرح کی چیزیں گھر لے آتے اور ہم بڑے شوق سے کھا لیتے۔ اس دور میں ہمارے علاقے میں زخ کی لکڑی نہایت مقدس تصور کرتے ۔ زخ سے سواری اتر کر جاتے ہوئے لکڑی کے ٹکڑے ضرور ہمراہ لے جاتے اور اپنے پیاروں کے بازوں پر تعویز کے طور پر باندھتے۔ 1948 میں جب وطن عزیز کی تخلیق کے لئے جنگیں لڑی گئیں تو بابا کو خپلو سے نوبرا وادی لے جایا گیا، وہاں پورے چھے مہینے مجاہدین کے لئے زخ بانی کرتے رہے۔بابا اپنی جوانی میں شملہ پہنچے تھے جہاں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں عروج پر دیکھی تھیں ساتھ ہی علامہ اقبال کا ذکر خیر بھی بارہا سنا تھا لہذا جب میں پیدا ہوا تو عریانی اقبال کی عقیدت و محبت میں میرا بھی نام اقبال رکھ دیا تھا۔ مجھ سے قبل اقبال نام کا کوئی فرد خپلو علاقے میں موجود نہیں تھا۔بابا سال بھر زخ بان بن کر دریا کی موجوں سے کھیلتے رہتے اور میں بستہ اور تختی اٹھا کر سکول میں لفظوں سے کھیلتا رہتا، اس طرح ایک دن میں نے میٹرک پاس کیا اور ٹیچر کی نوکری بھی مل گئی مگر من میں کچھ ہٹ کے کرنے کی لگن تھی جس کے لئے سرکاری نوکری کو خیر آباد کہا اور 1974 میں کے ٹو کی طرف جانے والی کسی انگریز کوہ پیما ٹیم کا پوٹر بن گیا۔ نوجوانی میں انگریزوں کے ساتھ پوٹر والا یہ سفر ٹورازم کی دنیا میں میرا پہلا قدم تھا۔ میں نے جب پہاڑوں، چوٹیوں، گلیشےئروں، تنگ گھاٹیوں اور وادیوں کی دنیا دیکھی تو معلوم ہوا کہ اس شعبے میں تھوڑی محنت سے بہت زیادہ کمایا جاسکتا ہے اور اپنے ساتھ دیگر ہزاروں لوگوں کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ لہذا میری نظریں انگریزوں کا تعاقب کرنے لگیں۔ کوہ پیمائی میں میری غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر مجھے اپنے گروپ کا سکینڈ سردار بنایا گیا۔ 1984 میں مجھے پہلا فری لانس ماﺅنٹین گائےڈ بنایا اور 1985 میں ڈپٹی کمشنر سکردو سے بلتستان ٹورازم کے نام سے اپنی ٹور کمپنی رجسٹرڈ کرائی ۔ 1986 میں وزارت سیاحت اسلام آباد سے اپنی کمپنی رجسٹرڈ کرائی یہ اپنے دور میں اپنی نوعیت کی گلگت بلتستان کی پہلی ٹور کمپنی تھی۔بلتستان ٹور کمپنی کی شہرت کے ساتھ ہی دو انگریز نوجوان ٹریکرز کے ٹو کنکارڈیا کی ٹریکنگ کے لئے پہنچ گئے ۔ پہاڑوں اور گلیشےئروں کے درمیان مسلسل ایک ماہ کی رفاقت سے ان دونوں جوانوں سے میری دوستی پکی ہوگئی۔ یوں مستقبل میں ایک ساتھ ٹورازم پر کام کرنے کا عہد و پیمان ہوا۔ قراقرم ایکسپیرینس کے نام سے کمبائنڈ کمپنی کھول دی۔ ان دونوں نوجوانوں نے کے ٹو کنکارڈیا ٹریننگ کی تمام تصویریں اور تفصیلی آرٹیکلز یورپ کے سب سے بڑے ٹورازم میگزین میں چھپوائے جسے دیکھ کر ٹریکرز کی پندرہ رکنی ٹیم بلتستان پہنچ گئی۔ ہم نے پاکستان سے پروفیشنل فوٹو گرافرز بھی بلوائے اور دنیا کا سب سے بڑا میڈیا بی بی سی لندن والوں کو بھی بلوا کر قراقرم کی وادیوں اور مختلف ٹریکس پر ڈاکومنٹری بنوائی۔ 1991 میں ہم نے مشہور زمانہ غنڈوغورو ٹریک اسکولی سے حوشے دریافت کیا اور ٹریکنگ سے دلچسپی رکھنے والوں کے سامنے رکھ دیا۔ ٹریکنگ کی دنیا میں یہ ٹریک پاکستان کا پہلا اور دنیا کا چھٹا بڑا دلچسپ اور ایڈونچر ٹریک ہے جس سے گزرنے کے لئے دنیا بھر سے سینکڑوں ہزاروں سیاح اور ٹریکرز بلتستان کی طرف آنے لگے۔ شروع شروع میں اس ٹریک کو طے کرنے میں 26 دن لگتے تھے اب 18 دنوں میں سفر تمام ہوتا ہے۔ سیاحت کے فروغ کے لئے ایک سال کے اندر حوشے سے خپلو تک سائیکلنگ کا پروگرام رکھا جو نہایت کامیاب رہا ۔سائیکلنگ کے شعبے میں دلچسپی اور سیاحت کے فروغ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلے سال خنجراب تا گلگت سائیکلنگ کا اہتمام کیا۔ بعد ازاں KKH پر زیادہ رش کی بنا اس ریس کو بلتستان ٹور اور K E Adventure کے اشتراک سے دیگر سڑکوں پر منتقل کردیا گیا ۔زخ بانی کو خیر باد کہنے کے بعد میری پوری توجہ دو طرف برابر منقسم ہوگئی ۔ ایک طرف میں ٹورازم کے فروغ کے لئے اپنا سب کچھ داﺅ پہ ڈال رہا تھا تو دوسری طرف سیاسی دنیا کے خارزاروں میں میرا دامن الجھتا جارہا تھا جس سے چھٹکارا میری بس میں نہیں تھا۔ اس خارزار میں داخل ہونے میں میری اپنی دلچسپی کم خپلو کی عوام کی دلچسپی زیادہ تھی اس لئے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس میدان میں بھی قسمت آزمائی کرنے لگا ۔ 1984 میں ابتدائی طور پر ڈسٹرکٹ کا الیکشن لڑا جس میں کامیابی نصیب ہوئی ۔ اس دور میں شمالی علاقے کے کل تین ڈسٹرکٹ گلگت، بلتستان اور دیامر ہوا کرتے تھے۔ میں بلتستان ڈسٹرکٹ کا وائس چیئرمین بنا اور اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے لگا۔ ڈسٹرکٹ کونسل کے بعد این اے کونسل میں بھی طالع آزمائی کی اور پہلی بار 1994 میں ممبر منتخب ہوا اور دوسری بار 2004 میں بھی الیکشن جیتا یوں اپنے علاقے کے صحیح معنوں میں خدمت کا موقع ملا۔ میں نے اپنے دور اقتدار میں ضلع بھر کے اندر سڑکوں کے جال بچھائے ، دریاﺅں پر بڑے بڑے لوہے اور لکڑی کے پل بنوائے ۔ درجنوں مڈل اور ہائی سکول بنائے اور ہیلتھ میں بڑا کام کیا۔ دانش صاحب آپ یقین نہیں کریں گے مجھے میرے انگلینڈ کے دوستوں نے کمپنی کام سے انگلینڈ بلایا تو دیگر کاموں کے علاوہ مجھے وہاں کے پن بجلی گھر دکھائے۔ میں ان بجلی گھروں کو دیکھ کر حیراں رہ گیا چونکہ ایک ایک بجلی گھر سے سینکڑوں میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی تھی۔ میں نے ان کے تمام کاغذات لےے اور بلتستان میں مرحوم ناصر شگری اور سلمان ولی کے سامنے رکھ دیے یہ دونوں اپنے دور کے محکمہ برقیات کے انجینئر تھے۔ اس دور میں گلگت بلتستان میں کلو واٹ کی بجلی ہوتی تھی۔ میرے سمجھانے کے بعد گلگت بلتستان کے کئی نالوں میں میگاواٹ کے منصوبے رکھے گئے اور اب اتنی بجلی پیدا ہورہی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں جتنا کام کیا اسے دیکھ کر کبھی کبھی میں خود پریشاں ہوجاتا ہوں۔ حاجی اقبال بیافو وا کے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں جب آخری سوال کیا کہ آج کل آپ کیا گل کھلا رہے ہیں؟ میرے اس سوال پر حاجی صاحب نے آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھ کے لمحہ بھر کو دیکھا پھر کہنے لگے دانش صاحب آج کل میں ایک خانقاہ بنا رہا ہوں اور اس کے تعمیراتی کام کے چھے سال پورے ہونے ہیں۔ تین سال اور درکار ہیں پھر میں دنیا کو دکھا سکوں گا کہ پاکستان کے گلگت بلتستان کے خپلو میں دنیا کی سب سے بڑی لکڑی سے بنی خانقاہ موجود ہے جس میں بیک وقت ہزاروں نمازی حضور برحق میں جھک سکتے ہیں اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے حجروں میں اعتکاف میں بیٹھ سکتے ہیں۔