نثار حسین
قومی وقار پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنے والی قوموں کو کبھی زوال نہیں آتا ،وقتی بحرانوں پر گھبرانے والے قوم کی رہنمائی نہیں کرسکتے ،پاکستان نے تعمیر وترقی کے سفر میں کیا کھویا کیا پایا اس حوالے سے اب تک تمام حالات طشت ازبام ہیں ،پاکستان پر ہمسایہ ملک کی جانب سے کئی بار جنگیں مسلط کی گئیں مگر اس کے باوجود بڑے حوصلے اور دوراندیشی کے ساتھ خطے کے امن کی بحالی کے لئے کام کیا ،بھارت نے خطے میں اپنے فوجی غلبے کی خاطر پہل کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے سرحدی خلاف ورزیاں شروع کیں ،کئی ممالک اس سے تنگ آئے ہوئے تھے حتی کہ چین تو بھارت سے ان سرحدی تنازعات پر آمادہ جنگ تھا ،انہی حالات میں خارجہ امور کے ماہر پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خطے میں بگڑے ہوئے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو پہلی ایٹمی مسلم ریاست بنانے کی بنیادرکھی ،ذوالفقارعلی بھٹو نے ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی درست سمت کا تعین بھی کردیا اور پھر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اسے مزید محفوظ بنانے کا اہتمام بھی کیا گیا ،کئی مرحلے درپیش رہے اور پوری قوم نے ملکی وقار پر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ملکی مفاد پر حرف نہیں آنے دیگی ،امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے حوالے سے پاکستان کے صائب کردار کی دنیا معترف ہے ۔پاک فوج نے عالمی امن کے لئے جو قربانیاں دیں دنیا اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی ،ذمے دار ایٹمی طاقت کے طور پر اپنی پہچان برقرار رکھی گئی ،اس تناظر میں امریکہ کی جانب سے کچھ تحفظات کا جو اظہار ہوتا رہا اس پر اسے بروقت جواب دیا گیا ،حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ ریمارکس دیئے جس پر پاکستان نے فوری ردعمل دیتے ہوئے پاکستان میں تعینات امریکی سفیرکو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھماکر زبردست احتجاج ریکارڈ کرایا ہے جس پروائٹ ہاﺅس کی ترجمان نے امریکی صدر کے بیان پر کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان سے متعلق کوئی نئی بات نہیں کی۔ ایک پریس بریفنگ کے دوران وائٹ ہاﺅس کی ترجمان کیرین ژاں پیئر نے کہا ہے کہ امریکی صدر ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن اس سے قبل بھی ایسے تبصرے کر چکے ہیں۔ لہذا اس میں کوئی نہیں بات نہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کی ایک فنڈ ریزنگ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔ان کے بیان پر پاکستان کی حکومت نے شدید احتجاج کیا اور امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا۔پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ امریکی صدر کے غیر ضروری ریمارکس پر پاکستان کی مایوسی اور تشویش سے امریکی سفیر کو آگاہ کیا گیا۔ امریکی صدر کا بیان زمینی حقائق پر مبنی نہیں تھا۔وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر کے بیان کو حقائق کے برعکس اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے۔امریکی صدر کی ترجمان نے اسے معمول کی بات کہہ کر درحقیقت اپنے تئیں معاملے کو دبانے کی کوشش کرڈالی ہے ،تاہم انکی اس وضاحت سے امریکی صدرجوبائیڈن سے ہونے والی بات ابھی تک دنیا کو ہضم نہیں ہورہی پوری دنیا کے سامنے پاکستان نے امریکی صدرکے بیان کو شرمناک قرار دیا ہے،امریکی صدر جو بائیڈن حقائق مسخ نہیں کرسکتے کیونکہ امریکہ خود ایک غیر ذمہ دارایٹمی ملک کے طور پر اپنی شناخت رکھتا ہے ،ہیروشیما پر برسائے جانے والے امریکی ایٹمی بموں سے پھیلی تباہی آج بھی وہاں پر بربادی کی کہانی سناتی ہے ۔امریکا کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے سبب دنیا کے کئی ممالک ایٹمی قوت بنے ہیں اور اب تک دنیا میں ایٹمی جنگ کے جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان کی ساری ذمے داری امریکا پر عائد ہوتی ہے اگر اب ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اسکے اثرات صرف دو ملکوں تک محدود نہیں رہیں گے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی ایٹمی جنگ سے کرہ ارض کی آب و ہوا پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔جنگ صرف ان علاقوں کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے جنہیں یہ بم نشانہ بنائیں گے بلکہ یہ جنگ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہو گی۔امریکی رویے اور ہٹ دھرمی نے ہی شمالی کوریا جیسے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر آمادہ کررکھا ہے اور امریکی پالیسیوں کے سبب ہی آئندہ ایک نئی عالمی ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔پاکستان نے تو عالمی امن کے لئے کام کرکے عالمی برادری میں اپنے ذمہ دارکردار کو منوایا ہے جبکہ امریکا نے ہر طرف اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لئے جنگوں کا نیا جال بچھایا ہے ،پاکستان پر کئی طرح کے حملے ہوئے مگر ایٹمی جنگ سے گریز کیا جاتا رہا اسے ہمیشہ خودکشی قرار دیاگیا اور مسلم ریاست کے حکمرانوں نے ہمیشہ ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے ہر حملے پر خیرسگالی جذبے کے تحت معاملے کو الٹ کر امن کے عمل میں تبدیل کردیا ،گزشتہ برسوں جب پوری دنیا کے سامنے بھارتی جارحیت ثابت ہوئی حملہ آور لڑاکا طیارے سمیت پکڑا گیا تو اس موقع پر پوری دنیا نے دیکھا کہ گرفتار بھارتی جنگجو پائلٹ ابھی نندن کو کس طرح اطمینان سے چائے پلائی گئی اور پھر اسے خیرسگالی کے جذبے کے تحت رہا کردیا گیا ،پاکستان نے کسی مرحلے پر بھی ایٹمی ہتھیاراستعمال کرنے کی دھمکی نہیں دی جبکہ اسکے برعکس ہزاروں میل دور بیٹھا امریکہ اپنے غلبے کی جنگ اور ہتھیارفروخت کرنے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک میں دھمکیاں ہی نہیں کئی جنگوں میں درپردہ اور کئی جنگوں میں کھلم کھلا فریق بن کر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دینے سے بازہی نہیں آرہا ،پاکستان نے کبھی کسی ملک کے تنازع میں کودنے کی بجائے فریقین میں صلح کرانے کی کوشش کی ہے ان حالات میں دنیا دیکھ رہی ہے کہ ذمے دار ایٹمی ریاست کون ہے ؟