پاکستان میں بھارتی مداخلت

بریگیڈیئر مسعود احمد

آزادی کے فورا بعد سے ہی پاکستان بھارت کے اعصاب پر سوار ہے اور وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ بھارت نے برصغیر کی تقسیم کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس کے لیے وہ اپنے تمام ذرائع بروئے کار لا کر، جس میں اس کی پرو کسیز (دہشت گرد تنظیمیں) بھی شامل ہیں، ہر وقت پاکستان میں عدم استحکام کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں کے استعمال کے علاوہ بھارت نے پاکستان کو ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار فئیر میں الجھا رکھا ہے۔ میں اس آرٹیکل میںبلوچستان میں موجود بھارتی پراکسیز کے حوالے سے بات کروں گا۔ طالبان کی حکومت جانے کے بعد راءنے اےن ڈی اےس کی مدد کے ساتھ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد حملے کروانے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ بھارت نے دہشت گرد تنظےموں کو مالی امداد اور اسلحہ مہیا کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں کاروائیاں کریں۔ سی پےک منصوبے کے آغاز کے بعد سے بھارت نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا اور افغانستان میں جلال آباد، قندھار اورہرات، جب کہ ایران میں زاہدان کے سفارت خانے سے بلوچستان میں باغیانہ رحجانات کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی پراکسیز میں بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فورس، بلوچستان ریپبلکن آرمی اور لشکر بلوچستان شامل ہیں۔ بلوچستان کی آزادی کے بعد یہاں پیپلز لبریشن فورس نے حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کیاتھا جسے افغانستان اور بھارت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ 1975 میں اس تنظیم کے باغی افغانستان چلے گئے اور خدمتِ اطلاعاتِ دولتی (خاد) ان دہشت گرد کے حملوں کی منصوبے تیار کرنے لگی۔بی اےل اے افغان جہاد کے وقت روس نے بنائی تھی تاکہ پاکستان سے افغان جہاد کی حمایت کا بدلہ لے سکے۔ بی اےل اے کا مرکز قندھار میں تھا جہاں اس کی سہولت کاری راء، اےن ڈی اےس اور قندھار کے پولیس چیف عبدالرازق کرتے تھے۔ انڈےا نے اپنی دہشت گرد تنظیموں کی تربیت کے لئے 87 تربیتی کیمپ بنائے تھے جن میں سے 66 افغانستان میں قندھار، کنر، ننگرہار، پکتیکا اور خوست کے علاقے میں تھے اور 21 بھارتی راجستھان میں تھے۔ 2018 میں بھارت نے بی اےل اے، بی اےل اےف، اور بی آر اے کو ملا کر بلوچ راجی سنگھار براس نامی تنظیم بنائی جس کی سربراہی ڈاکٹر اللہ نذر کو دی۔ اگست 2020 مےں تمام دہشت گرد تنظےموں کو ےکجا کےا گےا۔ افغانستان میں قائم بھارتی سفارتخانے دہشت گردی کا مرکز بن چکے تھے کیونکہ بھارتی سفیر اوربھارتی کونسل خانے دہشت گردوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھے۔ حال ہی میں بلوچستان اور کراچی میں دہشت گرد تنظیموں نے ایک بار پھر سے سر اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم بی اےل اے مجید بریگیڈ نے قبول کی۔ سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز پر حملے، کراچی میں چینی سفارت خانے پر حملے، پی سی ہوٹل گوادر پر حملے اور کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملے کے پیچھے بھی اسی گروپ کا ہاتھ تھا۔ بی اےل اے کراچی میں تین چائنیز شہریوں پر خود کش حملے کے بعد ایک بار پھر منظر عام پر آ گئی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔ مجید بریگیڈ کا نام مجید بلوچ کے نام پر رکھا گیا ہے ،جو کہ سےکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے کے دوران مارا گیا تھا۔ یہ تنظیم راء نے 2011 میں بنائی تھی جسے بی اےل اے اس کا خود کش جتھا قرار دیا گیا تھا۔ مجید بریگیڈ کی سربراہی کچھ عرصے تک اسلم اچھو نے بھی کی ہے جو مسلسل بھارت اور افغانستان جاتا رہا تھا۔ انہوں نے خودیہ دعوی کیا ہے کہ نوشکی اور پنجگور میںاےف سی پر حملے میں بھی یہی لوگ ملوث تھے جن میں ان کے بائےس دہشت گرد مارے گئے تھے۔ پہلے یہ دہشت گرد تنظیمیں راءاور اےن ڈی اےس کی بھرپور حمایت کے ساتھ افغانی سرزمین آزادانہ طور پر استعمال کیا کرتی تھیں لیکن اب ان کے حملے ایران کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔ ہمیں بلوچستان میں دیگر بیرونی قوتوں کے مفادات کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ بلوچستان بہت عرصے سے اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث بیرونی مداخلت اور عالمی قوتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ آبنائے ہرموز کے دہانے پر واقع ہے جہاں سے دنیا کا چالےس فیصد تیل گزرتا ہے۔ کیونکہ دنیا کی سیاسی، جغرافیائی اور معاشی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے اس لئے بعض قوتوں کی کوشش ہے کہ گوادر کی تعمیر کو روکا جائے تاکہ ان کے اپنے مفادات محفوظ رہ سکیں۔ سب سے پہلے تو ایران یہ نہیں چاہتا کہ گوادر بندرگاہ بنے کیونکہ اس سے اس کی چاہ بہار بندرگاہ کی اہمیت کم ہو جائے گی جو کہ زرنج دلارام شاہراہ کے راستے وسطی ایشیائی ممالک رسائی فراہم کرتی ہے۔ ماضی میں افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کے معاملے کو بہت اٹھایا اور بلوچستان میں بغاوت کے رجحانات کو فروغ دیا اور مالی معاونت بھی فراہم کی۔ بھارت بلوچستان کے حالات کو خراب رکھنا چاہتا ہے اور گوادر بندرگاہ نہیں بننے دینا چاہتا۔ بھارت کو پریشانی لاحق ہے کہ گوادر بندرگاہ بننے سے چین اس کے زیر سمندر مواصلاتی نظام کے بہت قریب آ جائے گا جس سے وہ خطے میں اس کے تسلط کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بھارت نے گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں ایران کی چابہار بندرگاہ تعمیر کی اور اسے زرنج دلارام شاہراہ سے متصل کیا۔ اس کا مقصد کابل کے کراچی بندرگاہ پر انحصار کو کم کرنا اور بھارتی اشیاءکی تجارت کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچانا تھا۔ بھارت میں سی پےک کو تباہ کرنے کے لیے ایک الگ سیل بنا رکھا ہے جس کی نگرانی خود وزیر اعظم مودی کر رہا ہے اور جس کا سربراہ راءکا چیف ہے۔ اس کے لیے سات سوافراد پر مشتمل پرائیویٹ ملیشیا تیار کی ہے،ان کا ہدف سی پےک ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ بھارت کے جلال آباد، قندھار،ہرات، مزار شریف اور زاہدان کے سفارتخانوں کے ذریعے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی، مالی معاونت اور تےاری کی جاتی تھی۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں بھارت نے افغانستان کو پاکستان پر دبا¶ ڈالنے اور بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان بہت پہلے اقوام متحدہ کو بھارت کے پاکستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور مالی معاونت میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد مہیا کرچکا ہے۔ بھارت پاکستان میں عدم استحکام کے لیے ایک منظم کمپین چلا رہا ہے جس میں دہشت گرد حملوں اور ہائیبرڈ ففتھ جنریشن وار فیئر کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو بھی گوادر بندرگاہ پر چین کی موجودگی تحفظات ہیں کیونکہ وہ آبنائے ہرموز اور خلیج اومان سے بہت قریب ہے۔ امریکہ چین کو اپنے لےے معاشی خطرہ سمجھتا ہے لہذا چین کو روکنے کی ہر ممکن کوشش میں ہے خصوصا بھارت کے ذریعے۔ دہشت گرد تنظیموں کو بیرونی مدد حاصل ہے کہ وہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کر سکیں اور گوادر کو اس خطے کی ایک اہم گہرے پانی کی بندرگاہ بننے سے روک سکیں۔ پاکستان نے 7 اپریل 2006 کو بی اےل اے کو ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا اور اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے بھی۔ بلوچستان میں دہشتگردوں کی کل تعداد دو یا تین سو سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ماضی میں ناراض لوگوں اور ہزاروں دہشت گردوں نے ہتھیار ڈالے جو کہ اب مفاہمت کے عمل میں ہیں۔ پاکستان آرمی بلوچستان میں دیرپا امن کے قیام اور پائیدار معاشی و معاشرتی تعمیر کے لئے سرگرمِ عمل ہے۔ بلوچستان میں اب حالات بہت بدل چکے ہیں اور مثبت تبدیلی کرسہرا سیکیورٹی فورسز، حکومت بلوچستان اوربلوچستان کی عوام کے سر جاتا ہے۔