عاشق فراز
نین نقوش تیکھے، دل موہ لینے والی مسکراہٹ اور لہجے میں حلاوت ابھی نوجوان لیکن گلگت بلتستان کے اساتذہ کے لئے رول ماڈل کیوں کہ حال ہی میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان سے مڈل سطح کے سکولوں میں سے بہترین منتظم یعنی ہیڈ ماسٹر کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ کم عمری میں عزت اور سراہا جانا کوئی معمولی بات نہیں لیکن اس کے پیچھے کہانی ہے جو محنت ، تڑپ اور خلوص ایثار کے رنگوں سے مزین ہے۔اسکولی، شگر کی وادی برالدو کا آخری گاﺅں ہے اس کے بعد تو بس برفانی گلیشیئرز اور بلند و بالا قراقرم کے پہاڑ جہاں صرف سر پھرے ہی پنجہ آزمائی کرتے ہیں۔ اسکولی بھی کوئی عام گاﺅں نہیں بلکہ یہاں رہنا اور آنا جانا بھی جوئے شیر سے کم نہیں۔ اس وقت بھی کوئی اگر اچھی گاڑی میں سوار ہو کر اسکولی جانا چاہے تو سکردو سے کم ازکم چھ گھنٹے لگتے ہیں پرانے زمانے کا حال تو خدا جانے۔ شگر کشمل تک تو تارکول کی سڑک بنائی گئی ہے مگر اس سے آگے وہی بل کھاتی گرد سے اٹی سڑک جو کبھی موڑ کاٹتی چٹانوں کی بلندیوں کو چھوتی ہے تو کبھی دریائے برالدو کے اتنے قریب سے گزرتی ہے کہ گرمیوں میں بھی دریا کی یخ بستگی آپ کو اپنی سانسوں میں محسوس ہوتی ہے۔ پرزور ندی نالوں، لکڑی کے بنے روایتی لچک دار پلوں اور گھاٹیوں کو عبور کر کے ہی اسکولی پہنچا جاسکتا ہے۔ گلگت بلتستان کا اسی فیصد ایڈونچر ٹوارزم اسی وادی میں ہے لیکن مجال ہے کہ انفراسٹرکچر میں کوئی بہتری لائی گئی ہو بس وہی روایتی ٹکڑیوں میں سڑک کی مرمت کا کام جو روز اول سے ناتمام ہے۔ گرمیوں میں ندی نالوں کے بپھرنے اور سردیوں میں برف اور یخ کی وجہ سے اکثر راستہ بند رہتا ہے اس سے اندازہ لگائیں کہ برالدو وادی کے مکین خاص طور پر تستے، کورفے، اسکولی سے لیکر حوطو، پکورہ گاﺅں تک کے مکین کس مشکل حالات میں زندگی کو بلند حوصلہ کے ساتھ نبھائے جارہے ہیں۔علی اسکولی جو گاﺅں میں ہنزائی کے نام سے مشہور ہیں کوئی ثروت مند گھرانے سے نہیں بلکہ پوری وادی میں سب لوگ مزدوری ، کھیتی باڑی اور کوہ پیماﺅں کی رسد برداری کے کام میں جت کر نان و نفقہ کا بندوست کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ علی کا باپ بھی صرف کھیتی باڑی اور محنت مزدوری سے بہ مشکل گھر چلا رہا تھا ایسے میں بچوں کو پڑھانا کوئی کے ٹو چڑھنے سے کم مشکل نہیں تھا لیکن اس کی دلی تمنا تھی کہ بچے پڑھ لکھ جائیں مگر اسکولی میں کوئی معیاری سکول تو تھا نہیں ایک سرکاری پرائمری سکول موجود تھا جہاں برائے نام تعلیمی سہولت دستیاب تھی۔اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ علی کو الچوڑی گاﺅں میں کسی جاننے والے کے گھر بھیجا گیا تاکہ وہ الچوڑی ہائی سکول میں داخلہ لے اور پڑھ سکے۔ یوں علی نے اس واقف کار کے گھر رہ کر ،ان کا ہاتھ بٹا کر میٹرک کرلیا۔ اب آگے کا کوئی لائحہ عمل تو تھا نہیں پس میٹرک کے نتائج کے آنے تک علی بھی دیگر اسکولی کے نوجوانوں کی طرح سیاحوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے ٹورسٹ گائیڈز اور پورٹر سرداروں کی منتیں ترلے کرنے لگا۔ ایسے میں 2004 کا سال اس کی زندگی میں یکدم تبدیلی کا باعث بنا جب 1954 میں اٹلی کی جانب سے پہلی بار K2 سر کرنے کی گولڈن جوبلی منائی جارہی تھی۔ ٹریول والجز کمپنی کی طرف سے برالدو وادی میں اور اسکولی سمیت آگے کے پڑاﺅ میں جگہ جگہ کیمپ لگائے گئے تھے تاکہ جوبلی منانے کے لئے آنے والے کوہ پیماﺅں کو رہائشی سہولت میسر ہوں۔ علی کو اسکولی کیمپ سائٹ میں کچھ ذمہ داری ملی وہیں پر ٹریول والجز گلگت بلتستان کے اس وقت کے منتظم عرفان اللہ بیگ سے ملاقات ہوئی اور وہ علی کی نوعمری میں کام کرنے پر متاثر ہوا اور اسے مزید پڑھنے کے لئے اپنے گھر علی آباد ہنزہ لے جانے کی آفر دی۔ علی نے اپنے گھر والوں سے صلاح لی تو سب نے کہا کہ وہ ضرور جائے تاکہ اس گاﺅں سے بھی کوئی اچھی تعلیم حاصل کرے اوپر سے کوئی اتنی اپنائیت سے گھر لے جارہا ہے ،گھر کا فرد بنا کر مستقبل سنوار رہا ہے۔ یوں علی نے ایف ایس سی علی آباد ہنزہ سے پاس کیا اور علی ہنزائی کہلایا۔ 2012 میں علی نے قراقرم یونیورسٹی سے ایم ایس سی اکنامکس کرلیا اور اس دوران بھی زیادہ تر عرفان اللہ بیگ کا ہی تعاون اور محبت شاملِ حال رہی۔ 2012 کے اواخر میںAKRSP کی جانب سے انٹرن شپ کا اعلان ہوا تو علی اس میں سلیکٹ ہوا اور پھر انٹرن شپ کے مکمل ہوتے ہی اے کے آر ایس پی ہی کے سدپارہ ڈےولپمنٹ پراجیکٹ میں ملازمت ملی۔ رورل ڈیولپمنٹ کے ادارے میں کام کرنے کا اسے یہ فائدہ ہوا کہ براہ راست کمیونٹی کے مسائل جاننے اور ان کے حل کے لئے مشترکہ جدوجہد کے اپروچ سے آگہی ہوئی۔ 2017 میں شگر کےلئے اساتذہ کی آسامیوں کا اعلان ہوا تو علی نے اس کے لئے درخواست گزاری اور وہ ٹےسٹ انٹریو میں کامیاب ہوا اور اس کی تعےناتی اپنے گاﺅں اسکولی کے لئے ہوئی۔بظاہر اس کے پاس کئی دوسرے آپشن تھے ، وہ ایک اچھا گائیڈ اور ٹورسٹ منتظم تھا لہذا اس فیلڈ میں بھی اچھا خاصا کما سکتا تھا۔ اس کے پاس رورل ڈیولپمنٹ کا تجربہ تھا اور کسی بھی این جی او میں جا کر لذت کام و دہن کے لئے اپنا بندوبست آسانی سے کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے سود و زیاں کی گوشوارہ بندی نہیں کی بلکہ سیدھا اپنے گاﺅں کا راستہ لیا اور علاقے کے غریب بچوں کو پڑھانے کی گراں ذمہ داری سنبھال لی۔سکول کیا تھا ، نہ کھڑکیوں پر جالیاں ، نہ بچوں کو بیٹھنے کے لئے کوئی فرنیچر، کلاس رومز کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا اور دروازوں میں بڑے بڑے سوراخ جہاں سے سرد و گرم ہوائیں بچوں کا تماشا بنا دیتی تھی۔علی نے دیگر اساتذہ کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کا بیڑا اٹھایا، محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں سے رابطہ کیا وہاں سے کچھ مدد ملی ساتھ ساتھ علی کے کچھ کوہ پیما دوست تھے جن سے رابطہ کیا تو نتیجہ مثبت نکلا۔اس طرح جونیپر ٹرسٹ ، برٹش اور رومانیہ کے کلائمبرز کے تعاون سے کلاس رومز کی پلائی ووڈ انسولیشن، کتابیں، وردی اور مرمت کا کام بخوبی انجام پذیر ہوا۔ انہی مہربانوں کے توسط سے کچھ نئے اساتذہ کا بھی اضافہ ہو جن کے اخراجات ان فرنگیوں سے مل رہے ہیں تاکہ اسکولی کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوں۔ علی کی تڑپ، کوشش اور منیجمنٹ کی صلاحیتوں کو بھانپ کر محکمہ تعلیم نے انہیں سکول کا ہیڈ ماسٹر بنا دیا۔اب گزشتہ دنوں چیف سیکرٹری کی جانب سے علی کو پورے گلگت بلتستان میں سب سے بہترین مڈل لیول کے ہیڈ ماسٹر کا ایوارڈ اور پذیرائی ملی ہے۔ یہ ایک چھوٹے اور دورافتادہ گاﺅں کے ایک نوجوان کی جدوجہد ہے جو سب کے لئے مشعل راہ ہے۔