نثار حسین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے صرف مسلمانان عالم ہی نہیں بلکہ ساری کائنات کے انسان مستفید ہوئے ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے لاتعداد گوشے ہیں جن کا احاطہ انسانی عقل نہیں کر سکتی۔ اس رحمت کا دائرہ کار صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام عالمین پر محیط ہے۔ عالم انسانیت، عالم جنات، عالم نباتات، عالم حیوانات، عالم جمادات الغرض ہر عالَم جو ہمارے علم میں ہے اور جو ہمارے علم میں نہیں ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کاملہ ہی سے فیض پارہا ہے اور آپ ہی کے صدقے قائم و دائم ہے۔ دورِ جدید میں جہاں ہر طرف سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات کی بھرمار ہے، یہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت ہی کی بدولت آج انسانیت کے لئے سہولیات و آسائشات فراہم کرنے کے قابل ہے۔ اس لئے کہ آج عالم انسانیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے رکھی گئی تعلیمی و علمی بنیادوں پر اپنی کامیابیوں کی عمارات قائم کئے ہوئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل پوری دنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہالت سے بھری دنیا میں جدید علم اور سائنسی تحقیقات کا دروازہ کھولا۔ لہذا یہ بات قطعی ہے کہ آج انسانیت سائنسی ترقی کے جس مقام پر پہنچی ہے ا±س کا دروازہ کھولنے والے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ گویا دنیا کو آج علم کی روشنی اور سائنسی تحقیقات کے ذریعے مختلف ایجادات بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے ملی ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ا±مّی (ان پڑھ) قوم میں علم کی بنیاد رکھی۔ اس سوسائٹی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور وہاں تعلیم کو ایک نظام کی صورت میں باقاعدہ رواج دیا جہاں علم کا کلچر نہیں تھا۔حصول علم کی اتنی سرپرستی فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دور دراز کے علاقوں میں موجود دوسرے قبائل کی طرف معلمین و اساتذہ بھیجتے۔ حتیٰ کہ نجد کے ایک علاقے کی طرف مختلف قبائل کے لیے اکٹھے ایک بار 70 اساتذہ بھی روانہ فرمائے۔اسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم کا آغاز بھی فرمایا۔ خواتین کو گھروں میں تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاتا۔ ازواج مطہرات کے گھروں میں علمی حلقے (study circles) ہوتے۔ لکھنا پڑھنا سکھانے کے لئے صحابیات مقرر تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے خواتین کو تعلیم دینے کے لیے باقاعدہ دن مقرر فرما رکھے تھے، جن میں خواتین کو پڑھنے پڑھانے کا فن (art of teaching & reading) سکھایا جاتا۔ ریاست مدینہ کے مرکزی خیال میں تعلیم کو سب سے مقدم رکھا گیا ،تعلیم کے فروغ کی ذمہ داری اسلامی ریاست میں مرکز کے سپرد بھی کی اور صوبوں کو بھی اس ضمن میں ذمہ دار ٹھہرایا۔ صوبوں کے اندر باقاعدہ نظام تعلیم جاری کیا اور گورنرز کو ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ inspector general of education بھی ہوں گے اور اپنے ماتحت تمام شہروں کے دورہ جات کریں گے اور وہاں تعلیم کے فروغ کے لئے اقدامات بجا لائیں گے۔ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ جب گورنر یمن مقرر ہوئے تو ا±ن کو تعلیم کی وزارت بھی ساتھ دی گئی اور وہ تعلیمی امور کے ذمہ دار بھی تھے۔ الغرض نظام تعلیم کے باقاعدہ قیام اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے آقا علیہ السلام نے اس قدر اہتمام فرمایا۔صرف عمومی علم کے فروغ کے لئے ہی اقدامات اور ارشادات نہ فرمائے بلکہ سائنسی علوم (scientific knowledge) کی بھی بنیاد رکھنے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ آج مغربی دنیا جن سائنسی تحقیقات پر فخر اور ناز کرتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس علم کا دروازہ بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھولا۔ دنیا آج بسیار کاوشوں کے بعد اِن علوم و فنون تک رسائی حاصل کررہی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں 1400 سال پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کو ہر جگہ مقدم قرار دیا ،علم کی فضیلت کا اس فرمان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو علم کا شہر اور حضرت علی علیہ السلام کو اس کا دروازہ قرار دیا ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انسانوں تک علم کی روشنی عام کرنے کی ہدایت دی اسی لئے تو حضور اکرم ہادی برحق اور رحمت اللعالملین ہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لئے مشعلِ راہ ہےں۔