ترجیحات درست کیجیے


اطلاعات ہیں کہ گلگت  بلتستان کی حکومت گلگت  بلتستان میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی کا بل اسمبلی میں لا رہی ہے ۔ گلگت  بلتستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نذیراحمد ایڈوکیٹ نے غذر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پلاسٹک بیگز (شاپر) کے استعمال پر پابندی کے لئے قانون سازی کرے گی تاکہ ماحول کو آلودگی سے بچایا جاسکے۔ماحول کی آلودگی یقینا آج کے دور میں معاشروں کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک اہم چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے یہ دیکھا جائے کہ گلگت  بلتستان میں وہ کون عوامل ہیں جن سے قدرتی ماحول اور اس کے تناظر میں انسانی صحت اور زندگی کو زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ ان ممکنہ درپیش خطرات کی روشنی میں ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے اور انہی ترجیحات کی روشنی میں ترتیب وار اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے ۔ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے گلگت  بلتستان کو پلاسٹک فری بنانے کے حکومتی ارادے کا اظہار حوصلہ افزا ہے کیونکہ ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد سمیت کئی بڑے شہروں میں اس فیصلے پر پہلے ہی عمل در آمدکیا جا رہاہے ۔ ملک میں یہ اقدام پولیتھین بیگز سے قدرتی ماحول کو لاحق خطرات کے پیش نظر اُٹھایا گیا ہے جو کہ ملک کے بڑے شہروں کے تناظر میں ایک درست فیصلہ ہے ۔ جب ہم گلگت  بلتستان  میں قدرتی ماحول کو لاحق شدید خطرات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں اس کی نوعیت مختلف ہے۔ پلاسٹک بیگز گلگت  بلتستان میں قدرتی ماحول کے لئے اُس حد تک خطرہ قرار نہیں دیے جاسکتے 'جس کی نسبت یہاں قدرتی جنگلات کے کٹنے اور لوگوں کی جانب سے اپنی روز مرہ ضررویات کو پوار کرنے کے لئے جس تیزی کے ساتھ پھل دار اور غیر پھل دار درخت کاٹ رہے ہیں اُس سے ماحول کو زیادہ سنگین اور شدید خطرات لاحق ہیں۔یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ کسی بھی ملک کے کُل رقبے کے 25 فیصد حصّے پر جنگل ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے کُل رقبے کے صرف 2.2 فیصد سے لیکر 4.4 فیصد رقبے پر جنگل موجود ہے۔ سال 2011 میں کئے گئے سروے کے مطابق پاکستان کے کُل رقبے کا 5.1 فیصد حصہ جنگل پر مشتمل تھا لیکن اس اعداد و شمار میں بدقسمتی سے تیزی سے کمی آتی جارہی ہے ۔ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سالانہ 42 ہزار ہیکٹر پر موجود جنگل سے محروم ہورہا ہے۔اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنگلات مجموعی طور پر کُل 16 لاکھ 17 ہزار ہیکٹر رقبے پر موجود ہے جو مجموعی رقبے کا 2.2 فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق جنگلات کی کمی والے 143 ممالک میں پاکستان کا 113 واں نمبر بنتا ہے۔اسی طرح گلگت  بلتستان میں کُل رقبے کے صرف 4.8 فیصد حصّے پر جنگل موجود ہے۔اس میںتعمیراتی مقاصد اور سردیوں میں بطور ایندھن کے لئے درختوں کے تیزی سے کٹائو کے باعث تیزی سے کمی آرہی ہے۔ ایک اعدادو شمار کے مطابق ملک میں 240100ہیکٹر سالانہ کے حساب سے جبکہ گلگت  بلتستان میں 8 ہزار ہیکٹر سالانہ کے حساب سے جنگلات میں کمی آتی جارہی ہے ۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ جنگلات کی کمی میں سب سے زیادہ کردار ٹمبر مافیا کا ہے جو جنگلات کی بے دریغ کٹائی کرکے لکڑی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی گلگت  بلتستان جہاں قطبین کے بعد سے بڑے گلیشیئرز موجود ہیں اوریہاں کی وادیاں سطح سمندر سے چار ہزار سے لیکر پندرہ سے سولہ ہزار فٹ کی بلندیوں پر واقع ہونے کے باعث یہاں سال سے چھ ماہ شددترین سردی پڑتی ہے اور یہاں ایسی وادیاں بھی موجود ہیں جو شدید برف باری کے باعث سال کے آٹھ ماہ باہر کی دنیا سے کٹ کر رہ جاتی ہے ۔ اس شدت کی سردی میں لوگوں کو اس  طویل موسم سرما میںجسم اور روح کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے خوارک کے بعد ایندھن کا حصول سب سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نقطہ انجماد سے 26 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی نیچے کے درجہ حرارت میں مسلسل  ہیٹنگ کے بغیر رہنا ممکن نہیں ہوتا ۔گلگت  بلتستان میں کھانا پکانے اور گھروں کو گرم رکھنے کے لئے بطور ایندھن استعمال کے لئے سوائے لکڑی کے اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ ملک بھر کو سیراب کرنے والا دریا، دریائے سندھ سمیت دیگر کئی دریا اور سینکڑوں ندی نالے  یہاں گائوں گائوں میں موجود ہیں جہاں سیزن میں پانی کی بہتات کے باعث طوفانی کیفیت کے پانی کا سامنا رہتا لیکن حکومتوںکی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کے باعث گلگت  بلتستان کے تمام علاقے روشنی کے مقاصد کے لئے بھی بجلی سے محروم ہیں۔گلگت اور سکردو شہر میں اس وقت چوبیس گھنٹوں میں سے بیس بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے لوگ دوچار ہیں۔ ایسے میں لوگ اپنے پھل دارو غیر پھل دار درخت ، جنگل اور مفید جڑی بوٹیوں کو کاٹ کر جلانے پر مجبور ہیں ۔ اس سلسلے میں بدقسمتی سے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جو کہ گلگت  بلتستان کا اس وقت کا ایک سنگین مسئلہ ہے ۔حکومت سمجھتی ہے کہ جنگلات کے تحفظ پر ایف سی تعینات کرنے سے جنگل اوردرختوں کے کٹنے سمیت اس سے جُڑے مسائل حل ہونگے تو یہ خام خیالی ہوگی۔لوگوں کو جب تک توانائی کے متبادل ذرائع فرہم نہیں کئے جائیں گے عوامی سطح پر جاری جنگلی اور پھل دار  درختوں کی کٹائی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ماضی کی حکومت نے اسی مسئلے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے گلگت  بلتستان کے لئے ائرمیکس پلانٹ کی منظوری دی تھی۔ یہ منصوبہ 2.5 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جاناتھا ۔ اُس وقت کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن نے 10 مارچ2018 ء کو اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا ۔ ابتدائی مرحلے میں گلگت شہر میں منصوبہ مکمل کیا جانا تھا جس سے 30 ہزار گھرانے مستفید ہوناتھے۔ اگلے مرحلے میں سکردو شہر میں یہ منصوبہ مکمل کیا جاناتھا  جس سے لوگوں کو گھروں میں گیس لائنوں کے ذریعے سپلائی ممکن ہونا تھا۔اس منصوبے سے لوگوں کو توانائی کے متبادل ذرائع میسر آنا تھے یوں ایندھن کے حصول کے لئے جنگل کی کٹائی کا سلسلہ رُک جاتا۔جس سے ایک طرف درختوں کے بچ جانے سے قدرتی ماحول پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے وہاں لوگ بخاری اور انگیٹھیوں میں لکڑی کے ساتھ کچر ا جلانے کے نتیجے میں ماحول میں پیدا ہونے والی آلودگی میں کمی آتی  مگر  ہمارے ہاں بد قسمتی سے ماضی کی حکومتوں کی اچھی پالیسیوں اور منصوبوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا کر ترک کر دیتے ہیں ۔ یہی کچھ اس منصوبے کے ساتھ بھی ہو رہا ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ ائرمیکس پلانٹ منصوبے پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کرے تاکہ آنے والے وقتوں میں درختوں کی کٹائی کے عمل میں کمی آسکے۔گلگت  بلتستان اسمبلی کو پلاسٹک بیگ پر پابندی کی نسبت گلگت  بلتستان میں توانائی کے لئے متبادل ذرائع کی تلاش پر توجہ دینی چاہیے ۔گلگت  بلتستان اسمبلی کے پاس ایک اور اہم ترین ایجنڈا پوائنٹ جو پچھلی حکومت کے دور سے چلا آرہا ہے وہ گلگت  بلتستان کی بنجر زمینوں سے متعلق قانون سازی کا ہے ۔ پچھلی حکومت نے ان زمینوں کی ملکیت کا فیصلہ کرنے کے لئے پہلے لینڈ ریفارم کمیشن بنائی اور کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں قانون سازی کرکے پورے گلگت  بلتستان کی زمینوں کی ملکیت کا تعین کرنے پر کام شروع کیا مگر حکومت اس ضمن میں قانون سازی کرنے میں کامیاب نہیںہوئی جس کے باعث کئی علاقوں میں زمینوں سے متعلق تنازعات چل رہے ہیں جو خطے کی امن و امان کی صورت حال کے لئے بھی ایک ممکنہ خطرہ ہے ۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس پر فوری قانون سازی کرے ۔ اس ضمن میں ماضی کی لینڈ ریفارم کمیشن کی رپورٹ کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے اور ضرورت محسوس کرنے پر مختلف سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی کی جاسکتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان تحریک انصاف  کے اُمیدواروں کو اسمبلی انتخابات میں لوگوں نے عبوری صوبے کے نام پر ووٹ دئے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت  بلتستان علی امین گنڈا پور نے جن جن انتخابی حلقوں میں جلسوں سے خطاب کیا یہ تواتر کے ساتھ کہا کہ گلگت  بلتستان عبوری صوبہ بن چکا ہے ۔ اب تین ماہ کا عرصہ گزر گیا مگر اس عبوری صوبے آثار ابھی تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گلگت میں وزیر اعلی کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب میںکہا کہ عبوری صوبہ سے متعلق سفارشات کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے گی ۔ جنوری کے ماہ کے دوران اسلام آباد میںہونے والی ایک ملاقات میں گورنر گلگت  بلتستان راجہ جلال حسین مقپون کا کہنا تھاکہ عبوری صوبے کے لئے کمیٹی نہیں بن رہی بلکہ فروری کے پہلے ہفتے میں گلگت  بلتستان اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہو رہا ہے جس میں گلگت  بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی متفقہ قراداد منظور کرائی جائے گی۔ اُس قراداد کو بعد میں ملکی پارلیمنٹ میں پیش کر کے وہاں سے منظوری لی جائے گی۔ اب تو فروری کا مہینہ بھی ختم ہو گیا اور لوگوں میں اس مسئلے کو لے کر تشویش بڑھتی جارہی ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ اسمبلی کے رواں اجلاس میں گلگت  بلتستان کوعبوری صوبہ بنانے سے متعلق قراداد پیش اور منظور کرائے تاکہ اعلان کے مطابق اِسے ملکی پارلیمنٹ میں پیش کر کے وہاں سے بھی اس کی منظوری لی جاسکے۔ان حقیقی مسائل کی موجودگی میں پولیتھین بیگ پر قانون سازی ترجیحات میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گلگت  بلتستان کے اہم ایشوز کی موجود فہر ست میں ترجیحات کو مرتب کرے اور ترجیحات کی روشنی میں ان مسائل کے حل کے لئے اقدامات کرے تاکہ لوگوں کو صحیح معنوں میں اور بروقت ریلیف مل سکے  وگرنہ ایسا نہ ہو کہ لوگ آئینی مسئلہ سمیت دیگر مسائل کے لئے سڑکوں پر آنا شروع کردیں ۔