قاسم محمود
جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستیں اپنی جوہری پالیسی یا تو بین الاقوامی جوہری عدم پھیلا کے ضوابط و روایات کے مطابق بناتی ہیں یا پھر وہ اپنے تزویراتی حریفوں کے حوالے سے جوہری پیش رفت کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ جوہری عدم پھیلاﺅ کے ضابطوں پر توجہ میں عالمی سطح پر کمی تزویراتی عدم توازن کا خطرہ بڑھا سکتی ہے،خطے میں ہتھیاروں کی خطرناک دوڑ کا سبب ہوسکتی ہے نیز خطے کی تمام جوہری ریاستیں یکے بعد دیگر اس کے اثرات کی لپیٹ میں آسکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تزویراتی ماحول کو امریکہ و چین کے بیچ بڑی طاقت کا مقابلہ اورعالمی جغرافیائی سیاست نیز علاقائی سطح پر چین، بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات کی تکون کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ علیحدہ علیحدہ تزویراتی مفادات، فوج کو جدید ترین بنانے کا عمل نیز ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک ملک کی ترقی دوسرے ملک میں بھی اس جیسی پیش رفت کا سبب بنتی ہے جو نتیجتا ان ممالک میں سلامتی کے حوالے سے کشمکش کا موجب ہوتی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسلحے کی روک تھام کے معاہدوں کا خاتمہ نہ صرف امریکہ، چین، روس کی تکون میں بلکہ چین، بھارت، پاکستان کی تکون میں بھی انارکی اور عدم توازن کا باعث ہوگا۔ نیشنل سیکیورٹی سٹریٹجی میں چین، ایشیا پسیفک کے علاقے میں امریکی قومی مفادات کیلئے بنیادی خطرے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ امریکی نقطہ نگاہ سے روایتی میزائلوں کے میدان میں خاص کر زمین سے مار کرنے والے، درمیانی فاصلے کے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے ضمن میں چینی پیشقدمی کو روس کے ساتھ اسلحے کی روک تھام کے معاہدے سے دستبرداری کے فیصلے کا سبب بننے والے بنیادی محرک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امریکی اتحادیوں جنوبی کوریا اور جاپان کے علاوہ امریکی علاقے گوام کو میزائلوں سے نشانہ بنانے کی چینی صلاحیت کو ایشیا پیسیفک کے علاقے میں امریکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔آئی این ایف سے دستبرداری کے بعد امریکہ اب زمین سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے کے قابل میزائل بنانے اور انہیں انڈو پیسیفک میں ڈییگو گارسیا اور گوام کے علاقوں یا پھر اپنے اتحادیوں کے علاقوں میں نصب کرنے کے قابل ہے۔ اگر امریکہ ایسا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ چین اور امریکہ کے مابین وسیع تر عسکری مقابلے کو چھیڑ سکتا ہے۔چین، امریکہ کی آئی این ایف سے دستبرداری کو ایسی چال کے طور پر دیکھتا ہے جو چین کو بنیاد بنا کے چلی گئی اور جو ایشیا پیسیفک میں اس کی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ تشکیل دیتی ہے۔اسی خطرے کو واضح کرتے ہوئے اکتوبر میں چینی وزارت دفاع کے ترجمان وو کیان نے خبردار کیا تھا کہ چین امریکہ کی جانب سے خطے میں زمین سے مار کرنے والے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی تنصیب کے امکان کا مستقل مخالف ہے۔ چین کے اطراف میں امریکی میزائل کی تنصیب کی صورت میں چین کا ممکنہ ردعمل، چینی میزائلوں کی طاقت اور صلاحیتوں میں اضافے پر مبنی جوابی اقدامات کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ سلامتی کے تجزیہ کاروں کی رائے میں چین امریکی علاقوں، فوجی اڈوں اور جاپان اور جنوبی کوریا سمیت اتحادیوں کو نشانہ بنانے کیلئے زمین سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل آئی آر بی ایمزکی تنصیب کی صورت میں ردعمل دے سکتا ہے۔ مزید براں براعظم امریکہ پہلے سے ہی چین کے ڈونگ فینگ انٹرکانٹینینٹل بیلسٹک میزائل آئی سی بی ایم کی زد میں ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کی میزائل کی پیداوار یا ایشیا پیسیفک میں اس کی تنصیب اور بیجنگ کا جوابی ردعمل عسکری مقابلے میں شدت پیدا کرسکتا ہے نیز واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین عدم استحکام کا سلسلہ طویل عرصے تک باقی رہ سکتا ہے۔ادھر بھارت، چین کے زمین سے مار کرنے والے آئی آر بی ایمز کی تنصیب سے خود کو کمزور محسوس کرسکتا ہے۔ چین امریکہ حکمت عملیاں، بھارت میں اس کی سلامتی اور عظیم قوت بننے کی خواہش کے نتیجے کے طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایسی صورتحال چین اور بھارت کے مابین مقابلے کی فضا گرم کرنے کے قابل بن سکتی ہے خاص کر ایسے میں کہ جب بھارتی تزویراتی ماہر چین کی درمیانی فاصلے کے میزائلوں کی تیاری کو بھارت اور دیگر انڈوپیسیفک ریاستوں کیلئے خطرے کے طور پر دیکھتے ہوں۔ جوابی تدبیر کے طور پر اگنی‘ آئی سی بی ایم اور اگنی‘ آئی آر بی ایم کی تیاری اس تاثر کو مزید تقویت دیتی ہے کہ بھارت، چینی میزائلوں کی تیاری کو اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارتی نقطہ نگاہ سے چین سے لاحق خطرات، دراصل نہ حل ہونے والے سرحدی تنازعات اور چین و پاکستان کے مابین بڑھتے تزویراتی تعلقات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ چین تاہم بھارت کی جانب سے بھانپے گئے اس خطرے کو بے بنیاد قرار دیتا ہے جو دراصل اس کی داخلی سیاست اور عظیم قوت بننے کے خواب کا نتیجہ ہے۔ چین کی جانب سے دفاع برقرار رکھنے کیلئے خطے کے دیگر ممالک کیخلاف آئی آر بی ایمز کی تنصیب کے ردعمل میں بھارت چین کی میزائل صلاحیتوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان سکتا ہے۔ اس کیلئے وہ اپنے میزائلوں کی تعداد، ان کی رینج اور ان کی مستعدی میں اضافہ کرسکتا ہے۔ فرانس سے مبینہ طور پر ہیمر میزائلوں کی بھارتی خریداری، جو کہ بھارتی افواج کی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے، کسی بھی بحران میں چینی میزائلوں کو حاصل سبقت کیخلاف ایک موثر اقدام ہوسکتا ہے۔تاہم، بھارتی میزائل منصوبے کا ہدف محض چینی خطرات کا مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ان کی تنصیب کی نوعیت اور میزائلوں کے جدید نظام کا حصول بھارت کو اسی کے ساتھ پاکستان کیخلاف بھی جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے قابل بناتا ہے۔ یوں چینی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ہتھیاروں کی ترسیل کی جدید صلاحیت کیلئے جدوجہد، زیادہ مہارت کے حامل طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری نیز بھارت کے دستیاب ہتھیار روایتی حریفوں یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین جوہری طاقت میں فرق بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ ردعمل میں، پاکستان اس فرق کو ختم کرنے اور بھارت کیخلاف اپنا توازن برقرار رکھنے کیلئے اپنے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اور کروز میزائل کے ذخیرے میں اضافے پر غور کرسکتا ہے۔ اس طرح، علاقائی سلامتی حرکیات اور بھارت و پاکستان کے مابین مسابقت کی نوعیت کے حامل تعلقات نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین جوہری توازن کو مزید کمزور کرسکتے ہیں اور جنوبی ایشیا میں جوہری اشتعال انگیزی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جوہری ہتھیاروں کے تجربے دوبارہ شروع کرنے کی تجویز کے بارے میں اطلاعات کو بھی ایشیا پیسیفک خطے میں چین اور امریکہ کے مابین بڑھتے ہوئے جغرافیائی تزویراتی اختلافات سے جوڑا جارہا ہے۔ امریکہ میں بعض افراد کی جانب سے یہ نظریہ پیش کیا جارہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ دوبارہ تجربوں کے خطرے کو دراصل اپنے سیاسی ہدف یعنی کہ روس اور چین کے ہمراہ سہ فریقی اسلحے کی روک تھام کے معاہدے کو قائم کرنے کیلئے استعمال کررہی ہے۔ تاہم امریکہ کی جانب سے جوہری تجربے کے ذریعے ان سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کا امکان نہیں بلکہ یہ الٹا امریکہ چین بھارت پاکستان کے بیچ قائم سلامتی کی ایک مسلسل کڑی کے مابین جغرافیائی تزویراتی اختلاف کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔اگر امریکہ تجربے کے اپنے فیصلے کے ہمراہ آگے بڑھتا ہے تو یہ امکان موجود ہے کہ یہ بھارت اور پاکستان کیلئے بھی جوہری تجربوں کے در وا کر دے۔ یہ امر ایک دوسرے کیخلاف تزویراتی توازن برقرار رکھنے کی خواہاں دونوں ریاستوں کے مابین ہتھیاروں کی دوڑ تیز کرسکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ بھارت یکطرفہ طور پر جوہری تجربات کی معطلی کا اعلان کرچکا ہے، تاہم اس بارے میں بحث ہوتی آئی ہے کہ بھارت کو اپنی تھرمونیوکلیئر صلاحیت جو کہ کے تجربوں کے بعد سے کسی حد تک محدود ہے، آیا اس کی جانچ اور اضافے کیلئے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے یا نہیں۔ اگر بھارت اپنی تھرمونیوکلیئر صلاحیت بہتر بنانے کیلئے تجربے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ پاکستان میں سلامتی کے حوالے سے تشویش کو جنم دے سکتا ہے اور وہ بھارت کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت محسوس کرسکتا ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام اور اس کی پالیسی بالعموم بھارت کی جوہری پالیسیوں میں ہونے والی پیش رفت کے مطابق رکھی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا کی حرکیات کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ تجربے نہ کرنے کے ضوابط کی خلاف ورزی جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن کو کمزور کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔جوہری تجربوں کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے موجودہ بحث یہ ظاہر کرتی ہے کہ عالمی سطح پر جوہری عدم پھیلاﺅ کیلئے لائحہ عمل میں موجود کمزوریاں ریاستوں کو اپنے مفادات کے تحت فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور جوہری عدم پھیلاﺅ کے رجحان کو شدید دباﺅ میں لے آتی ہیں۔ ہتھیاروں کی روک تھام کے معاہدوں اور جوہری تجربوں کے حوالے سے امریکہ کے حالیہ فیصلوں کے اثرات امریکہ، چین، بھارت اور پاکستان کے مابین تزویراتی تعلق سے بخوبی واضح ہیں۔ جوہری عدم پھیلاﺅ کے معاہدوں اور ضوابط کی منسوخی جوہری طاقتوں کو یہ محرک دیتی ہے کہ وہ اپنی تزویراتی طاقتوں کو جدید ترین بنائیں جو کہ ان ریاستوں کے جوہری اور میزائل پر مبنی طاقت کے ڈھانچوں میں عدم مطابقت پیدا کرسکتی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہتھیاروں کی دوڑ جوہری عدم پھیلا کیلئے کی جانے والی کوششوں کیلئے غیر معمولی خطرے کا باعث ہوسکتی ہے۔نصرت مرزا کے مطابق بھارت کسی طور پر بھی خطے میں کشیدگی اور اسلحے کی دوڑ سے باز نہیں آرہا ہے۔ بھارت فرانس سے چھ ایٹمی پاور پلانٹ بھی لے رہا ہے اور اسکے ساتھ ایٹمی امور اور خلائی معاملے میںبھی تعاون کررہا ہے، پاکستان F-16اور F-17تھنڈر طیارے سے لیس ہے اور اب پاکستان کو رافیل کے طرز کا طیارہ خریدنا یا بنانا پڑیگا۔ ایک آپشن تو یہ ہے کہ وہ سخوئی35روس سے خرید لے، اِس طیارے کی صلاحیت رافیل سے ذرا بہتر ہے جو رافیل کی برتری کو ختم کردے گا یا روس اس طیارے کودینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے تو کسی اور ملک سے یہ طیارے خرید لے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سرحد کے قریب بھارتی طیاروں کا پانچ بم گرانا بھی تشویش کی بات ہے، وہ ظاہر کر رہا ہے کہ غلطی سے پاکستان کے علاقے میں بھی بم پھینکے جاسکتے ہیں۔ یہ شرارت بھارت کو بہت مہنگی پڑے گی۔ مزید برآں بھارت اور فرانس کی خلائی ایجنسیوں کے درمیان تعاون بھی تشویش کا باعث ہے۔ جس میں بھارت نے فرانسیسی خلائی ایجنسی کو اپنے مریخ کے خلائی مشن میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ یہی نہیں فرانس اور بھارت سولر منصوبوں میں تعاون کرینگے، اس سے پہلے بھارت نے روس کے ساتھ روسی ساختہ کا یامووف KA-226 ہیلی کاپٹر بھارت میں تیار کرنیکا معاہدہ کرلیا ہے جبکہ روس نے پاکستان کو ایسے ہیلی کاپٹر دیئے تھے جو حملے کی صلاحیت رکھتے تھے تو اس پر بھارت نے روس سے احتجاج کیا تھا، چنانچہ اس کو بنیاد بنا کر فرانس کیساتھ معاہدے پر پاکستان کو احتجاج کرنا چاہئے تھا کیونکہ رافیل ایک جدید طیارہ مانا جاتا ہے، جس سے جنوبی ایشیا میں بھارت خطے میں اسلحے کی دوڑ کا سبب بن سکتاہے ،جسکی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر بوجھ پڑے گا اور دنیا کے امن کو خطرات بڑھ جائیںگے، اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو مستعد اور جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کی کاوشوں میں تیزی لائے ،خصوصا غیرمتحرک جنگ اور لیزر ٹیکنالوجی میں بھی اس کی مہارت کا اظہار ضروری ہے۔ بھارت نے جب 1974 کو ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے پر مجبور کیا تھا، نتیجتا پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت سے کہیں جدید اور اس کا میزائل کہیں زیادہ صحیح نشانہ لگانے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے، جسکا اظہار مغرب کے دانشور اسلئے بھی کر رہے ہیں کہ بھارت کو خوفزدہ کرکے اس سے مال اینٹھیں، پاکستان نے صرف میزائل اور ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھایا ہے بلکہ کروز میزائل سے لے کر ڈرون طیارہ براق اور میزائل برق بنا چکا ہے۔ اس کی فضائیہ F-17 تھنڈر سے آراستہ ہے جبکہ بھارت کے پاس ابھی سخوئی30جو خراب حالت میں ہیںاور مگ طیارے بھی اپنی مےعاد استعداد پوری کرچکے ہیں، اس وقت فضائیہ میں پاکستان کو برتری حاصل ہے۔ اس وجہ سے بھارت بہت جلدی میں ہے اور 36رافیل طیارے 2016 کے آخر تک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اِس سلسلے میں پہلے روس سے سخوئی 35 کے حصول کیلئے گفتگو کاری کرتا رہا ہے، روس نے پاکستان کے خلاف اسلحہ سپلائی پر قدغن اٹھا لی ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ اسکے علاوہ اطلاعات کے بموجب چین اور روس ، پاکستان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکو اسٹرٹیجک خودمختاری کے مقام پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ امریکہ یا فرانس کا محتاج نہ ہو۔ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کرنے کیلئے بھی روس پرجوش تھا اور اب وہ پاکستان کے ساتھ مل کر پہاڑی علاقوں میں ملٹری مشق کرنے کا پروگرام پاکستان کی بری فوج کے ساتھ بنا چکا ہے، اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہورہے ہیں تاہم حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان کو مزید ملکوں سے بھی گفت و شنید کرتے رہنا چاہئے اور اپنے لئے نئے مواقع پیدا کرتے رہنا چاہئے جیسا کہ پاکستان نے پیٹریاٹ قسم کا طیارہ سوئیڈن سے حاصل کرکے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی کوششوں کو ناکام بنایا جس پر انہی ممالک نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے کامرہ پر حملہ کرکے اس طیارے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اِس کے بعد بھارت نے لیزر ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے پاکستان کے گیاری سیکٹر میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کا شوشہ چھوڑا ہوا ہے، اس کا حساب کتاب ہم پر فرض ہے، بھارت کے کئی قرض ہم پر ہیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور کشمیر میں ظلم و ستم کا حساب اور بلوچستان و سندھ، خیبرپختونخوا میں مداخلت کا جواب ابھی باقی ہے، پاکستان نے اس سلسلے میں ابھی کام شروع نہیں کیا ہے مگر ضرورت ہے کہ پاکستان کو اس طرف توجہ دینا ہوگی اور اپنے آپ کو تیار کرنا پڑے گا۔ کشمیر میں ایسے حالات پیدا کرنا پڑیں گے کہ بھارت استصواب رائے پر راضی ہوجائے۔ عین ممکن ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے سلسلے کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے بھارت استصواب رائے پر راضی ہوجائے اور یہ مطالبہ کرے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ اقوام متحدہ کے حوالے کیا جائے اور وہ مقبوضہ کشمیر بھی اقوام متحدہ کے حوالے کرنے کو تیار ہونے کا ارادہ ظاہر کرے اور پھر استصواب رائے سے مکر جائے، ویسے تاریخی طور پر گلگت بلتستان کبھی بھی سوا سو سال سے کشمیر کا حصہ نہیں رہا۔ اس لئے فوری طور پر گلگت بلتستان کو مکمل صوبے کا درجہ دے کر اِس قضیہ کے اٹھنے سے پہلے ہی معاملے کو حل کرلیا جائے، دوئم پاکستان کو افغانستان کی حکومت سے بات کرکے وہاں بھارتی اثر کو زائل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور سوئم اسے افغانستان، ایران اور بھارت کا گٹھ جوڑ بننے سے روکنے کیلئے ایران گیس پائپ لائن بچھا کر ایران کے مفادات کو پاکستان سے زیادہ منسلک کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تاکہ ایران مکمل امریکہ کے حلقہ اثر میں نہ جائے اور وہاں کی حکومت کے تعلقات اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ اچھے رہیں، اگرچہ پاکستان نے یہ آفر بھی دیدی ہے اور چین نے یقین دہائی کرا دی ہے کہ اس کی گیس پائپ لائن کو پاکستان سے چین لے جایاجائے، اس سے ایران ، پاکستان و چین کے درمیان تعلقات مستحکم اور تینوں ملکوں کے مفادات مربوط ہوجائیں گے۔پاکستان کو اسلحے کی دوڑ کے بغیر بھی نہ صرف کہ جدید جہاز، جدید آبدوزویں، بحریہ کو نیلگوں پانی کی بحریہ بنانے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے، اسے اپنے آپ کو اس قدر طاقتور بنانا چاہئے کہ خطے میں کوئی بھی ملک اس کو چیلنج نہ کرسکے۔ ویسے بھی ہم نے ہر ملک کی مدد کی ہے اور دوستی کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے، مگر اس وقت امریکہ، اسرائیل اور کئی یورپی ممالک پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں۔ اس کے توڑاور پاک چین اقتصاری راہداری کی تعمیر کیلئے ہمیں اپنی سرحدوں سے پار دیکھنا پڑے گا۔ ہمیں نہ صرف دہشت گردی و تخریب کاری کو اپنی سرزمین میں شکست دینے کا عزم اور تیاری کرنا ہوگی بلکہ سرحدوں کے پار بھی دشمن پر نظر رکھنا ہوگی، ہمارے خلاف جو سازش ہورہی ہے اس کو ناکام بنانے کیلئے ہر ذریعہ استعمال کرنا ہوگا۔