حقیقت ِابدی

محمد قاسم نسیم

گلگت بلتستان کی معروف ادبی تنظیم بز م علم و فن کے زیر اہتمام پچھلے اُنتیس سالوں سے جاری اتحاد بین المسلمین کانفرنس ”حسین ؑ سب کا“ حسب سابق اس سال بھی شان و شوکت اور جوش وجذبے سے منایا گیا۔کامیاب انعقاد کے اُنتیس سالوں میں اِس کانفرنس نے کامیابی کے زینے اس تیزی سے طے کئے ہیں کہ اب یہ اتحاد بین المسلمین سے بڑھ کر بین المذاہب اتحاد کی کانفرنس بن چکی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک کے بڑے شہروںسے نامور شخصیات اس کانفرنس میں شریک تھیں اور بارگاہ حسینی ؑ سے امن محبت اور بھائی چارے کا پیغام لے کر اپنے شہروں کو واپس گئےں۔ بلتستان کے مرکزی شہر سکردو میں ہونے والی یہ کانفرنس بالخصوص ملک کے دیگر شہروں سے آنے والے علما و اکابرین کے لئے دو حوالوں سے متاثر کُن اور یاد گار رہتی ہے ۔ ایک تو محسن انسانیت اور سید الشہدا حضرت امام حسین ؑ کے ایثار ، برداشت ،قربانی اور امن و رواداری کا پیغام جس انداز میں مختلف مکاتب فکر اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک ہی چھت تلے اورایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر یہاں سے دیتے ہیں وہ ملک میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد حوالہ ہے تو دوسری جانب اہل ِ بلتستان جہاں اسلام کے مختلف مکاتب فکرجو صدیوں سے محبت اوربھائی چارے کے ساتھ جی رہے ہیں اور اپنے صفوں میں جس ہم آہنگی کا عملی مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں اُس کی مثال ملک کے کسی حصّے یا دنیا کے کسی کونے سے نہیں دی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کو خراج عقیدت پیش کرنے اس نوعیت کے پروگرام ملک کے دیگر شہروں میں بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں لیکن سٹیج پر ایک ہی صف میں اسلام کے مختلف مکاتب فکر کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے اکابرین کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے ہوں یہ خصوصیت کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ یہ اہلبیتؑ سے عقیدت رکھنے والوں کی سر زمین بلتستان کا ہی خاصا ہے ۔ بلتستان کے خوبصورت اورانسانیت دوست اس ماحول کو مقامی افراد کی نسبت کانفرنس میں شرکت کے لئے ملک کے دیگر شہروںسے ہر سال آنے والے مہمان زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ جس کا اظہار نہ صرف وہ کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران کرتے ہیں بلکہ یہاں سے واپس جاکر وہ ملکی اور بین الاقوامی فورمز پر جہاں بھی موقع ملے اس کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ اس سال بد قسمتی سے عین اُسی روز موسم کی خرابی اور پرواز کی منسوخی کے باعث کچھ خاص مہمان سکردو نہ پہنچ سکے لیکن جومہمان ایک روز قبل اس کانفرنس میں شرکت کے لئے سکردو پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اپنی علمی سطح کی بلندی اور شیرینیِ گفتار کے ذریعے نہ پہنچنے والے مہمانوں کی کمی کو محسوس ہونے نہیں دیا ۔ اس سال کی کانفرنس میں خصوصی مہمان جو ملک کے دیگر شہروں سے آکر شریک ہوئے اُن میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر انور رضا، ملک کے نامور دانشورو مصنف پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری،اہلسنت والجماعت کے اسلام آباد میں مقیم خطیب مولانا حسین طارق ، سکھ برادری کے نمائندہ مسلم لیگ نون کے راہنما اور رکن پنجاب اسمبلی سردار رمیش سنگھ اروڑا اور ہندو کمیونٹی کے نمائندہ پنڈت بھگت لال کھوکھر شامل تھے۔ بلتستان سے مختلف مکاتب فکر کے جید اور نامور علما اور مقبول شعرا نے بارگاہ امامت میں سلام عقیدت پیش کئے۔ تمام مقررین کی گفتگو میں جو بات قدر مشترک تھی وہ یہ کہ حضرت امام حسین ؑ کسی مسلک یا ایک مذہب کے رہنما نہیں بلکہ آپ پوری نسانیت کے راہبر اور پیشوا ہیں ۔ آپ ظالم اور جابر حاکم کے خلاف اور مظلوموں کی حمایت میں سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے۔ حق اور سچائی کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا مگر حق و سچائی پر حرف آنے نہیں دیا۔ آپ نے کربلا میں تمام انبیا ءاور نبیوں کے نمائندہ بن کر قیام کیا اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دے کر نانا کے دین کو بچا لیا ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین ؑ کو بلاتفریق ملت و مذہب ہر کوئی حق کا سچا نمائندہ تسیلم کرتا ہے اور عالم انسانیت میں جوں جوںبیداری کی لہر آتی جارہی ہے لوگ امام حسین ؑ کی جانب مائل ہوتے جارہے ہیں ۔ جس کی پیش گوئی جوش ملیح آبادی نے اِن الفاظ میںکر رکھی ہے کہ 

 انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

 ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ  

عزاداری اور ذکر امام حسین ؑ میں ایک ایسی طاقت ہے کہ اس طاقت سے مستضعفین بھی اپنے آپ کو طاقت ور محسوس کرتے ہےں اور اپنی بظاہر موجودکمزوری کو خاطر میں لائے بنا طاقت ور ترین ظالم کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے کی جرات کرتے ہےں ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے” مومنوں کے دلوں میں حضرت امام حسین ؑ کی شھادت کی ایسی حرارت ہے جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔“ دنیا میں مقبوضہ مسلمان علاقوں کو بھی ظالموں کے شکنجے سے نکالنے کے لئے اُسوہ شبیری کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ کیونکہ بقول علامہ اقبال 

حقیقت ِ ابدی ہے مقام شبیری 

 بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی