سیاسی کھیل تماشا

نثار حسین 

 ہم نے امریکی سائفر پر صرف کھیلنا ہے امریکا کا نام نہیں لینا،سابق وزیراعظم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خاں کے اس بیانیہ پر عوام کی کثیر تعداد میں تشویش پائی جاتی ھے کہ نہ جانے وہ کیا کھیل کھیلیں گے، کھیل تو میدانوں میں کھیلے جاتے ہیں کھلاڑی،ٹیمیں آمنے سامنے ہوتے ہیں، شطرنج ،لڈو، تاش کچھ کھیل انڈور بھی ہوتے ہیں، ویڈیو گیمز کہیں بھی کھیلی جاسکتی ہیں ،پتنگ بازی،سگیٹنگ،ہائےکنگ،باگسنگ کسی حد تک خطرناک کھیل ہیں ،بے ضرر اور دلچسپ کھیل زیادہ پسند کئے جاتے ہیں ،اس حوالے سے کوئی بھی کھیل کھیلنا ہر شہری کا حق ہے اور کسی کے کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں،اب یہ کھلاڑی کے دل کی مرضی ہے کہ وہ جہاں چاہے جو کھیل کھیلے، ہر کھیل کے اپنے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں کھیلتا ہر کوئی ہے،کھلاڑیوں کے اپنے اپنے کھیل کے دائرے ہیں ،مگر سیاست کے کھیل میں کوئی ضابطہ ہے نہ دائرے کا تعین کیا جاتا ہے ،گھر سے پارلیمنٹ ہاﺅس تک سیاستدانوں کے سامنے وسیع کھیل کا میدان ہے ،سیاسی کھلاڑی بہت لفظوں سے بھی کھیلتے ہیں ،لفظوں سے کھیلنے کے ہنر کو ہی ایک انتہائی سطح پر لے جانے پر اسے سیاسی شعبدہ بازی بھی کہا جاتا ہے کچھ سیاسی کھلاڑی معےشت کیساتھ کھیلتے ہیں تو کچھ انسانی جذبوں سے کھیلنے میں مشاق ہیں ،کچھ انسان کی کسی کی مجبوری سے کھیلتے ہیں تو کچھ لسانی تفریق پر تو کچھ صوبائی عصبیت کے کھیل میں مہارت رکھتے ہیں ،سیاست دانوں کے کھیل نرالے ہوتے ہیں وہ ہر شعبے میں اپنا اثر ڈالنے کے لئے کسی بھی لمحے کھیل کا انداز بدل لیتے ہیں ،پاکستان کے بیشتر سیاسی کھلاڑی اپنے کھیل کو ہر حال میں اپنے مفاد پورا ہونے تک جیت کی تگ ودو سے جوڑ کر کھیلتے رہتے ہیں کھیل ہی کھیل میں کئی بار ملک بھی دولخت ہوجائے تو بھی اپنی باری لینے کے لئے کوئی نیا کھیل رچالیتے ہیں ، کبھی انکے کچھ کھیل خود انکے گلے پڑ جاتے ہیں ،اہسا کھیل کھیلتے ہیں کہ اپنے سوا سب انہیں اناڑی لگتے ہیں ،سیاست میں داخل ہونے سے پہلے سابق وزیراعظم میدان میں تو طویل عرصہ تک کھیلے تجربہ کار بھی ہیں وہ جانتے ہیں ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے ،کھیل جب کھیل سے نکل کر استعارتی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو کھیل جنگی ہو جاتے ہیں ،مقابلہ میں کارکردگی، برداشت ختم ،جیت اور ھار والا کھیل ضد، اختلاف ،انتقام زندگی اور موت کا معاملہ بن جاتا ھے کھلاڑیوں کی سوچ بدل جاتی ھے اور وہ جنگی کھیل کھیلتے ہوئے اقدار اور اصولوں کو بھول جاتے ہیں۔کرکٹ کے سابق سپرسٹار کھلاڑی عمران خان 25 سال سے سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں اس کھیل میں امپائر کے کاندھوں پر چڑھ کر فتح حاصل کرنے کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں اور فاﺅل کھیلنے پر آﺅٹ ہوجانے کے باوجود دوبارہ باری لینے کی خاطر کبھی شورو غوغا کرتے ہیں تو کبھی امپائر کی انگلی کے اٹھنے کی امید باندھ لیتے ہیں ۔سیاسی کھیل چونکہ کسی ضابطے اور اصول کو فالو نہیں کرتے اس لئے انکے کھیل میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ،ویسے کھیل بہت مفید ہے ،عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ کھیلو جی بھر کے، کھیل انسانی صحت کے لئے ضروری ھے ،کھیل میں جسمانی اور دماغی حرکت یا کچھ صورتوں میں دونوں کو بروئے کار لایا جاتاہے،اس اصول کے تحت سابق کرکٹر اور سابق وزیراعظم عمران خان نے عزت کمائی اب سیاسی کھیل میں باقیوں کی طرح سیاسی شعبدہ بازی میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر پکڑے جاتے رہے ،میڈیا بھی ایک طرح سے نئے سے نیا کھیل کھیل رہا ہے ،وقت بے وقت سیاست دانوں کو بے لباس کرنے کے ہنر میں مہارت رکھنے والے کچھ صحافتی کھلاڑی بھی مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں اپنے کسی دوست سیاسی رہنما کو کپڑے پہناتے ہیں انکے امیج بلڈ کے لئے سارے مروجہ صحافتی اصولوں اور قواعد کو پامال کردیتے ہیں بلکہ دوست کے مخالف کی پکڑی اتارنے کا شغل بھی جاری رکھتے ہیں ،ان حالات میں عمران خان سے عوام بجا طور پریہ امید باندھ چکے تھے کہ وہ حقیقی معنوں سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست کے کھیل کے اصول وضوابط وضع کرتے ہوئے سیاستدانوں کی ساکھ بنانے میں اپنا مرکزی کردار نبھائیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا وہ روایتی سیاستدانوں سے بھی اس حوالے سے دو ہاتھ آگے نکل گئے ،وہ نعرے اور وعدے کئے جنہیں نبھانا انکے بس میں نہیں تھا صرف عوام کے جذبات سے کھیل کر بازی الٹانے کی خاطر ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھرغریبوں کو دینے کے ساتھ ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کرتے رہے اور پھر اسکے برعکس ہوشربا مہنگائی سے ملک کے غریب عوام کی اعلانیہ چیخیں نکلوانے کا اہتمام بھی برسر عام کیا ،ہر اعلان کے برعکس اقدام کرنے کے باوجود ابھی تک قوم پر ڈھائے جانے والے ہر ستم پر نمک پاشی کی جارہی ہے ،ان حالات میں انکی دوسروں کی طرح وزیراعظم ہاﺅس میں اپنے پی آئی او سے کی جانے والی درج بالا گفتگو بھی لیک ہوجاتی ہے ،اس پوری صورتحال میں سیاستدانوں پر عوام کا کوئی اعتماد نہیں رہا ،سیاست کا پورا کھیل ہی عوام کے ساتھ بہت برا کھلواڑ بن کر سامنے آیا ہے اس تناظر میں اب ایسے سیاست دانوں کو خود ہی اپنے انداز سیاست پر غور کرنا چاہئے ،خود ہی دیکھ لیں کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ان سب اچھی باتوں کے برعکس کیا کرتے ہیں ۔موضوع سخن کیساتھ اپنے کالم کے ذریعے استاد شاعر وزیر علی صبا لکھنوی کا شعر ہی درست پیش کرنے کی سعادت حاصل کرلوں ۔

آپ ہی اپنے ذرا جورو ستم کو دیکھیں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی