راجہ حسین خان مقپون اک نظریہ

تعارف عباس ایڈووکیٹ  

یوں تو گلگت بلتستان میں کئی ایک شخصیات ہیں جن کی مختلف شعبوں میں خدمات ہیں ان میں سے ایک اہم کردار راجہ حسین خان مقپون مرحوم ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان کی محرومی و محکومی کا ادراک کرتے ہوئے شعبہ صحافت کے ذریعے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کا عزم کیا جو  کسی بھی معاشرے کیلئے آنکھ کی مانند ہے اور ریاست کا چوتھا ستون بھی۔آپ گلگت بلتستان میں شعبہ صحافت کے بانی ہیں جس دور میں آپ نے اپنے ہفتہ روزہ کے ٹو کے ذریعے اشاعت کا آغاز کیا اس دور میں خطہ قراقرم قومی و بین الاقوامی سطح پر اوجھل تھا۔کسی بھی قوم و معاشرے کی ترقی و معیار زندگی شعور و آگاہی وہاں سے چھپنے والے اخبارات،رسالے اور میگزین سے ہوتا۔گلگت بلتستان کا زمینی رابطہ شہروں کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے کئی طرح سے مختلف تعلیمی سیاسی سماجی معاشی تجارتی و قانونی مسائل کا شکار تھے اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ تھا جو ان مسائل کی طرف توجہ دلاتا ۔ان حالات میں راجہ حسین خان مقپون نے ہفتہ روزہ کے ٹو اخبار کی اشاعت کے ذریعے خطہ قراقرم کے مسائل کو اعلی ایوانوں تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔کسی ادارے کو تشکیل دینا اور چلانا وہ بھی اخبار کو چلانا کتنا مشکل اور چیلنجز ہوتا ہے یہ وہی جان سکتا ہے جس کا اس شعبے کا تجربہ ہو۔ظاہری طور پر شعبہ صحافت آسان لگتا ہے مگر اخبار کی اشاعت ایسے دور میں جس میں ہر طرف مسائل ہی مسائل ہوں مشکل اور صبر آزما کام ہے۔آپ نے جیل میں قید و بند کی صعوبتیں  برداشت کی مگر اپنے عزم سے پیچھے نہ ہٹے۔زمانہ طالب علمی سے میں  ہفتہ روزہ کے ٹو کا مستقبل قاری تھا اور اکثر و بیشتر اخبار چھپنے کا انتظار رہتا اور کوئی  بیان دیتے یا کالم لکھتے تو راجہ صاحب ضرور اپنے اخبار میں جگہ دیتے اور اکثر و بیشتر جب اخبار کا دفتر راولپنڈی کمرشل مارکیٹ اور مری روڈ  آفس میں تھا تو ملتے مختلف ایشوز پر گپ شپ رہتی انہی دنوں ہم نے قراقرم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن راولپنڈی اسلام آباد ڈویژن کی تشکیل نو کی گئی تھی جسے اخبار میں نمایاں کر کے چھاپا تھا۔راجہ صاحب نہ صرف ایک صحافی تھے بلکہ ان کے دل میں گلگت بلتستان کے عوام کو بلاتفریق تفریق ایک قوم بن کر قومی حقوق و قومی شناخت کیلئے متحد دیکھنا چاہتے تھے۔2005 میں جب ہم یونیورسٹی آف پشاور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے قراقرم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن و گلگت بلتستان یوتھ فورم کی طرف سے گلگت بلتستان کی آزادی  یکم نومبر کے حوالے سے ایک تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں راجہ حسین خان مقپون نے بھی خصوصی شرکت کی اور طلباء و نوجوانوں کے جذبات کی تعریف کی اور اپنے خطاب میں تعصبات کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم کوہستان سے پاکستان پہنچتے ہیں تو ہم سب تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر بلا تفریق رنگ نسل فرقہ علاقہ ایک ہو کر بڑے پروگرام سیمینار کرتے ہیں اور آپس میں متحد ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں یہی جذبہ جب ہم کوہستان سے گلگت بلتستان واپس جاتے ہیں تو مختلف خول میں گھس کر کبھی شیعہ' سنی اسماعیلی بن کر فرقہ واریت کا شکار ہوتے ہیں یا پھر بلتی گلگتی چلاسی استوری ہنزائی بن کر علاقیت میں تقسیم ہوتے ہیں یا پھر شین یشکن ڈوم کمن بن کر نسل پرستی کا شکار ہوتے ہیں جسکی وجہ سے ہم اپنے مشترکہ حقوق کیلئے متحد ہو کر آواز نہیں اٹھا سکتے۔ اسلئے ضروری ہے کہ یہی جذبات آپکی عملی زندگی میں جب گلگت بلتستان جائیں تو وہاں پر بھی ہوں تاکہ ہماری قوم متحد ہو سکے اور اپنے حقوق و شناخت حاصل کرسکیں۔اکثر و بیشتر آپکی برسی پر آپ کا پشاور پریس کلب میں کیے گئے خطاب کے الفاظ میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں جسے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اپنے علاقے کو بھی دیگر علاقوں کی طرح ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے اور یہاں کی عوام کو  متحد و پرامن دیکھنا چاہتے تھے۔آپکی ناگہانی اور حادثاتی موت نے انہیں بہت جلد ہم سے جدا کیا۔آپ کا لگایا گیا پودا آج اتنا تناور درخت بن گیا ہے کہ نہ صرف اہل وطن مستفید ہورہے ہیں بلکہ غیر بھی بھرپور استفادہ کر رہے ہیں ۔آخر میں اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین