نیٹوکوسب سے بڑاچیلنج

 سمیع اللہ ملک


آج نیٹوکوسب سے بڑاچیلنج روس سے نہیں بلکہ اپنے اراکین کی جانب سے درپیش ہے۔ترکی اورمتعدد یورپی اتحادیوں کے درمیان تنازعات ایک بار پھر عروج پرہیں،جس کی وجہ سے تنظیم کی اجتماعی فیصلہ سازی کی صلاحیت بری طرح متاثرہورہی ہے،اگر ان مسائل کوبروقت حل نہیں کیا گیاتودنیاکے طاقتوراتحادکوشدیدنقصان پہنچ سکتاہے۔تازہ ترین واقعہ ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی جانب سے نگورنوکاراباخ پرقبضے کیلئے جنگ کی کھلی حمایت کرنا ہے۔یہ جنگ روس کے زیرسرپرست ایک معاہدے کے بعد ختم ہوئی۔اس جنگ میں ترکی کی جانب سے اپنے نیٹو اتحادیوں کوصرف دکھانے کیلئے معاملے کے پرامن حل پرزوردیاگیا۔ معاہدے کے نتیجے میں آذربائیجان کو متنازع خطے کاقابلِ ذکرعلاقہ حاصل ہو گیا۔ترکی فاتح بن کرابھرا اوراس کے مغربی اتحادیوں کاکردار محدودہوگیا۔یہ واقعہ اونٹ کی کمرتوڑنے کیلئے آخری تنکے کاکرداراداکرسکتاہے۔مغرب کی اپنے نیٹواتحادی سے شکایت بڑھتی جارہی ہے۔پچھلے ماہ ترکی کی جانب سے گیس کی تلاش کیلئے مشرقی بحیرہ روم کے متنازع علاقوں میں بحری جہاز بھیجنے سے یونان سے ٹکرائوکاامکان خطرناک حد تک بڑھ گیاتھا۔اگرچہ بعدمیں ترکی نے اپنا جہازواپس لے لیالیکن ترکی کی جانب سے تحقیقاتی سرگرمیوں کیلئے دوبارہ جہازبھیجنے کے اعلان سے ددنوں نیٹو اتحادیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا،جس پریونان کی جانب سے پابندیوں کامطالبہ کیاگیا۔آخرصورتحال اتنی دھماکاخیزکیوں ہوجاتی ہے ؟دراصل مشرقی بحیرہ روم کی دوریاستوں کے درمیان1947سے قبرص کی تقسیم اوراس علاقے میں قدرتی وسائل کی دریافت پر تنازع چلاآرہا ہے۔جون میں فرانس اورترکی کے درمیان نوبت تصادم تک آپہنچی،جب فرانس کے جہازنے لیبیاکواسلحہ کی فراہمی پراقوام متحدہ کی پابندیوں کے تناظرمیں ترک جہازکی تلاشی لینے کی کوشش کی۔انقرہ نے فوری طورپرفرانس کادعوی مسترد کر دیا۔دونوں ممالک لیبیامیں مختلف فریقوں کی حمایت کررہے ہیں۔دونوں نیٹواتحادی شام،لیبیا،نگورنوکاراباخ کے معاملے پرلفظی جنگ لڑتے رہتے ہیں۔اس حوالے سے تازہ ترین تنازع فرانس کے صدرمیکرون کی جانب سے توہین آمیزکارٹون بنانے کادفاع کرنا ہے،جس کاجواب ترک صدرنے فرانسیسی مصنوعات کابائیکاٹ کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے دیا۔اس صورتحال میں نیٹواتحادکے اندرتنائو اورالجھائو بڑھتاجارہاہے۔یورپی اتحادیوں کواس بات سے مایوسی ہے کہ ترکی علاقائی سطح پرجارحانہ اندازاختیارکرتاہے اورکوئی اقدام اٹھانے سے قبل مشورہ تک نہیں کرتا۔ 1952 سے اس اتحاد میں ترکی کاہمیشہ ایک منفرد کرداررہاہے۔اس کاحجم، فوجی وسائل اورایشیائی دہلیزپرکلیدی حیثیت ترکی کی اہمیت کوبڑھاتی ہے۔ مشرق وسطی میں بھی ترکی کواسٹریٹجک حیثیت حاصل ہے۔اگرچہ ترکی اورنیٹوکے تعلقات اکثرکشیدہ رہے ہیں لیکن خاص کر2016میں ترکی میں بغاوت کی کوشش کے بعدتو حالات بدترین ہوتے چلے گئے ہیں،جس کے خطرناک نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔اس پس منظرمیں نیٹوکواپنے وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ارکان کے بگڑتے ہوئے تعلقات درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اوراپنے سیکیورٹی مفادات کونئی جہت دینی چاہیے،تاکہ اتحاد میں مزید دراڑوں سے بچاجاسکے۔جب بھی تنائو بڑھتاہے تونیٹوکے ایک اتحاد کی طرح عمل کرنے کی صلاحیت متاثرہوتی ہے کیوںکہ اتحادکے اصولوں کے مطابق اتفاق رائے سے فیصلہ سازی کرنا ضروری ہے۔نیٹوکے ہرفیصلے میں اتحادیوں کی اجتماعی خواہش کااظہارہوتاہے،جس سے مطلوبہ نتائج کاحصول آسان ہوجاتاہے۔اقوام کے درمیان باہمی دلچسپی کے امورپربات چیت ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے اورخرابی یہ ہے کہ نیٹوکے ہررکن کوکسی بھی معاملے میں ویٹوکرنے کاحق دیاگیاہے۔ریاستیں اس حق کوقومی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرسکتی ہیں۔یورپی یونین کے اندربھی یہ مسئلہ ہے کہ ہرچیزاتفاق رائے سے طے کی جائے گی۔حال ہی میں قبرص نے بیلاروس کی حکومت پرپابندیوں کی حمایت سے انکارکرتے ہوئے پہلے ترکی کے خلاف پابندیوں پر اصرارکیاہے۔قبرص نے بحیرہ روم کے پانیوں میں بحری جہاز بھیجنے پرترکی کے خلاف بروقت اقدامات نہ کرنے پریورپی یونین پرشدیدتنقید بھی کی ہے۔یورپی یونین کے برعکس نیٹومیں بات چیت بنددروازوں کے پیچھے کی جاتی ہے اوراختلاف رائے کی خبریں باہرنہیں آپاتی ہیں۔اصولی طورپرکوئی بھی رکن ملک اتحاد کی اہم پالیسی یااقدام کوروک سکتاہے۔پچھلے سال خبروں کے مطابق نیٹوسربراہی اجلاس میں ترکی نے بالٹک ریاستوں اورپولینڈ کے خلاف روسی جارحیت سے تحفظ کے اہم دفاعی منصوبے کوروکنے کی دھمکی دی اوراتحادیوں پردبائو ڈالاکہ کرد ملیشیا کو دہشتگردتنظیم قراردیاجائے حالانکہ کئی نیٹوممالک کے کرد ملیشیاسے تعلقات ہیں۔اسی طرح کچھ سال قبل جب آسٹریانے یورپی یونین کی ممبر شپ کے حوالے سے انقرہ سے بات چیت معطل کرنے کامطالبہ کیاتوترکی نے آسٹریاکے ساتھ نیٹوکے تعاون کو ویٹوکردیا۔اگرچہ دونوں معاملات بات چیت کے بعدطے کرلیے گئے لیکن یہ صورتحال اتحادیوں کے درمیان بڑھتے اختلافات کو ظاہرکرتی ہے،جوبات چیت کے ماحول کوخراب کررہی ہے۔ترکی کے سخت رویے کی وجہ سے نیٹوارکان کااپنے اتحادی کے ساتھ کام کرنامشکل ہوتاجارہا ہے۔2011میں عرب بہارکے بعدترکی کی سیکیورٹی کیلئے چیلنج بڑھنے لگے اوریہ تاثربھی گہراہوگیاکہ انقرہ کے اہم سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کیلئے مغربی اتحادی قابلِ اعتبارنہیں ہیں،جس میں یورپی یونین کارکن بننے کیلئے بات چیت کاعمل روکنا،امریکاکی جانب سے مشرقِ وسطی کے حالات سے لاتعلقی، کردباغیوں کی حمایت کرنااورفتح اللہ گولن کی حوالگی سے انکارکرناشامل ہیں۔فتح اللہ گولن کو2016کی بغاوت کاماسٹرمائنڈ قرار دیاجاتاہے۔اس صورتحال نے واضح کردیاکہ ترکی کی سلامتی کیلئے انقرہ کوخود اقدامات کرنے ہوں گے اورایک منقسم اورناقابلِ اعتبارمغرب پر بھروسہ غلط فیصلہ ہوگا ۔ مجموعی طورپران عوامل نے انقرہ پرنیٹوکااثرو رسوخ ختم کردیاہے۔ترکی نے شام میں اپنے کلید ی کرداراورخطے میں جغرافیائی برتری کی وجہ سے یورپ میں پناہ گزینوں کی آمدکے دبائوکوکم کیا۔نیٹوکی نظرمیں ترکی جنوبی سرحدکامحافظ ہے۔اسی لیے ترکی نے پولینڈ اوربالٹک ریاستوں کے تحفظ کی حمایت کے بدلے اتحادکواپنے دفاع کیلئے زیادہ مددفراہم کرنے پرمجبورکیا۔ترکی اس بات کامطالبہ کئی برسوں سے کررہاتھا۔ترکی میں دنیابھرمیں سب سے زیادہ چالیس لاکھ پناہ گزین موجودہیں۔یہی بات برسلزکوانقرہ کی بات سننے پرمجبورکرتی ہے کیونکہ ترکی دھمکی دے چکاہے کہ وہ مہاجرین کیلئے یورپ کے دروازے کھول دے گاجوکہ یورپ اورترکی کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ترکی کی جارحانہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں یورپ کی جانب سے پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں اور مشکلات کاشکارترک معیشت مزیدبدترین حالات سے دوچارہوسکتی ہے۔نیٹوکوایک اورچیلنج عظیم یورپ کی اسٹریٹجک خود مختاری کے مطالبے سے ہے،جس سے اتحادکونقصان پہنچ سکتاہے،یورپ اوراٹلانٹک کے بگڑتے تعلقات کے پس منظرمیں کئی رہنمائوں نے کھلے عام نیٹوکی افادیت پرسوال اٹھانے شروع کردیے ہیں۔اسٹریٹجک خودمختاری کے اہم وکیل فرانس کے صدر میکرون نے لیبیاکواسلحے کی فراہمی کے معاملے پرترکی سے ٹکرائو کے بعدنیٹوکوایکمردہ اتحادقراردیا،جس کی وجہ سے وہ ترکی کی مہم جوئی کاراستہ نہیں روک سکتے۔اپنے حالیہ انٹرویومیں آرمینیاکے صدرنے نیٹوکی ساکھ پرسوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ اتحاد اپنے رکن کی قفقازمیں مداخلت روکنے میں ناکام رہاہے۔ اگر نیٹواپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مزیدمفلوج ہوجاتاہے توتنظیم کی افادیت پرشکوک میں اضافہ ہوگااور یورپی ممالک اس اتحاد سے ہٹ کراپنی سیکیورٹی کابندوبست کرنے کیلئے مزیدمتحرک ہوجائیں گے،جس کے نتیجے میں یورپی ممالک کی جانب سے ترکی کوباہررکھ کردیگرزیادہ قابلِ اعتبارممالک سے سیکیورٹی کے حوالے سے معاہدے کیے جاسکتے ہیں۔ یورپ اورترکی کی کشیدگی کی ایک وجہ انقرہ اورماسکوکے بدلتے تعلقات بھی ہیں۔اگرچہ یہ تعلقات2015میں ترکی کی جانب سے ایس یوروسی لڑاکاطیارہ گرائے جانے کے بعدکافی کشیدہ ہوگئے تھے لیکن بعد میں دونوں نے بہترسیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرلیے،جس کے نتیجے میں ترکی نے روسی گیس لائن اورمیزائل دفاعی نظام کی خریداری کیلئے کوششیں کیں،جس کی واشنگٹن اور نیٹوکے دیگراتحادیوں نے سخت مخالفت کی۔کچھ لوگوں نے اس کوترکی کے مشرق کی جانب جھکائوکانتیجہ قراردیا۔روس ترکی تعلقات میں سب سے خطرناک بات پوٹن کارویہ ہے جونیٹواتحادکی بنیادی اقدارکے منافی ہے۔ اصل خوف یہ ہے کہ رکن ممالک کے درمیان دوطرفہ اختلافات نیٹوکو کمزورکردے گاجس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس ترکی کو مغرب سے مزیددورلے جاسکتاہے اوراتحادکی فیصلہ سازی کی صلاحیت کوشدید نقصان پہنچ سکتاہے۔آذربائیجان کے ساتھ تعاون ترکی اورروس کے ساتھ مسلح تصادم کاباعث بن سکتاتھا بہرحال اس صورتحال سے ہرایک بچناچاہتاہے کیونکہ بہت کچھ دائو پرلگاہواہے۔زیادہ امکان یہی ہے کہ روس اورترکی اتحادی بننے کے بجائے متوازن تعلقات کوترجیح دیں گے حالانکہ نیٹوکے کئی ممالک انقرہ اور ماسکوکے تعلقات کوشکوک وشبہات کی نظرسے دیکھتے ہیں۔چونکہ ترکی اوریورپی یونین ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی کرچکے ہیں، اس لیے اس بحران کے حل کیلئے نیٹوسے بہترکوئی پلیٹ فارم نہیں ہوسکتا۔ ترکی نیٹوکارکن ہے اوراتحادکے ارکان کے درمیان روزانہ کی بنیادپررابطے ہوتے ہیں۔بہرحال یورپ اورترکی کی بڑھتی کشیدگی کے تناظرمیں نیٹوکومعاملات بہترکرنے کی کوشش کرنی چاہیے،کیونکہ سفارت کاری کے ذریعہ اکثرکامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔نیٹوکے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کی جانب سے حالیہ اعلان کہ یونان اورترکی کے درمیان فوجی تنازع سے بچنے کیلئے ایک طریقہ کار بنایاجائے گا،یہ سفارتی کوششوں کی کامیابی کی زبردست مثال ہے اورمعلوم ہوتاہے کہ دونوں ممالک بھی تعلقات بہت زیادہ خراب کرنانہیں چاہتے ۔بہرحال یونان اورترکی کے درمیان فوجی تصادم سے بچنے کاانتظام انقرہ اوریورپی ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی کوختم نہیں کرسکتا۔اس کیلئے نیٹوکوبات چیت کے ایک فورم کے طورپرکام کرتے ہوئے کرداراداکرنا چاہیے


 اورجہاں رکن ممالک کی سیکیورٹی کامعاملہ ہو،وہاں عملی اقدام بھی اٹھانے چاہیں۔اگر سیکیورٹی کی بدلتی صورتحال میں نیٹوایک کارآمداتحادبنارہناچاہتاہے تویہی کامیابی کی کلید ہے۔کسی بھی معاملے میں مشاورت کی کلیدی اہمیت ہے،لیکن نیٹو کو بات چیت کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں پرعمل کی راہ بھی تلاش کرنی ہوگی۔اس اتحادکوحمایت اورمذمت کرنے کے کھوکھلے بیانات سے آگے بڑھناچاہیے اورسوچناچاہیے کہ آس پڑوس میں جاری بحرانوں سے کس طورنمٹاجائے۔اس سے ترکی اور دیگر ممالک کے خدشات دورکرنے میں مددملے گی اوراسٹریٹجک فوائد ملنے سے اتحادمزیدمضبوط ہوگا۔نیٹواب تک کی تاریخ کاسب سے کامیاب اتحادہے،اس کامیابی کوبرقراررکھنے کیلئے اتحادیوں کوشام،لیبیااورقفقازمیں سیکیورٹی مفادات کے ٹکرائوکے باوجود متفقہ موقف اختیارکرناچاہیے لیکن بدقسمتی سے ایساہونہیں رہا۔اگرترکی اورمغرب کے درمیان تعلقات مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں تو نیٹو ممالک واشنگٹن معاہدے کے آرٹیکل چار کے تحت مشاورت طلب کرنے پر غورکرسکتے ہیں،جس کے تحت کسی بھی ممبرکی خودمختاری کوخطرے کی صورت میں مشاورتی اجلاس طلب کیاجاسکتاہے۔ موجودہ ترکی اوریورپ تعلقات کے تناظرمیں آرٹیکل چارکواستعمال کیاجاسکتاہے کیوںکہ ترکی پورے نیٹوکی یکجہتی کیلئے خطرہ بن چکاہے،ویسے بھی ترکی کافی عرصے سے شام کے معاملے پرآرٹیکل چارکے تحت مشاورت کامطالبہ کرتارہاہے،جس کے ذریعے نیٹوکی جانب سے ترکی کی حمایت کامظاہرہ کیاجاسکے۔آرٹیکل چارکے تحت مشاورت کی بڑی سیاسی اہمیت ہوگی اور بدمعاش ریاستوں کوایک واضح پیغام بھی بھیجاجاسکے گا۔موجودہ صورتحال میں سفارتی کوششوں کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق سمجھیں کہ تلخ بیان بازی اورپابندیاں لگانے کی دھمکیاں تقسیم کو بڑھاوا دیں گی اورترکی کایہ خیال مزید مضبوط ہو جائے گاکہ اس کے یورپی اتحادی انقرہ کے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔اس کے نتیجے میں انقرہ خودکومحاصرے میں سمجھ کر مشرق کی جانب مزیداتحادی تلاش کرے گااوراتحاد اندرونی طورپرکمزورہوجائے گا۔ یورپی ممالک کوچاہیے کہ وہ سمجھوتے پررضامندی ظاہر کریں اورترکی کویقین دلائیں کہ اس کے تحفظات کودورکیاجائے گا۔یقینی طورپرسمجھوتادوسرے فریق کوبھی کرنا ہوگا۔ترکی کوبھی بلاشبہ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اپنی خارجہ پالیسی کے کچھ بنیادی مقاصد سے پیچھے ہٹناہوگا،جس میں غیر ممالک میں پراکسیزکااستعمال ترک کرنااورروس اور نیٹوکے درمیان براہِ راست تصادم کانتیجہ بننے والے اقدامات سے گریزکرناشامل ہیں۔سب سے اہم یہ کہ ترکی کوبحیرہ روم میں تحقیق کے نام پرجہازبھیج کرکشیدگی بڑھانے جیسے اقدام سے بازرہناہوگا۔یہ انقرہ کیلئے سمجھوتے کا آسان ترین راستہ ہوسکتاہے۔ یورپی ممالک کی اس شکایت پربھی توجہ دینی ہوگی کہ ترکی مشاورت کے بجائے خارجہ پالیسی کے اہداف کیلئے یکطرفہ اقدامات کرتاہے۔ ترکی کواس طرح کے اقدام سے قبل شفافیت کیلئے مکمل مشاورت کرنی چاہیے۔اس سارے عمل میں دواضافی عوامل فیصلہ کن کردارادا کریں گے۔ایک نیٹواوریورپی یونین کی اپنی حکمتِ عملی کو مربوط کرنے کی صلاحیت ہے،تمام فریقوں کواتحادکا مظاہرہ کرنا ہوگاکیونکہ اشتعال انگیزی سے مفاہمت کی کوششوں کونقصان پہنچ سکتاہے۔رواں برس دسمبرمیں یورپی کونسل کے اجلاس میں ترکی کے ساتھ تعلقات کامعاملہ حل کیاجائے گا۔اجلاس کے بعدصورتحال واضح ہوجائے گی کہ یورپی یونین کس طرح اس معاملے سے نمٹتی ہے اورکیاتمام یورپی ممبران ترکی کے خلاف پابندیوں پر متفق ہوجائیں گے،جس کے بعدہی معلوم ہو سکے گاکہ ترکی سمجھوتاکرنے کیلئے کس قدرآمادہ ہے۔جب1974میں یونان اورترکی قبرص کے معاملے پرجنگ کی لپیٹ میں تھے توامریکانے فیصلہ کن کردارادا کیاتھااورسختی کے ساتھ مراعات دیتے ہوئے براہِ راست تصادم کوروک دیاتھا۔اگرچہ ٹرمپ نے حالیہ بحران میں مکمل طور پرخاموشی اختیارکی لیکن آج بھی پہلے کی طرح واشنگٹن کادونوں فریقوں پراثرورسوخ معاملے کے حل میں اہم کرداراداکرسکتاہے تاکہ ماضی کی طرح نیٹوکو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچایا جاسکے۔ٹرمپ کے اردگان کے ساتھ ذاتی تعلقات اورخطے سے عدم دلچسپی کی وجہ سے ایساممکن نہیں ہوسکالیکن جوبائیڈن کی سربراہی میں نئی امریکی انتظامیہ ممکنہ طورپرترکی کے بارے میں سخت موقف اختیارکرتے ہوئے نیٹوارکان کے درمیان بہترتعلقات کی بحالی کیلئے فعال کرداراداکرے گی۔