تقی آخونزادہ
آتش مزاج اور متفرق بودباش میں اپنے آپ میں مگن، ہر محفل میں ۔مقامی اداب محفل کے برخلاف رائی کا اظہار یہ سب عباس کاظمی کی شخصیت کی منفرد پہلو تھے میں جب شعور کی اس منزل کو پہنچا کہ محلے دار ،تعلق دار اور رشتہ دار کو پہچاننے لگے تو عباس کاظمی کو ہر سطح سے مختلف پایا۔پتلون شرٹس اور ٹائی کے ساتھ سر پر ہیڈ، کالا چشمے آنکھوں پر،کھبی کبھار ہاتھ میں سٹک اردو اور انگریزی میں گفتگو، مخصوص دوستوں کے حلقے میں ایک یوروپین ہونے کا ہمیں گمان رہتا تھا ان کی اسی طرز زندگی کو یورپین مصنف مورفی جو 1962 میں سکردو آئی تھی نے عباس کاظمی کی بہت پسند کیا اور عباس کو یورپین اور علاقہ کا وجیہہ شکل قرار دیا ۔زندگی بھر معاشرے کو اپنی ہی انداز اور سوچ سے دیکھتے رہے بلتی ثقافت اور تاریخ کی پروان کیلئے معاشرے سے بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے بلتی لوک گیت پر مفصل کتاب تالیف کردی موسیقی اور اس فن سے وابسطہ فن کاروں کو بلتستان کے طول و ارض سے ڈھونڈ نکالا ، ان کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کرتے رہیں ،بلتی رقص وسرو کی احیا کے لئے خود کوکچھ عناصر کے غیض و غصب میں جونگ دیا ،ایک سو سال بعد مندوق ہلتنمو کھر پوچو سے دوبارہ دوھزار چار میں اہتمام کیا تو عباس کاظمی کو بہت خطوط ملے جس میں گالیوں اور ناسزائوں کے نت نئے الفاظ سے مزین تھے ۔عباس کاظمی اعصاب کے مضبوط تھے ان کو یہ فکر کبھی نہیں رہی کہ لوگ اور معاشرہ ان کے اور ان کے کام کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں بلکہ کاظمی کو اپنے تحقیق اور کام کے تکمیل سے سرکار تھے اس لئے وہ عام لوگوں اور یہاں تک اپنے ہم عصر اور تاریخ و ثقافت سے تعلق افراد سے بھی ناخوش ہوتے تھے ۔بلتی حروف تہجی آگے کی ترویج اور بلتی گرائمر کی تالیف وتدوین کے حوالے سے عباس کاظمی کی خدمات قابل تحسین ہے ایک دفعہ کاظمی نے اپنی تحریر کردہ بلتی آگے گرائمر اسلام آباد سے آئے ہوئے پروفیسر فتح محمد ملک کو سکردو میں پیش کیا تو موصوف نے ان کے اس عمل اسلام اور پاکستان کے خلاف قرار دیا،کاظمی مرحوم اپنی تحقیق اور حاصل مطالعہ کو معاشرہ اور لوگوں میں بلا کسی مصلحت و عذر کے فصاحت وبلاغت سے پیش کرتے تھے انہیں یہ پریشانی کبھی نہیں رہی کہ ان کے تحقیق اور مطالعہ سے اخذ کردہ معلومات معاشرہ اور اہل علم کو قبول نہیں پھربھی ببانگ دہل سے پر چار کرکے لوگوں کو اس پر سوچنے اور فکر کی راہ پر مجبور کرتے رہے ۔ان کے مزاج اور خیالات سے آگاہ کچھ حلقے اپنے عزائم اور مقاصد کیلئے اس جوشیلے، انگار فکر شخص کی اخلاص کو تحقیق اور ثقافت سے ہٹا کر شخصی سیاست کی جانب لے گئے ۔عباس کاظمی ایک ادیب،محقق اور مصنف تھے لیکن اپنی مزاج وطبع کے برخلاف سیاست میں قسمت آزمائی کے لئے مسلم لیگ جونیجو،آل پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف سے وابستہ ہوئے جہاں وہ کامیاب نہ ہوسکا ۔ایک زمانے اہل فکر فورم کی پلیٹ فارم سے چند اہل علم افراد کے ساتھ مخصوص فرد کی مخالفت اور حمایت میں نکلے اسی دوران گلگت میں حلقہ بندی کے مسئلے پر انتخابی عمل سے بائیکاٹ سے مرددباد زندہ باد کا نعرہ عروج پکڑی ہوئی تھی کاظمی مرحوم اہل فکر فورم کی پلیٹ فارم سے اپنا ردعمل دینے میں مصروف رہے۔عباس کاظمی نے بلتستان کی ثقافت اور تاریخ کی تحفظ اور پرچار کیلئے ادارہ سازی بھی کی جس میں بلتستان کلچر اینڈ ڈیولپمنٹ فائونڈیشن اور اسکا ذیلی ادارہ بیدار قابل ذکر ہے جس کی تشکیل کا مقصد بلتستان میں روبہ زوال ثقافت،تاریخ،ڈانس میوزک اور پرانی فن تعمیر کے احیا اور ان کو بحال کرنا شامل تھیں۔عباس کاظمی نے گلگت بلتستان میں ایف۔سی۔آر جیساے کالاقانون کی نفاذ کے خلاف بابو رضا حسین آباد سے ملکر پمفلٹس لکھتے اور کراچی بھیجتے رہے جہاں بابو رضا کے بھائی اور ممتاز مصنف یوسف حسین آبادی زیر تعلیم تھے وہاں سے حسین آبادی ان کی ہدایت اور تجویز کردہ پتے پر کراچی ۔لاہور اور سکردو ڈاک کے ذریعے بھیجتے رہے اسی طرح اس غیر انسانی قوانین کے خلاف عوام اور خواص جوبلتستان سے باہر ملک کے بڑے شہروں میں مقیم تھے کو ایف۔سی۔آر کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار کیے ۔ایک موقع پر کاظمی مرحوم نے ایف ۔سی۔آر کے خلاف اپنی آرٹسٹک صلاحیتوں سے کارٹون بنایا جس میں ایک بلتی نہتے کو ایف ۔سی۔آر کی زنجیروں میں باندھے ہتھوڑے سے بلتی کی پٹائی کی جارہی ہے بیچارہ بلتی آہ پکار کرتا ہے ۔تحریریں عباس کاظمی کی تھی جو بابورضا سے ملکر ایجنسی آفس کی سائیکوسٹائل مشین سے پرنٹ بڑی ہوشیاری اور رازداری سے نکالنا ہوتاتھا اگر اس وقت کی پولیٹیکل انتظامیہ کو خبر ہونے کی صورت میں سزا اور نوکری سے ہاتھ دھونا اٹل تھا لیکن خوف و خطر عباس کاظمی کو کبھی اپنی سرگرمیوں سے روک نہیں سکتے تھے۔مرحوم کی نازک مزاجی کے وجہ سے جلد ناراض ہونا اور منانے پر ناراضگی جلد ختم کرتے تھے،مجھ سے کئی بار ناراض ہوئے اور جلد شفقت بھرے انداز میں دوبارہ حلقہ صحبت میں لے لیتے تھے۔مجھے یہ اطمینان قلب رہے گا کہ ان کے انتقال سے ایک ہفتہ پہلے تفصیل سے نشست رہی اور ایک اہم موضوع پر واضح آگاہی ملی اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے آ مین۔
