گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات

ثروت صبا


ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں تفریح کو انسانی زندگی کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے انسان جب یکسانیت سے اکتا جاتا ہے اور شہروں کی گہما گہمی شور و غل سے بیزار ہوتا ہے تو سکون کی تلاش میں قدرتی ماحول اور خوبصورتی کو دیکھنے کی خواہش کرتا ہے۔اگر سیاحت کے شوقین لوگوں نے گلگت بلتستان کی سیر نہیں کی تو پھر کچھ نہ دیکھا ۔ اللہ تعالی نے جتنی خوبصورتی  اور دلکشی گلگت بلتستان کو دی ہے شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا  ٹکڑا  ہو۔ اس علاقے کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔گلگت بلتستان میں سال کے چاروں موسم آپ کو دعوت نظارہ دیتے ہوئے ملیںگے۔پت جھڑ اور موسم سرما کا حسین امتیاز دیکھنے والوں کو محصور کر دیتا۔وسیع و عریض گلیشیئر ،دریا،ندی نالے، آبشارز، جھیلیں ،اونچے اونچے پہاڑ ،بڑے بڑے میدان ،قدرتی پھول،لذیذ عمدہ پھل، شفاف بہتے پانی کی ندیاں،الغرض دنیا کی ہر نعمت سبحان اللہ جتنا شکر ادا کیا جائے کم۔ قارئین کو بتاتی چلوں کہ کوئی گلگت بلتستان کا  کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں آپ جانے کی تمنا نہ رکھیں۔ گلگت بلتستان کے جس ضلع میں آپ جائیں آپ کو قدرت کے حسین نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔ آپ سکردو جائیں یا ہنزہ، استور جائیں یا دیامیر ،غذر جائیں یا پھر یاسین آپ ان  قدرتی حسین نظاروں سے خوب لطف اندوز ہوں گے۔ کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ ان مشہور مقامات میں فیری میڈو، دیوسائی، راما، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطاء آباد جھیل، شنگریلا، خلتی جھیل، پھنڈر، شندور، ہنزہ بلتت اور التت فورٹ، سکردو میں شگر فورٹ اور گانچھے فورٹ، خپلو میں ہزار سال قدیم مسجد چقچن ۔ منی مرگ استور،اللہ والی جھیل،نواں عجوبہ ڈیچل روڈ اور پھر جنت کا ٹکڑا پہاڑ کے دامن میں  وادی دیچل، نلتر ،پاسو کے مقام پر جس میں لوکل کمیونٹی اور گورنمنٹ  نے مل کر مانٹین  بائی کینگ اینڈ  ایکو فرینڈلی  مائونٹین خصوصی گاڑیوں  کے ذریعے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے شامل ہیں۔ بلند و بالا برفیلے پہاڑ، روح فنا کردینے والی گہری  گھاٹیاں۔ دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم، ہمالیہ اور ہندو کش کا سنگم ، دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو ، نانگا پربت  جسے قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔دنیا کے طویل ترین اور بڑے گلیشیئرز ، سیاچن کے علاوہ ہسپر، بتورہ اور بلتور اور دنیا کی آٹھ بلند ترین چوٹیاں گلگت بلتستان میں واقع ہیں جن میں کے ٹو، نانگا پربت اور راکا پوشی کے علاوہ گشا بروم، براڈ پیک اور مشابروم چوٹیاں بھی شامل ہیں ۔ جنہیں سر کرنے کے لیے ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی کوہ پیما اور سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔گلگت بلتستان کے ہیرو علی سد پارہ اپنے تین غیر ملکی ساتھیوں سمیت انہی پہاڑوں کی آغوش میں سوگئے۔  غذر میں خلتی جھیل سطح سمندر سے 7273فٹ بلندی پر واقع ہے اور اس کی گہرائی اندازا 80 فٹ ہے۔ یہاں سردیوں میں درج حرارت منفی پندرہ درجے تک گر جاتا ہے۔ اس قدر شدید سردی کے باعث دسمبر کے آغاز سے جھیل یخ بستہ ہو جاتی ہے۔ برف سردی کی شدت اضافے کے ساتھ ساتھ سخت اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ مقامی لوگ منجمد جھیل کی مضبوطی کا اندازہ لگاتے ہی اسے کھیل کے میدان میں بدل دیتے ہیں اس سال وزیر اعلی خالد خورشید اور صدر مملکت  پاکستان نے جھیل میں سجے میلے میں خصوصی شرکت کی جس سے نہ صرف علاقے کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ نیشنل اور انٹر نیشنل لیول پر شہرت بھی ہوئی۔وزیر اعلی خالد خورشید سیاحت کے فروغ کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتے اور اپنے دور حکومت میں گلگت بلتستان کی سیاحت کو فروغ دینے اور ریونیو بڑھانے کا عزم رکھتے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے سیاحت کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں دور کرنے کا عزم کیا ہے،سیاحتی پالیسیوں میں اصلاحات کی جائیںگی ۔ نئی جگہوں کو ایکسپلور کرنے اورآمدن کو بڑھانے کے لیے امداد فراہم کی جائے گی۔سیاحت کے فروغ کے لیے 190 ممالک کے لیے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت 175 ممالک کے شہریوں کو ای ویزا کی سہولت فراہم کی جائے گی ۔خواتین اور نوجوانوں کو بغیر سود قرض دیا جائے گا ہنرمند خواتین کو فنانشل پیکجز دیے جائیںگے تاکہ علاقے کی ثقافتی مصنوعات کو فروغ حاصل ہو گیسٹ ہائوس بنانے کے لئے نوجوانوں کو پیکجز ملیںگے اور سرکاری طور پر سیاحتی مقامات پر لائٹنگ اور کچرا دان رکھے جائیں گے۔وزیرِاعظم  ذاتی طور پر سیاحت پر توجہ دیتے ہیں ۔سیاحت کے حوالے سے اقدامات پر عمل درآمد  اگر ہم نہ کرا سکے تو پھر شاید کبھی دوبارہ یہ نہیں ہوسکے گا۔