کچورا جھیل سانحہ

ناصر رینگچن
یہ اکیس اگست کی شام کو پیش آنے والا واقعہ ہے، مغربین کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آج شام کو جھیل پر ایک سانحہ پیش آیا ہے جس میں ایک نوجوان لاپتہ ہے۔ کچھ تفصیلات معلوم کیں تو معلوم ہوا کہ دو نوجوان ہاشم اور علی کشتی میں سوار ہو کر گئے تھے جس کے بعد کیسے اور کس طرح واقعہ پیش آیا یہ نہیں معلوم چونکہ اس حوالے سے متضاد خبریں ہیں، خلاصہ یہ کہ ان دو نوجوانوں میں سے علی بچ جاتا ہے اور ہاشم لاپتہ ہوتا ہے۔ یہ خبر دھیرے دھیرے لوگوں تک پہنچتی ہے اور لوگ جھیل کا رخ کرتے ہیں۔ اس دن سے آج تک یعنی اٹھارہ دن گزر گئے ہیں مگر ہاشم کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔کچورا جھیل سے لاپتہ نوجوان  ہاشم کے والد، والدہ،  زوجہ اور معصوم بچوں نے 17 دن تک اپنے لخت جگر کو تلاش کرنے کے بعد، تمام ذرائع بروئے کار لانے کے بعد جب ان کے جوان کے حوالے سے کوئی کامیابی نہ ملنے پر آج اپنی فریاد درخواست کی صورت میں ایس پی  راجہ مرزا حسن کے حضور پیش کی۔ایس پی صاحب نے جب ان کی فریاد سنی تو خود کھڑے ہو کے ان کو تسلی دی معصوم بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور یہ یقین دلایا کہ وہ اس کیس کو آخری انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے اور کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہونے نہیں دیں گے۔ہم ایس پی صاحب کے مشکور ہیں اور امید بھی کرتے ہیں کہ کیس احسن طریقے سے اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔لیکن ایک بات کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس سانحہ کو ہوئے اٹھارہ دن گزر گئے ہیں مگر ابھی تک علاقائی انتظامیہ کو کوئی خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔معاملہ کا ایک ہی عینی شاہد موجود ہے جس کا ذکر اس درخواست میں بھی ہے۔ایک عینی شاہد کے موجود ہونے کے باوجود ابھی تک معاملہ کی تہہ تک نہ پہنچنے پر بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں اور کچورا کے عوام میں ایک غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس وقت بعض سوالات جو عوامی حلقوں میں ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔واقعہ کا عینی شاہد اور سانحہ کے وقت ہاشم کا ساتھی موجود ہونے کے باوجود ابھی تک واقعہ کی اصل جگہ  کا تعین نہیں ہوا، آخر کیوں؟ اس شخص کے بیانات متضاد کیوں ہیں؟جو افراد اس وقت سانحے کے مقام پر پہنچا اور علی کو ریسکیو کیا، اس کے بیانات کیا ہیں؟ کیا وہ لوگ جانتے تھے کہ علی کے ساتھ ہاشم بھی تھا؟ اگر نہیں جانتے تھے تو ان کو کب علم ہوا؟ اگر جانتے تھے تو کیا انہوں نے بروقت اس کی تلاش شروع کر دی تھی؟ کیا فوری طور پر عوام اور انتظامیہ کو مطلع کیا تھا؟ایک ماہر تیراک ڈوب جاتا ہے لیکن اناڑی بچ کیسے جاتا ہے؟ کشتی کو تو ہوا دوسری طرف لے جاتی ہے بقول لوگوں کے لیکن ھاشم کے دونوں جوتے کچھ ہی فاصلے پر کیوں؟ کچورا پولیس نے اب تک کیا پیشرفت کی ہے؟ پولیس حقائق اگلوانے میں ناکام کیوں ہے؟ اس اہم موقع پر کچورا ایس ایچ او کا تبادلہ کیا معنی رکھتا ہے؟ وزیر اعلی نے احکامات جاری کئے تھے ان کا کیا بنا؟ کیا وزیر اعلی کے حکم کی کوئی اہمیت نہیں؟ جھیل میں اب تک کئی حادثے ہوچکے ہیں اور سب کی لاشیں نکالی جاچکی ہے لیکن ہاشم اٹھارہ دنوں سے جھیل میں لاپتہ کیوں ہے؟ پوری جھیل میں ہل چلایا جاچکا ہے لیکن کوئی ایک ثبوت ابھی تک ہاتھ نہیں لگا۔ کیا ایک ٹھہرے ہوئے پانی سے کسی کو نکالنا اتنا مشکل ہے؟ پاکستان نیوی سے مدد مانگی تھی ابھی تک ان کی ٹیم کیوں نہیں پہنچی؟ نیوی والوں سے درخواست قبول کرنے کے بعد ابھی تک ٹیم نہ بھیجنا نیوی کی کارکردگی اور عوام دوست ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔ اور بہت سارے سوالات۔۔۔۔ لہذا اس وقت میں کچورا پولیس، سکردو انتظامیہ، وزیر اعلی، وزیر سیاحت، وزیر زراعت سمیت تمام لوگوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ خدا را اس مسئلہ کو حل کرنے کی جانب اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں چونکہ اس سانحہ کی شفاف تحقیق اور لاپتہ نوجوان کے حوالے سے صحیح معلومات منظر عام پر لانا انتہائی ضروری ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں مستقبل میں بھی ایسے سانحات رونما ہوسکتے ہیں جس سے نہ صرف کچورا بلکہ پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔یہ واقعہ اور سوالات ایک طرف، بلتستان ریسکیو ٹیم اور ٹورسٹ ڈیپارٹمنٹ کی نالائقی ایک طرف۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ پورے گلگت بلتستان میں ایک تیراک بھی موجود نہیں جو چالیس سے پچاس فٹ پانی میں اتر سکے۔ ہم کس منہ سے پھر سیاحت کے فروغ اور ریسکیو کی باتیں کرتے ہیں؟ ہم سیاحوں کو بلاتے تو ہیں لیکن ان کی سہولیات کے حوالے سے اقدامات کے بجائے عوامی رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم نے ریسکیو ٹیم تو بنا دی ہے، مراعات تنخواہیں تو جاری کر دی ہیں مگر نہ ان کے پاس ریسکیو کا سامان ہے نہ یہ لوگ تربیت یافتہ ہیں۔ کیا ہمارے محکمے صرف تنخواہیں لینے کے لئے بنے ہیں۔ گلگت بلتستان ٹورازم کا حب ہے اگر ہم نے واقعتا ٹورازم کو فروغ دینا ہے تو پھر پہلے ٹورازم کے حوالے سے ضروریات کو پورا کرنا ہوگا۔ مری کا سانحہ ہمارے سامنے ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے ہونگے تاکہ مستقبل میں کسی ناخوشگوار سانحے سے بچا جاسکے۔ گلگت بلتستان میں ہر جگہ پانی ہی پانی ہے کہی دریا تو کہیں جھیلیں ہیں ایسے مقامات پر خصوصا ٹورسٹ پوائنٹس پر کسی بھی طرح کے سانحات سے نمٹنے کے لئے ضروری لوازمات کا ہونا ضروری ہے۔آج اگر جھیلوں پر تربیت یافتہ تیراک ہوتے تو شاید ہاشم لاپتہ نہ ہوتا۔ انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کو قبل از وقت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ ایک ہائی کوالیفائیڈ تیراک ٹیم یا خوطہ خوروں کی ٹیم کو تشکیل دیں جو گلگت بلتستان میں سانحہ پیش آنے پر بروقت ریسکیو کے لئے پہنچ سکیں۔ ہمارے لئے شرم کی بات ہے کہ ہمارے پاس ٹیلنٹڈ نوجوان موجود ہیں مگر ان کی تربیت کرنے والا اور ان کو لوازمات مہیا کرنے والا کوئی موجود نہیں۔ آج ہم ایک تیراک کے لئے ہر صوبے کا، ہر محکمے کا در کھٹکھٹا تے ہیں اور ہماری فریاد سنے والا کوئی نہیں۔