محمد قاسم نسیم
سید محمد عباس کاظمی بھی داغ ِ مفارقت دے گئے ۔دل و دماغ نے ابھی تک قبول نہیں کیا ہے کہ کاظمی صاحب اس دار ِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں لہذا انہیں مرحوم لکھتے ہوئے ابھی قلم لرز رہا ہے۔ وفات سے فقط تین دن پہلے کی بات ہے آپ ملاقات کے لئے دفتر تشریف لائے تھے۔ نوجوان شاعر تہذیب الحسن بھی بیٹھے تھے ۔ آپ کو یہ گِلہ تھا کہ عشرہ محرم کے دوران علیل رہے مگر کسی قلم کار دوست نے عیادت نہیں کی اب طبیعت سنبھل گئی تو خود سے ملنے آیا ہوں۔ تواُن سے یہ گزارش کی تھی کہ ایک تو آپ کی طبیعت کی ناسازی کا سُنا نہیں تھا ویسے کیونکہ آپ کو علی شیر خان انچن پر میری کتاب کی آمد کا شدت سے انتظار تھا تو سوچ رکھا تھا کہ جوں ہی کتاب آجائے وہ لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاﺅں گا۔اس نشست میں کافی دیر علمی ادبی سرگرمیوں سے متعلق گفتگو ہوتی رہی ۔ یہی نشست میرے ساتھ اُن کی زندگی کی آخری ملاقات ثابت ہوئی۔اس ملاقات کے ایک روز بعد اُنہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگایا جس میں میرے خاندانی پس منظر کو تاریخی کتب کے حوالے سے بیان کیا تھا ۔اُن کے دل میں میرے لئے موجود شفقت اور محبت کے جذبات اس پوسٹ کے ایک ایک جملے سے جھلک رہا تھا اُسے محسوس کرنا میرے لئے زیادہ مشکل نہ تھا۔مگر کوئی بھی یہ سمجھنے سے یکسر قاصر تھا کہ جس طرح میرے دفتر ایک روز قبل اُن سے ہونے والی ملاقات اُن کی زندگی کی آخری ملاقات ہوسکتی ہے اسی طرح سوشل میڈیا پر اُن کی یہ پوسٹ بھی نہ صرف میرے متعلق بلکہ کسی بھی موضوع پر اُن کی زندگی کاآخری پوسٹ ثابت ہوگا۔خاص کراُن کی زندگی کے آخری دنوں میں کاظمی صاحب کی بندہ ناچیز کے ساتھ اس نوعیت کے احترام کاجو تعلق رہا وہ اُن کی اچانک موت کے صدمے کو اور بڑھانے باعث بنا ۔یوں تو عباس کاظمی صاحب سے رفاقت کا سلسلہ پچھلے 31 سالوں پر محیط ہے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے کہ جب 1991ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے اپنے ایم اے کے تحقیقی مقالے ” بلتستان کاسیاسی نظام“کے لئے تحقیق کا کام کر رہا تھا۔اس دوران اُن سے شرف ملاقات اور انٹرویو کا موقع میسر آیا۔بعد میں اس تحقیقی مقالے کو کتابی صورت دیتے ہوئے وقتاً فوقتاً اُن سے ملاقات اورتاریخ ، تہذیب و تمدن اور سیاسی و جمہوری نظام سے متعلق موضوعات پر طویل گفتگو اور بحث روز کا معمول بن چکا تھا۔اسی عرصے میں معاشرے میں فکری اور شعوری بیداری کے لئے چند دیگر اہل قلم اور دانش دوستوں کے ساتھ مل کر ”اہل فکر فورم “ تشکیل دینے کا بھی اتفاق ہوااور معاشرے میں بے شعوری اور جمود و جہالت کے خلاف قلمی جد وجہد کی۔ اس فورم نے بلتستان کی کئی وادیوں میں اُس وقت درپیش صورت حال کے پیش نظر اتحاد بین المسلمین کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا ۔یوں گلگت بلتستان کی تاریخ ،تہذیب و ثقافت اور سیاسی جد وجہد سے متعلق اِن سے طویل نشستیں ہوتی رہتی تھی ۔میری کتاب ”گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر“ اور اخباری کالموں جن میں میرے نوے فیصد کالموں کا موضوع گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت ہوتا تھا ۔ اس مسئلے کے تاریخی پس منظر اور مسئلے کے حل کے ممکنہ آپشنز سے متعلق میرے اور کاظمی صاحب کی سوچ میں اختلاف رہا جن کے لئے دونوں کے پاس اپنے اپنے دلائل تھے چونکہ یہ فکری اختلاف دلائل اور منطق کی بنیاد پرتھا لہذا اُنکی زندگی کے آخری لمحات تک سوچ اور فکر کے یہ فاصلے ختم نہیں ہوسکے۔ سید عباس کاظمی صاحب معاشرے کی عام روش سے ہٹ کر جینے والے شخص تھے۔وہ طبیعتاً سخت مزاج کے حامل ہونے کے ناتے اپنے موقف اور ضمیر کی آواز پر ڈٹ جانے کے لئے مشہور تھے ۔ اُن کی ڈکشنری میں مصلحت اور اصولوں پر سود بازی نام کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ اپنی اس طبیعت کی انہوں نے زندگی میں بھاری قیمت بھی چکائی اور معاشرے سے قدرے فاصلے پر رہنے کے باوجود کبھی اپنی ضمیر کی آواز کے خلاف جانے کا سوچا بھی نہیں ۔ انہی جیسے معاملات کے پیش نظر درمیان میں ہمارے تعلقات میں بھی مد و جذر آتے رہے لیکن بلتستان کے نامور حکمران علی شیر خان انچن کی ذات اور شخصیت میں ایسا جادو تھا کہ اس شخصیت کے سحر میں اہل بلتستان کی بڑی اکثریت کی طرح ہم دونوں بھی بری طرح گرفتا ر تھے۔چار سال قبل جب میں نے بلتستان کے بے مثل حکمرن علی شیر خان پر تحقیق اور کتاب پر کام شروع کردیا تو یہی تحقیق پھر سے کاظمی صاحب کے ساتھ قربت اور طویل نشستوںکا زریعہ ثابت ہوئیں۔ کاظمی صاحب کو جب علم ہوا کہ میں علی شیر خان انچن پر کام کررہا ہوں تو اُنکی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔اُن کا کہنا تھا کہ علی شیر خان انچن میری پسندیدہ ترین اور آئیڈیل شخصیت ہیں ۔ جوانی کے دور سے ہی میری خواہش رہی کہ میں انچن پر تحقیق کرکے ایسے کتابی صورت میں محفوظ کروں۔ کچھ عرصہ اس پر کام بھی کیا مگر دیگر مصروفیات نے مجھے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے نہیں دیا۔ اب آپ نے اس کام کو شروع کیا ہے تو گویا مجھے میرے خواب کی تعبیر ملنے والی ہے میں اس کام میں آپ کے ساتھ بھر پور تعاون کروں گا۔اپنے اس عہد کو نبھاتے ہوئے انہوں نے نایاب کتابوں کے حوالے نکال کر دئے۔انہوں نے کتاب کے مسودے کا تفصیلی مطالعہ کرکے اس میں بہتری کے لئے تجاویز دیں۔کتاب پر اپنا تفصیلی تبصرہ بھی تحریر کر کے دیا جو کتاب میں شامل اشاعت ہے۔ جس سے کی اہمیت و افادیت میں اور زیادہ اضافہ ہوا ۔ مرحوم کو مذکورہ کتاب کے شائع ہو کر آنے کا شدت سے انتظارتھا۔ وہ بار بار اس عزم کا اظہار کرتے تھے کہ کتاب کی مارکیٹ میں آنے کے ساتھ ہی اس کی اہمیت و افادیت پرسوشل میڈیااور پرنٹ میڈیا میں مضمون شائع کرائیں گے اور کتاب کی رونمائی کی تقریب میں بھی دل کھول کر تبصرے کے خواہاں تھے مگر اُن کی زندگی نے انہیں مہلت نہ دی ۔سید عباس کاظمی صاحب انتھک قسم کی شخصیت کے مالک تھے ۔ وہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد سے اپنے آپ کو مطالعے اورتحقیق و تالیف کے لئے وقف کئے ہوئے تھے ۔ نہ صرف بیک وقت کئی کتابوں پر کام کررہے تھے بلکہ کئی بین الاقوامی جریدوں کے لئے بھی تحقیقی مضامین لکھتے رہتے تھے۔ اب تک ان جو کتابیں شائع ہوکر مارکیٹ میں موجود ہیں اُن میں پاکستان لوک ورثہ کی جانب سے شائع شدہ کتاب ”بلتی لوک گیت“ اُن کی اولین کتاب ہے ۔ اس کے بعد” آثار و اَجداد امام خمینی “،”خطہ قراقرم قدرتی وسائل کا خزانہ“ ”کیسر سن آف گاڈ“اور ”چھٹے دلائی لامہ کی رومانوی شاعری“ شامل ہیں۔ اُن کی زیر طبع کتابوں میںکیسر کی پہلے سے مارکیٹ میں موجود انگریزی زبان میں موجود کتاب کو عام قارئین تک پہنچانے کے لئے اس کا اردو ترجمہ شائع کرنے کے خواہاں تھے اور خواہش ظاہر کرتے رہے تھے کہ کیسر کے اردو ایڈیشن کو میں اپنے ادارے کی جانب سے شائع کرادوں ۔22 اگست کو میرے ساتھ ہونے والی اُن کی آخری ملاقات میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ کیسر اردو ایڈیشن کا موادمکمل تیار کرچکا ہوں۔انھوں نے ماضی میں کئی بار تذکرہ کیا تھا کہ حیات وقیام امام حسینؑ اور حیات امام خمینی ؒ پر علیحدہ علیحدہ کتاب کا مسودہ تیار ہے مناسب موقع پر شائع کرالوں گا۔ لگ بھگ دو ڈھائی سال قبل انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ حیات امام حسینؑ پر تیار کردہ مسودہ کو میں ایک بار پڑھ لوں ۔ میںنے کتاب کے موضوع کے پیش نظر مخلصانہ مشورہ یہ دیا تھا کہ لسانی تصحیح کے لئے پروفیسر حشمت کمال الہامی مناسب ترین شخصیت ہیں اور موضوع پر نظرثانی کے لئے کسی نامور عالم دین کی خدمات حاصل کی جائیں لیکن انہوں نے غالباً اس مشورے سے اتفاق نہیں کیا۔سید محمد عباس کاظمی خوش نویس تھے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں خوش نویسی کرنے کے ساتھ ساتھ خطاطی اور مصوری کے بھی ماہر تھے۔ آپ بلتی زبان کے اصل رسم الخط اَگے کے بھی ماہر تھے اور عمر بھر اسی رسم الخط کو عام اوررائج کرنے کے خواہاں رہے ۔ علمی اور ادبی شعبے کے ساتھ ساتھ خطے کی تہذیب وثقافت کے تحفظ اور فروغ کے لئے گراں قدر خدمات کو مقامی، علاقائی اور ملکی سطح پر اعتراف کیا گیا ہو یا کہ نہیں بین الاقوامی سطح اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُنہیں” آنریبل“ کا خطاب دیا گیا ہے ۔ یہ خطاب اُنہیں سال 2009 میں کلاسیکی موسیقی کے موضوع پرجاپان میں یونیسکو کے زیر اہتمام ہونے والے عالمی سمپوزیم کے موقع پر دیا گیا۔