رویہ اور کامیابی


  ایک مثبت رویہ آپ کو زندگی کے روزمرہ معاملات میں مشکلات کا آسانی سے مقابلہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ آپ کی زندگی میں امید لاتا ہے اور پریشانیوں ،منفی سوچوں سے بچنا آسان بنا دیتا ہے۔ اگر آپ اسے زندگی گزارنے کے طور پر اپناتے ہیں تو یہ آپ کی زندگی میں تعمیری تبدیلیاں لائے گا اور اسے خوش کن، روشن اور کامیاب بنائے گا۔ مثبت رویہ کے ساتھ آپ زندگی کا ہر روشن پہلو دیکھتے ہیں ، پر امید ہو جاتے ہیں  اور بہتر ہونے کی توقع کرے ہیں۔اگر ہم کامیابی و ناکامی کی اصل وجوہات کی تلاش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے پس پردہ انسانی سوچ ہی ہے، جو انسان کو کامیاب و ناکام بناتی ہے۔ اگر آپ کاروباری شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور کامیاب بزنس مین بننا چاہتے ہیں تو بادشاہوں والی سوچ پیدا کرنا بے حد ضروری ہے۔جس طرح گدا گر ساری زندگی مانگنے والی سوچ سے باہر نکل کر کامیاب نہیں بن سکتا اسی طرح بزنس مین اپنی بہترین سوچ و خیالات سے اپنے حالات بدل سکتا ہے کیوں کہ انسان حالات کا نہیں خیالات کی پیداوار ہے۔ کیا  آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں ایک جیسے دکھنے والے انسانوں میں کچھ غریب اور کچھ امیر کیوں ہوتے ہیں؟یہ  اس لیے ہے کہ انسانوں کے سوچنے کے طریقے مختلف ہیں، آج دنیا میں ایک دلچسپ موضوع یہ ہے کہ کیسے لوگ امیر ہو جاتے ہیں؟  وہ کیا عوامل ہیں جس سے لوگ ساری زندگی غریب رہتے ہیں؟  کاروباری اور پیسے کی دنیا میں آپ کو  دو طرح کے لوگ ملتے ہیں۔  ایک وہ جو غریبی سے امیری کے سفر میں بذات خود کٹھن حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مستقبل مزاجی سے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور اس سفر میں آنے والی پریشانیوں،  مصیبتوں سے نہیں گھبراتے بالآخر یہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنی ساری عمر سہل پسندی  میں گزار دیتے ہیں۔ جب کامیابی ان سے ایک قدم دور ہوتی ہے یہ چند دائروں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ اگر ا ن دونوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو امیر اور غریب کا فرق آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت سے کام ہیں جن سے امیری اور غریبی کے فرق کی پہچان کی جاسکتی ہے۔ آئیے امیر غریب کی ان نشانیوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ امیر آدمی کی زندگی پلاننگ اور مقاصد سے بھرپور ہوتی ہے،  وہ زندگی مقاصد کے حصول کے لیے گزارتا ہے۔ جبکہ غریب آدمی کی زندگی میں کوئی مقصد، کوئی وژن نہیںہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ غریب آدمی زندگی کو نہیں بلکہ زندگی اسے گزار رہی ہوتی ہے۔ امیر آدمی اپنی زندگی خود تخلیق کرتا ہے۔ یہ اپنے کام سے محبت کرتا ہے، نئے آئیڈیاز تلاش کرتا ہے، کتابیں پڑھتا ہے، قابل لوگوں سے ملتا ہے، ان کی عادتیں اپناتا ہے، ا ن سے کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہ بڑے خواب دیکھتا ہے اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کمر کس لیتا ہے۔ کامیاب آدمی ہمیشہ آسان میدانوں سے باہر نکل کر کھیلنے کا عادی ہوتا ہے اور اس  کے لیے وہ جلد آئوٹ ہوجانے سے بھی نہیں ڈرتا۔ یہ نئے کاروبار سیکھتا ہے جبکہ غریب آدمی جینے کے آسرے ڈھونڈتا ہے۔ یہ خواب تو دیکھتا ہے مگر یہ خواب بڑے نہیں ہوتے۔ ناکام آدمی کی سوچ کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔یہ ہمیشہ ہار جانے ، ناکام ہوجانے اور پر خطر راستہ  لینے سے خوف کھاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی تار یخ میں ایسا کوئی کامیاب انسان نہیں گزرا، جس نے اول جست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ کامیابی خطرات مول لینے کے بعد ملتی ہے۔ کامیاب آدمی اپنے وقت کا درست استعمال کرتا ہے۔ یہ اپنے  دل دماغ میں بٹھا دیتا ہے کہ دنیا مواقعوں کا بازار ہے۔ یہاں سے جتنا مال خرید سکتے ہو خرید لو ، یہ مواقعوں کے اس بازار میں کسی سے حسد نہیں کرتا بلکہ اپنے سے زیادہ کامیاب لوگوں کی صحبت تلاش کرتا ہے اور ان میں جڑ جاتا ہے۔ یہ قابل لوگوں سے تعلقات بناتا ہے اور قابلیت کے اس بازار میں ہر دکان سے کچھ نہ کچھ ضرور لیتا رہتا ہے جب وہ بازار سے باہر آتا ہے تو اس کی کاروباری صلاحیتیں نکھری ہوئی ہوتی ہیں یہ اپنی زندگی میں بہتری محسوس کرتا ہے پھر یہ نئے راستوں پے چل کر نئی منزلیں پا لیتا ہے، اس کے بر عکس نکما آدمی موقعوں کے بازار سے خالی ہاتھ لوٹ آتا ہے۔ یہ ان مواقوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور انہیں بیکار سممجھتا ہے  یہ بھی کامیاب لوگوں کی طرح زار تو جاتا ہے مگر حسد کی آگ میں جل کر خاکستر لوٹتا ہے، یہ اپنی ساری توانائیاں حسد کرنے میں ضائع کردیتا ہے نکما  آدمی  کیونکہ ایک مخصوس دائرہ تک سیکھتا ہے اسی لیئے یہ بڑ ی کامیابی حاصل نہیں کر پاتا۔ کامیاب آدمی کی کامیابی کا راز اس کے آس پاس کے لوگ ہوتے ہیں یہ قابل لوگوں سے دوستی کرتا ہے' سازگار ماحول میں رہتا ہے قابل لوگ ایسے ماحول سے ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں، جدوجہد کرنے ،لڑنے،گھبرانے،ہمت و حوصلہ کی باتیں کرتے ہیں ایسے ماحول کے نتائج حیران کن ہوتے ہیں یہ کامیاب سوچ کو جنم دیتے ہیں پھر انسان محدود سوچ سے بھی کامیابی کی طرف رواں ہوجاتا ہے اور آسانیاں اس کے ساتھ چلتی رہتی ہیں،  ناکام لوگ زندگی کا ابتدائی وقت کھیل کود ، سیر و تفریح،  سونے اور غفلت میں گزار دیتے ہیں جس کی وجہ سے آنے والی زندگی کو لہو کا بیل بن کر رہ جاتی ہے ناکام آدمی محنت تو کرتا ہے لیکن اس محنت کا صلہ اسے نہیں ملتا ایسے میں اسے مایوسی گھیر لیتی ہے اور پھر یہ اسے مایوسی کے جال میں جکڑ لیتی ہے ۔ کامیاب اور ناکام آدمی میںایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ خوشحال آدمی پیسے کو اہمیت دیتا ہے یہ پیسے سے پیسہ کماتا ہے کچھ خرچ کرتا ہے کچھ جمع کرتا ہے اور کچھ کاروبار میں لگا دیتا ہے جب کہ غریب آدمی پیسہ خرچ کرنے کے لئے کماتا ہے۔ یہ پیسے کو ہاتھ کی میل سمجھ کر واقعی ہاتھ کی میل کی طرح جیب سے صاف کردیتا ہے، یہ فضول خرچی کو بھی اپنی سخاوت و دریا دلی سمجھ کر خوش ہوتا ہے، نہ خریدنے والی اشیاء کو جمع کرلیتا ہے، پھر ضروری چیزوں کے لیے پیسے کی محتاجی اسے کھا جاتی ہے، اسی وجہ سے غریب آدمی اپنی آمدن سے اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے پاس اضافی بچت نہیں ہوتی۔ اگر آپ بھی کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنی سوچ کو بدلیں۔ حالات اپنے آپ مڑ جائیں گے پھر خیالات کا بدلنا انتہائی آسان ہوجائے گا مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ خوداری،صبر، ایمانداری اور امید کو بھی اپناتے چلیں ، خود داری انسان کو اپنی ادنی اور اعلیٰ صلاحیتوں پر بھروسہ دلاتی  اور انسان اسی خودی کی وجہ سے محنت کی طرف راغب ہوتا ہے کیونکہ خودی انسان کو سکھاتی ہے کہ مالک کل صرف اللہ کی ذات ہے، اگر اللہ نے اسکے نصیب میں کامیابی لکھی ہے تو بلا آخر اس کو مل کر رہے گی۔ قرآن پاک میں خداوند کریم نے ارشاد کیا ہے ترجمہ۔ یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کی روشنی میں یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ پاک کامیابی صرف اور صرف اس قوم اور فرد کو دیتا ہے جو محنت کے ساتھ ساتھ صبر کا دامن بھی تھامے رہتے ہیں نہ کہ ان کو جو بہت جلد اپنی دنیاوی کوششوں کے باوجود اپنی مرادیں نہ بر آنے پر مایوس ہوجاتے ہیں اور خدا سے بدگمان بھی ہوجاتے ہیں ایسے افراد دینی اور دنیاوی لحاظ سے سراسر خسارہ میں ہیں۔ایمانداری: انسان کسی بھی شعبہ میں ہو ایمانداری اس کے لیے لازم و ملزم ہے ، ایمانداری سے انسان کے کاروبار، رزق و  روزی میں برکت آتی ہے ایمانداری انسان کے اوصاف کا حصہ بن جائے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اسکی مدد کرتا ہے، امید جس طرح خزاں رسیدہ پتے درختوں کی ٹہنیوں سے جدا ہوجاتے ہیں لیکن آنے والی بہار میں وہی ٹہنیاں پھر سے ہری بھری ہو کر خدا پر یقین ہونے کاثبوت دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح حالات بدل بدل کر ہمارا امتحان لیتا ہے اور ہمیں پیغام دیتا ہے کہ جتنی بھی پریشانی ہو اللہ تعالیٰ سے امید تر ک نہیں کرنی چاہیے۔یاد رہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور کوشش کے بعد بھی نہ ملے تو نا امید نہ ہو بلکہ کوشش تیز کردیں یا راستے بدلیں۔