پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا

برےگےڈئر مسعود احمد

سلطنت ِ عثمانیہ کی تحلیل کے بعدبرطانیہ نے2نومبر 1917کے بالفور معاہدے میں فلسطین کو یہودیوں کی سرزمین قرار دیا۔ اس کے بعد فلسطین کی طرف یہودیوں کی بڑی ہجرت کا آغاز ہوا۔ تقریباََ750,000 فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا، اور اسی معاہدے نے فلسطینیوں کو قانونی پشت پناہی کے ساتھ بے گھر کئے جانے کی راہ ہموار کی۔ جب اسرائیل ایک یہودی مملکت قرار دے دی گئی تو اس نے اپنی پہلی جنگ 1948میں لڑی، اس کے بعد1956میں غزہ پٹی اورجزیرہ نما سیناپر قبضہ کیا۔ 1967میں اسرائیل نے اپنے ہمسایہ ممالک سے 6دن کی جنگ لڑی۔ اور پھر1968میں مصر پر تابڑ توڑ حملے کئے۔ 1973میںمصر کی فوج سوئیز کنال کے راستے اسرائیل پر حملہ آور ہوئی جس کے نتیجے میں کچھ اور عرب علاقہ اسرائیل کے ہاتھ آ گیا، اور اس نے اپنی سرحدیں سوئیز کنال اور دریائے اردن تک بڑھا لیں، اور ساتھ ہی گولان کی پہاڑیاں اور مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا۔ مصر اور شام کی طرف سے لڑتے ہوئے 1967سے 1973تک پاکستانی فضائیہ نے اسرائیل کے 10جنگی طیارے مار گرائے۔ 26مارچ 1979میں اسرائیل اور مصر کے درمیان کیمپ ڈیوڈ امریکہ کے مقام پرایک معروف امن معاہدہ طے ہوا جس کے نتیجے میں جزیرہ نما سینا سے اسرائیلی فوج کا انخلاءشروع ہوا۔مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا اور اس کے بعد1994میں اردن نے اور حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اسرائیل کی ریاست بن جانے کے بعد اس کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے قائدِاعظم کو ایک ٹیلی گرام بھیجا اور کہا کے پاکستان اور اسرائیل کو سفارتی تعلقات قائم کرنے چاہئےں۔ قائدِ اعظم نے اس ٹیلی گرام کا کوئی جواب نہ دیا۔ 1950میں لیاقت علی خان کے امریکہ دورے کے بعد ان سے یہ وعدہ کیا گیا کہ امریکہ پاکستان کی ہر ممکن معاشی اور فوجی مدد کرے گا، اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ لیکن پاکستان نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کا کوئی شہری اس یہودی ریاست میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے پاسپورٹ پر تحریر ہے کہ ” یہ پاسپورٹ دنیا کے ہر ملک کے لئے نافذالعمل ہے، سوائے اسرائیل کے“۔ 1950میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد سے ہی، بھارت اور اسرائیل کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی پاور پلانٹ کہوٹا پر حملے کی منصوبہ بندی کی۔ اسرائیلی وزارت ِ دفاع کے مطابق اسرائیل اس حد تک چلا گیا تھا کہ اس نے اپنے پائلٹس کی ٹریننگ کے لئے جنوبی اسرائیل میں صحرائے نیگیو میں کہوٹا پاور پلانٹ کاپوراماڈل تیار کر رکھا تھا۔ یہ حملہ بھارتی گجرات کے شہر جمناگڑھ سے ہونا طے پایا تھا۔ لیکن اس پر عمل اس وجہ سے نہیں ہوا کہ پاکستان نے صاف پیغام دیا کہ ہماری سرزمین کے خلاف ایسی کارروائی اعلانِ جنگ تصور کی جائے گی۔ 1998میںپاکستان کے ایٹمی دھماکہ کرنے سے کچھ دن پہلے، ایک اسرائیلی اےف سولہ طیارہ پاکستان کی حدود میں دیکھا گیا۔ بھارت کے حالیہ حملے جس میں انہوں پاکستان کے درختوں کو نشانہ بنایا، اس میں بھی اسرائیلی SPICE-2000میزائل نصب تھے۔ پاک بھارت کشیدگی کے دوران ایک معروف صحافی روبرٹ فسک نے لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں بڑا کردار اسرائیل اداکر رہا ہے۔ مسلم ممالک میں سب سے پہلے ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور دونوں ممالک نے اپنی تجارتی اور سفارتی تعلقات ترجیحی بنیادوں پر استوار کئے۔ اردگان کے دورِحکومت میں ترکی اسرائیل سے دورہو رہاہے، بلکہ اسرائیل کو پورے خطے میں قیام ِ امن کے لئے خطرہ تصور کر رہا ہے۔ عرب دنیاکی اسرائیل مخالف سوچ میں گزشتہ چند سال میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ عرب ممالک معاشی اور سیاسی مفادات کے لئے اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے ہےں۔ ایسا لگ رہاہے کہ مسئلہ فلسطین اب ان کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے ، اور مزید کچھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہےں۔ مبینہ طور پر سعودی شہزادے اور اسرائیل کے وزیرِاعظم نیتن یاہو کے درمیان تبوک کے شہر نیوم میں ایک خفیہ ملاقات ہوئی جس میں سیکرٹری پومپیو اور موساد کے سربراہ بھی شریک تھے۔ سعودی حکومت نے ایسی کسی ملاقات کی تردید کی ہے ۔اب اچانک سعودی حکومت کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کاکوئی اعلان دنیا کو حیران کر دے گا،کیونکہ یہ فلسطین کی جدوجہد کو تاراج کر کے رکھ دے گا۔ سعودی بادشاہ، شاہ عبداللہ کے دور میں ایک تجویز پیش کی گئی جسے امن کے عوض زمین کہا جا تا تھا، جسے بہت سراہا گیا۔ اس منصوبے کے تحت ، عرب ممالک اسی صورت اسرائیل کو تسلیم کریں گے اگر وہ مشرقی یروشلم سمیت تمام قابض زمینوں سے دستبردار ہو جائے، اور فلسطین مہاجروں کا مسئلہ منصفانہ انداز میں حل کر دے۔قطر میں قائم عرب سنٹر آف ریسرچ اینڈ پالیسی کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، جو کہ TRT Worldمیں شائع ہوئی ہے، 88فیصد عرب آبادی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے۔ یہ تحقیق نومبر 2019سے ستمبر 2020تک 13عرب ریاستوں میں کروائی گئی۔ پاکستان اور اسرائیل دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جو مذہب کے نام پر بنے۔ پاکستان اسلام کے اور اسرائیل یہودیت کے نام پربنا۔ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے میں کافی بحث جاری ہے۔ حکومتِ پاکستان اسرائیل کے قیام ہی سے اس بات پر واضح مو¿قف رکھتی ہے کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اسرائیلی وزیرِاعظم ایرل شیرون نے ستمبر 2005میںاقوام ِ متحدہ کے ایک اجلاس کے دوران جنرل مشرف سے ہاتھ ملایا تھا۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح کا پہلا رابطہ تھا،یہ ملاقات ترکی نے غزہ سے فوجی انخلاءکے بعد منعقد کروائی تھی۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے بتایا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایک بہت دلچسپ سوال پوچھا، کہ آپ لوگ فلسطینیوں سے بھی زیادہ فلسطینی کیوں ہیں۔اس ملاقات کے بعد صدر مشرف نے بیان دیا پاکستان اسرائیل کواس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک ریاستِ فلسطین قائم نہیں ہو جاتی۔ صدر پرویز مشرف پاکستان کے پہلے سربراہ تھے جنہوں نے 18ستمبر2005 کو نیو یارک میں ہونے والی عالمی یہودی کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان بھی بہت سے مواقع پر یہ بات واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ جب تک مسئلہ¿ فلسطین کا حل فلسطینیوں کی خواہشات کے مطابق نہیں ہو جاتا ، پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ایک اور جگہ خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے بتایاکہ اسرائیل کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے۔قائدِ اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا اور ایک آزاد ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔حال ہی میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی افواہوں کی تردید کی ہے۔بھارت کے معروف سیاست دان اور کمنٹیٹر اے جی نورانی نے اپنے ایک آرٹیکل میں بین گنیون کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے کہ عرب کیوں امن قائم کریں؟اگر میں ایک عرب لیڈر ہوتا تو میں اسرائیل سے کوئی تعلق نہ رکھتا۔ یہ فطری عمل ہے ، ہم نے ان کے ملک پر قبضہ کیا ہے۔جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو جاتا پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا نا ممکن ہے ۔پاکستان تب اسرائیل کو تسلیم کرے گا جب فلسطین ایک آزادریاست ہو گی اور اس کا دارالخلافہ یروشلم ہو گا۔