اللہ کا عذاب کیوں؟

دعاعلی

 ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاح ملک میں مرد ،مرد سے اور عورت عورت سے شادی کر سکتے ہیں بلکہ بعض ممالک میں”ہم جنس پرستی ‘کا قانون بھی پاس کردیا گیا ہے یعنی وہاں اس کو کوئی بُرا فعل نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پراسی قبیع فعل کی وجہ زمین الٹ دی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا: ”اور لوط کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا، پھر یاد کرو جب ا±س نے اپنی قوم سے کہا ”کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو ،جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو“۔ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ”نکالو اِن لوگوں کو اپنی بستیوں سے، بڑے پاک باز بنتے ہیں یہ“۔ آخرِکار ہم نے لوط اور اس کے گھر والوں کے بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی، بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ ا±ن مجرموں کا کیا انجام ہوا۔(سورہ الاعراف، آیت نمبر 80 تا 84 )۔یوںقوم لوط کو تباہ و بربادکر دیاگیا ۔اسی طرح جب حضرت شعیب عَلَیہ السلام کی قوم کی گمراہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور ہر طرح سے سمجھانے، عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے باوجود بھی یہ لوگ اپنی سر کشی سے باز نہ آئے توان پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ شیطان سے پوچھا: اللہ پاک کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ ابلیس بولا: جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔(تفسیرروح البیان، 3/197 )قیامت کی نشانیوںمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ فی زمانہ لوگ بہت ڈھٹائی کے ساتھ ناجائز تعلقات کو بیان کردیتے ہیں اور اب اس فعل کو معیوب نہیں سمجھتے۔المیہ یہ ہے کہ معاشرے میں معصوم بچوں اور بچیوں کی جانیں محفوظ نہیں ، نہ جانے کتنے ہی بچے اوربچیاں درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ملک کو آج تک کوئی نیک اور ایماندار لیڈر میسر نہیں آیا۔معاشرتی برائیوں کی روک تھام پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ہمارے حکمران بات تودین اسلام کی کرتے ہیںلیکن عملاً وہ ملک میں اسلام کی عمل داری میں ناکام رہے ۔جب ملک میں فحاشی وعریانی دن بہ دن پھیلتی چلی جائے گی تو ایسی صورت میں عذابِ الہی ٰکو کوئی روک نہیں سکتا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی ٰسے پوچھا کہ” یا اللہ جب تو ناراض ہوتا ہے تو تیری کیا نشانی ہوتی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ” دیکھنا جب بارشیں بے وقت ہوں ، حکومت بے وقوفوں کے پاس ہو، اور پیسہ بخیلوں کے پاس ہو، تو جان لینا کہ میں ناراض ہوں، پھر موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ : یااللہ جب تو راضی ہوتا ہے تو اس کی کیا نشانی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”موسیٰ جب بارشیں وقت پر ہوں ، حکومت نیک اور سمجھ دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور پیسہ سخیوں(سخاوت کرنے والے) کے ہاتھ میں ہو تو سمجھ لینا کہ میں راضی ہوں“۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ” میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا “۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمائےے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو (حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے)۔پھر اللہ تعالی فرماتا ہے” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا، یا (جب) وہ دوپہر کو سورہے تھے۔ تو جب ان پر ہمارا عذاب آیا توان کی پکار اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم (ہی) ظالم تھے“۔(سورہ الا اعراف)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے” اور ضرور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریب کا عذاب چکھائیں گے (جسے دیکھنے والا کہے) امید ہے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے©©“۔(سورہ السجدہ: آیت 21 )۔بیشک بے وقت بارشیں، وقفے وقفے سے بارشیں، اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا باعث ہیں۔مگر اس کے باوجود ہم عبرت حاصل نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے ”میں آپ کو نصیحت دیتا ہوں تاکہ آپ سبق حاصل کریں اور جو نصیحت نہیں حاصل کرتا میں اسے عبرت کا نشان بنا دیتا ہوں، ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا؟ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کیا ۔ہم سے زیادہ گنہگار لوگ بیٹھے ہیں انہیں تو اللہ تعالیٰ کچھ نہیں کہہ رہا تو پھر ہماری پکڑ کیسے ہوسکتی ہے؟؟ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میں نے ڈر والوں کے لیے کھلی نشانیاں دی ہیں “۔حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک نہیں کئی مواقع فراہم کرتا ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور گناہوں سے توبہ کرلیں مگر ہر بار ہم یہی کہتے ہیں کہ ہم نے کیاکیا؟ ۔غیر شائستہ ،غیر اخلاقی ویڈیوز بنانا ،انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کرنا بھی تو ایک گناہ ہے۔ دوسروں کی بہوبیٹیوں کی ویڈیوز وائرل کرکے مزے لینا بھی اکثریت کی ایک عادت بن چکی ہے ، کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق یہ ان کی عزت نہیں ہوتیں ،حالانکہ ہمیں اپنی بہو بیٹیو ں کی طرح سب کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے ۔سوشل میڈیا پربے شمار خواتین خود اپنے جسم کے ہر حصے کو نمایاں کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ سب کیا ہے ۔۔؟کیا یہ بدکاری وبد فعلی نہیں؟شراب عام ہے پہلے ان سب باتوں کو معیوب سمجھا جاتا تھا اب محفلوں میں شراب کا استعمال پانی کی طرح ہوتا ہے جس جس چیز سے ربّ نے منع فرمایا ،وہ سب ہماری قوم کررہی ہے، کوئی معاشرتی برائیوں اور ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ اکثریت یہ کہتی ہے ہم آواز کیوں اٹھانے لگے، ہم تو گناہ نہیں کررہے ،یہ سب جو کررہے ہیں وہ سزا بھگتیں گے لیکن ایسا نہیں ہے ، ہم بھی اس کی سزا بھگتیں گے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے قاتل چار لوگ تھے مگر پوری قوم تباہ ہوئی۔ باقی لوگوں کا جرم چپ رہنا تھا۔ہمارے اعمال نامے روزِ قیامت ہم نے خود پڑھ کر سنانے ہیں یہ موبائل فون کا میسنجر نہیں، جوہمارے ڈیلیٹ کرنے سے ختم ہوجائے گا جو ہم نے کیا ہے وہ آپ نے اللہ کو پڑھ کر سنانا ہے اور ایک ایک تفصیل کے ساتھ بتانا ہے۔ آپ کہاں جاکر اور کس جگہ جاکر گناہ کریں گے؟؟ کہ اللہ تعالیٰ نہ دیکھے وہ تو ہرجگہ ،ہر شے میں ،ہر وقت، ہر لمحہ موجود ہے ۔ایک پوسٹ نظر سے گذری، لکھا تھا کہ” یہ سیلاب عذاب نہیں بلکہ ہماری” آبی مس مینجمنٹ“ ہے، گناہوں کی وجہ سے اگر عذاب ہوتا تو غریب کی جھونپڑیوں کی بجائے بنی گالہ ، رائے ونڈ محل،لال حویلی،آسٹریلیا کا جزیرہ اور ڈی ایچ اے میں بھی سیلابی صورتحال ہوتی“۔ہمیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ بنی گالہ اور رائے ونڈ والوں سمیت دیگر لوگوں کو مزید چھوٹ دے رہا ہے یا وہ بخشیے ہوئے ہیں۔ ہمیں کیا علم، ان کی کوئی نیکی ان کو بچا رہی ہے یا اللہ تعالیٰ مزید ان کو مہلت دے رہا ہے کہ کر لیجیے جتنے گناہ کرنے ہیں ،لوٹ کر تو میرے پاس ہی آنا ہے “۔قرآن شریف کو ترجمے سے پڑھ کر دیکھیے ،کیا کیا کچھ نہیں بیان کیا گیا، کھلی اور واضح نشانیاں دی گئی ہیں۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا”اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو وحی کی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں پر الٹ دو۔ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ‘ اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی دیر بھی تیری معصیت میں نہیں گزاری۔ حضورر ﷺنے فرمایا کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الٹ دو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر ‘ اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی میری غیرت کی وجہ سے متغیر نہیں ہوا۔ یعنی اس کے سامنے میرے احکام پامال ہوتے رہے ‘ شریعت کی دھجیاں بکھرتی رہیں اور یہ اپنی ذاتی پرہیزگاری کو سنبھال کر ذکر اذکار ‘ نوافل اور مراقبوں میں مصروف رہا۔ یہ دوسروں سے بڑھ کر مجرم ہے۔ہمیں اس آزمائش اوراس عذاب سے ڈرنا چاہیے یہ ضروری نہیں کہ عذاب خاص طور پر ہم میں سے ان لوگوں پر ہی آئے گا جو گناہ گار ہیں۔ قرآن اور احادیث میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی قوم مجموعی طور پر منکرات پھیلاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتی ہے تووہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتی ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اجتماعی عذاب کا فیصلہ فرماتا ہے۔حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے ”اے ابنِ آدم تو نے جب بھی مجھے پکارا اور مجھ سے رجوع کیا، میں نے تیرے گناہوں کی بخشش کر دی اور مجھے اس کی پروا نہیں اور اے ابنِ آدم اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے، تو میں تیری بخشش کر دوں گا اور میری ذات بے نیاز ہے۔ اے ابنِ آدم اگر تیری مجھ سے ملاقات اس حالت میں ہو کہ تیرے گناہ پوری زمین کو گھیر لیں، لیکن تو نے شرک کا ارتکاب نہ کیا ہو تو میں تیرے گناہوں کو بخش دوں گا۔یہ عذاب ہمارے ہی بُرے اعمال کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جسے ہم ”جسٹ فار انجوائے منٹ “کا نام دیتے ہیں ۔یہ جسٹ فار انجوائے منٹ ہی ہے جو عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہا ہے۔معاشرے میں دھیرے دھیرے بدکاری بے حیائی پھیلتی جارہی ہے ہم لوگ نبی کریمﷺ کی امت میں پیدا ہوکر سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ بھی گناہ کرلیں ، تو بخشے جائیں گے۔کون ہے اللہ کے سوا جو ہمیں عذاب سے بچالے گا پاکستان کے مختلف حصوں میں آنے والا سیلاب اور اس کی تباہ کاریاںلمحہ فکریہ ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور عوام دونوں ہی ہوش کے ناخن لیں ۔ملک میں معاشرتی برائیوں کی روک تھام کےلئے قانون سازی کی جائے اور ایک اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل میں حکمرانوں سمیت ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرے ۔۔سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا ہے ۔متاثرہ علاقوں میں لوگ کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں ۔مشکل کی اس گھڑی میں مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہئے ۔کیونکہ متاثرین ایک بڑی آزمائش سے گذر رہے ہیں ۔انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔حکومت اور عساکر پاکستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر دھیان دیں اور عوام و خواص پریشان حال لوگوں کی پریشانیاں کم کرنے کےلئے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنا حق کریں ۔اپنے ربّ سے گناہوں کی معافی مانگیں ،بیشک وہ حکمت والااور اپنے بندوںکو معاف کرنے والا ہے ۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بخشے اور امت مسلمہ پر رحم فرمائے۔ آمین۔