احسان علی دانش
سیلاب آگیا ، ہوٹل بہا لے گیا ، گاﺅں بہہ گئے ، پل ٹوٹ گئے ، سڑکیں دریا برد ہوگئیں، لوگ مر گئے، نظام زندگی مفلوج ہوگیا ۔ مون سون کا موسم گزر جائے گا ، کھڑا پانی اتر جائے گا، معمولی ریلیف مل جائے گا ، پریشانیاں بھول بھال جائیں گی، مکانات پھر بن جائیں گے ، لوگ پھر بس جائیں گے ، زندگی کی گاڑی پھر چل جائے گی اور سال کے گزرتے گزرتے مون سون کا موسم پھر لوٹ آئے گا ۔ یہ ساری پریکٹس پھر دہرائی جائے گی اور لوگ ایک بار پھر پانی میں ڈوب جائیں گے۔ دریا کا اپنا موڈ اور مزاج ہوتا ہے ۔دریا میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگی مضمر ہے اس لئے اس کی طاقت بھی لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طاقت پر بھاری ہے ۔ اتنی بڑی طاقت کے ساتھ دریا اندھا بھی ہے اس نے اپنے لئے خود راستہ بنانا ہے جس کے لئے کچھ بھی روندنا پڑے ۔ اس کے سامنے خاشاک اور آر سی سی ایک جیسی ہیں۔ اسے نہیں خبر کہ کنارے پر بنا ہوا گھر محل ہے یا کٹیا ، اس کا کام ہے روند ڈالنا اور اس کی موجیں گاتی ہنستی بلکہ رقص کرتی ہوئی سب کچھ بہا لے جاتی ہیں اور ہم کہتے ہیں سیلاب نے تباہی مچادی۔ یہ دریا پر سراسر الزام ہے ۔ دریا کی کوئی غلطی نہیں۔ دریا خود پانی پیدا نہیں کرتا اس میں ندی نالوں سے آتا ہے، نالوں میں بادلوں سے آتا ہے اور بادل سمندر سے آتے ہیں ۔ دنیا میں کتنے ایسے ممالک ہیں جو بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں۔جہاں سالوں میں کبھی بوندا باندی ہوتی ہے تو سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ جبکہ خالق کائنات نے پاکستان بناتے ہوئے اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ کسی اور چیز کی کمی بیشی ہو نہ ہو پانی کا مسئلہ کم سے کم رہے۔ اس لئے ایک طرف عظیم الشان سمندر کو رکھا تو دوسری طرف بلند و بالا پہاڑ رکھے ۔ تاکہ سمندر سے اٹھنے والے بخارات پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرا جائیں اور سارا پانی نچوڑ لیں جو پانچ دریاﺅں کے روپ میں وطن عزیز کو سیراب کر جائیں۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں ہر پانچ سال میں ریکارڈ بارشیں ہونا فطرت کا عین تقاضا ہے ۔ چونکہ پاکستان کی ساٹھ ستر فیصد آبادی پینے کا پانی زمین کے اندر سے نکال لیتی ہے۔ ایسے میں ہر پانچ سال بعد زمین کے اندر بھی خشک سالی کا امکان پیدا ہوجاتا ہے جسے کائنات کا علیم بادشاہ خوب جانتا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے بندوست کرنے لگتا ہے اور جب تک اتنی زیادہ بارشیں نہ برسائیں زمین کے اندر پانی کی سطح برابر نہیں ہوسکتی۔ نیز زمین کے اوپر بھی بعض مقامات اپنی بلند سطح مرتفع کی وجہ سے خشک رہتے ہیں جنہیں بھی تو پیاس لگتی ہوگی اور وہاں تک پانی پہنچانا انسان کے بس کا نہیں۔ بس خدا اپنے عادل ہونے کی دلالت میں پانی کو نشیب کے ساتھ فراز تک پہنچاتا ہے۔ مگر ناداں لوگ کہتے ہیں کہ برا ہوگیا ۔سوشل میڈیا پر گلگت ، سکردو۔ غذر ، کالام سوات جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں جہاں جہاں بلند و بالا عمارات کو گرتے یا نقصان ہوتے دکھایا گیا وہ سب دریا کے راستے کی رکاوٹیں تھیں۔ لوگوں نے دریا کے کنارے آبادکاری شروع کی۔ اپنے ہوٹل کو عین پانی کے راستے میں بنایا تو پانی نے اپنا راستہ بنانا تھا جس کے لئے اسے جو بھی کرنا پڑے کرنا پڑا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جا بجا تفکرون اور تعقلون کا اعادہ کےا ہے کہ تم پرانے واقعات و حالات پر غور و فکر کرو اور سبق حاصل کرو مگر ہم نے قرآن کو میتوں پر ثواب کے لئے پڑھنے کی چیز بنالےا، غور کرنے کی کسی کو فرصت نہیں۔ اب دور کی کیوں بات کریں اپنے گلگت بلتستاں کے دونوں بڑے شہروں اور چھوٹے شہروں کو دیکھیے۔ عین نالوں کی زد میں دفاتر اور بنگلے بنائے ہیں۔ نالوں کو دونوں اطراف سے بند کردیا ہے اور کبھی نہ کبھی پانی آنے کی صورت میں کہیں سے بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔ ارے خدا کو مانو ۔ سکردو شہر میں تھورگو سے کچورا تک کل نو نالے ہیں جن کے نام تھورگو بالا نالہ، تھورگو پائیں نالہ، حسین آباد نالہ، سدپارہ نالہ، برگے نالہ ، رگیایول نالہ ، تھایور نالہ چندہ نالہ اور کچورا نالہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر نالوں کے راستے اب مسدود ہوچکے ہیں اور اب کی بار ناگہانی آفات کی صورت میں سب کچھ نذر طوفان ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ پائیں گے۔ جسے ہرگسہ نالہ کہتے ہیں جو سکردو شہر کے عین وسط سے گزرتا ہے، جہاں سے سالہا سال سدپارہ نالہ والا دریا بہتا تھا مگر سدپارہ ڈیم بننے کے بعد سب نے نالے کے اندر گھر بنائے۔خدا بچائے رکھے مگر بادل ناخواستہ ڈیم کو کچھ ہونے کی صورت میں اگلہ لمحہ کیا ہوگا کسی نے کبھی نہیں سوچا۔ اسی طرح گلگت شہر میں ایک کارگاہ نالے کے علاہ باقی سبھی نالوں کے نشیب میں شہر آباد ہوچکے ہیں۔ بالخصوص جہاں جی بی اسمبلی بنی ہوئی ہے وہاں نالے کے لئے چینل کے برابر بھی جگہ نہیں چھوڑی۔ وہاں کے لوگوں کو اس بات کی تسلی ہے کہ پہلے کبھی یہاں سے ایسا حادثہ پیش نہیں آیا ۔ خدا کرے کبھی حادثہ پیش نہ آئے مگر میرے منہ میں من ڈیڑھ من خاک۔۔ حادثہ اس انہوںنے اس واقعے کا نام رکھا ہے جو پہلے کبھی پیش آیا نہ ہو۔ اور اگر آئے تو کیا کیا جائے۔ اسی نالے کی زد میں چیف کورٹ کے دفاتر اور رہائشی مکانات بھی ہیں۔ایک ملاقات میں‘ میں نے موجودہ چیف جسٹس جناب وزیر شکیل صاحب سے پوچھا بھی۔حضور اچانک ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو آپ کس طرف کو بھاگیں گے۔ میرے اس سوال پر ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھتے رہ گئے ۔گئے وقتوں میں ہمارے ان پڑھ اجداد نے جنہوں نے ابھی سائنس نہیں پڑھی تھی نہ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی تھی۔انہوں نے ایک ہی نظر کے سروے سے ایسی بستیاں بسائی تھیں جو ہر طرح کی آفات سے محفوظ تھیں مگر اس دور جدید میں علم و دانش سے بھر پور لوگوں کے خصائل دیکھ کے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائےدار ہوگا
بندوں کے لئے اپنے انعامات میں سے اللہ تعالی کا سب سے پہلا ، بڑا ، مفید ، دلنشیں اور حیراں کن انعام پانی ہی تو ہے جس کے غائب ہونے سے کھیت کھلیانوں میں بھوک و افلاس کے مہیب ناگ پھنکارنے لگیں۔ اس کی موجودگی صحرا کو گلستاں بنائے۔ پانی ایک مقدس اور پاکیزہ چیز ہے جس سے احتیاط و احترام لازم ہے ۔ بلتی زبان کی کہاوت ہے کہ ہر جگہ بہادری دکھا سوائے پانی کے ۔ سونامی کیوں آیا ؟ سمندر کی ہیبت و عظمت دیکھ کر اس کے احترام میں خالق کی ثنا کرنے کی بجائے گھر کا سارا کنبہ ایک ساتھ ننگے ہوکر موج مستی کرنے لگے تو بنانے والا جلال میں تو آئے گا ۔سنا گیا ہے کہ عرب میں بارشیں کم سے کم ہوتی ہیں اور جدہ شہر میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ گئے وقتوں میں ایک بار جب بارش ہوئی تو اپنی اگلی پچھلی ساری کسر نکال دی اور لمحوں میں یہ خوبصورت شہر ایک تالاب کا روپ دھار گیا ۔ بہت بھاری مالی اور جانی نقصانات ہوئے۔ عرب کے بادشاہ کو نقصانات کا علم ہوا تو سب سے پہلے شہر کے میئر کو سزا دی اس کے بعد سنجیدگی سے انفراسٹرکچر کا کام شروع کیا۔ شہر کے سب نالوں کی صفائی کروائی گئی ، نئے نالے بنائے گئے۔ڈرینز کا نظام درست کرادیا۔ اب جب بھی جیسی بارشیں ہو جائیں شہریوں کو پروا نہیں۔کبھی اور کہیں بھی پانی کے اخراج کے راستے کھلے رکھیں تو کوئی بھی پیچیدہ مسئلہ پیدا نہیں ہوگا یہ خواہ ہمارا جسم ہو ، ہمارا گھر ہو ، ہمارا گاﺅں ہو، ہمارا شہر ہو یا ہمارا ملک۔اخراج کے راستے کو بند کردیا جائے تو اس نے اپنے لیے راستہ تو بنانا ہے چونکہ پانی جاندار ہے ہم سے زیادہ جاندار۔ حیات کا دارومدار پانی پر ہے بلکہ پانی ہی زندگی ہے۔ لہذا پانی کے راستے میں حائل رہنے کی کوشش نہ کی جائے چونکہ مون سون کا موسم پھر آئے گا، بارشیں پھر ہوں گی اور سیلاب پھر آئے گا۔