سیاستدانوں کے مشترکہ صائب کردار کا تقاضا

 نثار حسین
 پاکستان سے دور ہوں مگر اس وقت بھی میرا دل اپنے ہم وطنوں کی مصیبت میں انکے ساتھ دھڑک رہا ہے ،ملک پر ٹوٹنے والی افتاد پر دل گرفتگی کی حالت میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لئے بے تاب وبے قرار ہوں ،میڈیا کے ذریعے روزدرد ناک حالات جان کر ٹوٹ جاتا ہوں ،پاکستان میں سیلاب سے پہلے اور بعد کی  حالت کی  اس شعر سے عکاسی ہوتی ہے ،ع۔ابر برسا تو سب کچھ بہا لے گیا اس سے پہلے بڑی خشک سالی رہی طوفانی بارشیں اور بپھرے سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزرے تباہی کی داستان چھوڑ گئے، سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں سیلاب نے تباہی پھیلا دی۔قومی  ادارے این ڈی ایم اے نے 14 جون سے اب تک سیلاب اور بارشوں سے 1033 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جس میں 348 بچے اور 207 خواتین شامل ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ سیلاب سے 3451 کلومیٹر طویل سڑکیں اور قریب ساڑھے نو لاکھ گھر و عمارتیں تباہ ہوئی ہیں جبکہ سات لاکھ سے زیادہ مویشی بہہ گئے ہیں۔کروڑوں افراد کے سیلاب سے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں ۔لاکھوں بے گھر ہونیوالے بحالی کے حوالے سے ہونے والے اعلانات پر عملدرآمد کے منتظر ہیں ،ہزاروں زندگیاں پانی میں ڈوب گئیں، بے گھر، کھلے آسمان تلے بیٹھے افراد کھانے کو ترس گئے، بیماریاں منڈلانے لگیں، ریلیف کیمپوں میں بھی پانی کا راج نظر آیا، کئی علاقوں میں کنکریٹ کے ڈیم ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔چار سدہ کے قریب منڈا ہیڈ ورکس پانی کے دبائو سے ٹوٹ گیا، نوشہرہ میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آگیا، پانی کا بہائو تین لاکھ کیوسک تک پہنچ گیا۔ادھر شمالی علاقہ جات میں دریائے گلگت میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آنے سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے، غذر میں لینڈ سلائیڈنگ سے ہزاروں مکانات  تباہ ہوگئے،بے شمار  افراد جان سے گئے۔بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں صرف  دو روز کے دوران ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد سیلاب کی صورتحال ہے، کئی علاقوں میں سیکڑوں کچے مکانات گر گئے ہیں۔کوئٹہ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی اور ریل کے ذریعے رابطہ منقطع ہے، جبکہ کوئٹہ اور مختلف علاقوں میں گیس اور بجلی کی سپلائی بھی معطل ہے۔پورے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں ،بلوچستان کی طرح پنجاب ،سندھ ، خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں میں قیامت کے مناظر ہیں ،کہیں نومولود بچی کی سیلابی لہروں سے ٹکرانے کے دل ہلا دینے والے مناظر ہیں تو کہیں بے بس بوڑھے باپ  جوان بیٹوں کے لاشے اٹھانے سے قاصر ضعیف جسم انہیں رسی سے گھسیٹتے ہوئے سنگدل پانیوں سے نکالنے کا ہولناک منظر دکھارہے ہیں ،ان حالات میں بھی سیاستدانوں کی بے حسی تاریخی المیہ ہے ،ایک طرف بڑا انسانی المیہ ہے تو کئی سیاستدان ابھی تک آپس میں دست و گریباں ہیں ،انکی سیاست کا مرکزی خیال ہی کچھ اور ہے اور یہ ہر معاملے پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی اپنی کہنہ روایات پر کار بند دکھائی دیتے ہیں ،پورے ملک پر ٹوٹنے والی افتاد پر حالات  سب سیاستدانوں کے ایک ساتھ سیلاب زدگان کی بحالی کے حوالے سے کام کرنے کا تقاضا کرتے ہیں ،دنیا بھر کی نگاہیں اس وقت پاکستان کے حالات پر ہیں تاریخ رقم ہورہی ہے لیکن ابھی تک سیاستدانوں کے اختلافات ختم نہیں ہوئے اور وزیراعظم شہباز شریف نے  تمام سیاستدانوں کو مل کر سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے ایک جگہ جمع کرکے سوچنے کی خاطر اے پی سی بلائی ہے ،سیاستدانوں کو اب صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے اجڑے ہوئے لاکھوں ہم وطنوں کو بسانے کی خاطر عملی اقدامات کرنا ہونگے ،تمام سیاسی رہنمائوں کا اس حوالے سے مشترکہ صائب کردار ہی نئی تاریخ رقم کرے گا ورنہ اس قیامت کے گزرنے پر بھی کچھ نہ سمجھنے کی روایت انہیں گراوٹ کی اتھاہ دلدل میں ڈبوکر دفن کردے گی ، سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کیساتھ اظہار یکجہتی کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے اور وقت بھی تمام سیاستدانوں سے یکجا ہوکر بحالی کے مشترکہ کام کرنے  کا تقاضا کررہا ہے ۔