ابن حسین
اس بات سے کون متفق نہیں کہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کا دارومدار اس ملک کی تعلیم پر منحصر ہوتا ہے۔ جن سے دنیا وجود میں آئی ہے تب سے علم کے ذریعے انسانوں نے ترقی حاصل کی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں علم اور تعلیم کا معنی ہمارے اصطلاح سے خاصا مختلف ہے۔ ملک عزیز پاکستان میں سکول کا تعلیمی نظام کو عام طور پر چھ سطحوں پر تقسیم کیا ہوا ہے ۔ پرائمری سطح جس میں نرسری سے لے کر جماعت پنجم تک ، مڈل سطح پر چھٹی جماعت سے لے کر آٹھویں تک جبکہ ہائی سکول سطح پر نہم اور دہم تک پڑھایا جاتا ہے ۔پاکستانی تعلیمی نظام دنیا کے بہت پرانے نظام میں سے ایک ہے ۔ لیکن صاحب اقتدار اور صاحب اختیار ،اس بات کا دعوی کرتے نظر آتے کہ یہاں کا نظام تعلیم موثر اور جامع ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں وسائل ہونے کے باوجود شرح خواندگی کو بڑھانے اور تعلیم کو عام کرنے میں ناکام ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے غریب ممالک بھی پاکستان سے موازنے میں اس اعتبار سے بہت آگے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بنیادی تعلیم جو پرائمری سطح پر دی جاتی ہے اعلی تعلیم کے لئے ایک ستون ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے فروغ دیا جائے اور حتی الامکان اسے موثر اور مضبوط بنایا جائے۔ پاکستان کی شرح خواندگی، نیپال ، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے کم ہے جسے ہم غریب ملک تصور کرتے ہیں۔ شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے ذمہ داروں کو چاہئے کہ موثر حکمت عملی مرتب کرے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے پالیسی ترتیب دیں ۔تعلیم سب کےلئے نظام کو لاگو کیا جانا چاہئے جو پھلدار نتائج دے سکتا ہے اور فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ملک عزیز میں ماضی میں اس حوالے سے مختلف طریقوں کو آزمایا گیا لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔ اس لئے جب کوئی نئی پالیسی بنائی جائے تو ان فیکٹرز کو بھی ذہن میں رکھے جس کی وجہ سے نظام کو چلنے اور چلانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں چار صوبے ،کشمیر اور گلگت بلتستان میں مختلف نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے لیکن اس بار One Nation One curriculumکی ابتدا قابل تحسین ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نظام اور نصاب کب تک مکمل طور پر لاگو ہوگا اور اس کی بقا کب تک ہوگی ۔ ہمیں شرح خواندگی کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور لوگوں کو پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔ نئی نسل کو فنی تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ بینک کی تعاون سے کے گئے ایک تعلیمی تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوالٹی ایجوکیشن کےلئے ضروری ہے کہ اس ملک میں بہتری وسائل ہوں۔ ملک اپنے پاﺅں پہ کھڑا ہو ۔ ملک کا معاشی نظام بہتر ہو ۔ غربت کی زندگی نہ گزار رہا ہو ۔ اس کے علاوہ بھی سینکڑوں اور وجوہات بیان کی گئی ہیں جو کوالٹی ایجوکیشن کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں۔ اس کے علاوہ بہتر تعلیم کےلئے ہمارا نصاب بین الاقوامی یونیورسٹی یا کالج کے نصاب سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ کیا ایسا ہے ؟ اساتذہ کی تعیناتی کو شفاف بنایا جائے۔ کیا یہاں ایسا ہے ؟ حکومت، تعلیم کےلئے مناسب فنڈز اور بجٹ رکھے۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا ہے ؟ پاکستان کے کم ترقی والے علاقوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ کیا ایسا ہے ؟ تعلیمی اداروں میں سزا و جزا کا نظام موثر ہو ۔کیا ایسا ہے ؟ تعلیم کو سیاست سے پاک رکھا جائے۔ اقربا پروری ، سفارش جیسے کلچر کو ختم کریں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ ان تمام مسائل کے علاوہ اور بھی بے شمار مسائل کا شکار اس ملک اور اس علاقے میں کوالٹی ایجوکیشن کیسے لائی جائے ۔ یہاں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پرائمری سکول میں سنگل ٹیچر سسٹم آج بھی ہے ۔نرسری سے لیکر پنجم تک ایک ہی استاد کو پڑھانا پڑتا ہے۔ کیا وہ استاد ان پانچوں کلاسز کو منظم کرسکتا ہے ؟ کیا اس طریقے سے کوالٹی ایجوکیشن ممکن ہے ؟ کیا استاد کو کبھی چھٹی کی ضرورت نہیں پڑتی؟ ہاں اگر پڑتی ہے تو ان دنوں اس سکول کے بچوں کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑے ؟ کیا استاد کبھی بیمار نہیں پڑتا؟ مان لیتے ہیں یہ سب نہیں ہوتا پھر بھی ایک استاد پانچ کلاسز کو کیسے پڑھائے گا ۔ ان تمام تر حالات کے باوجود کوالٹی ایجوکیشن کی توقع رکھنا عقل مندی ہے یا صرف خام خیالی ۔ دوسری اہم بات ، کیا سرکاری سکولوں میں قابل بچوں کو بھیجا جاتا ہے ؟ کیا والدین کبھی بھولے سے بھی سکول میں بچوں کی پراگرےس دیکھنے آتے ہیں؟ کیا ہمارے علاقے کے پرائمری اسکول کو وہ سہولیات دی جارہی ہیں جو دوسرے علاقوں اور دوسرے ممالک کے پرائمری اسکول کو دی جارہی ہیں ۔کیا ہمارے سکولوں میں فنی تعلیم دے رہے ہیں؟ فنی تعلیم کیلئے ٹیچرز کو ٹریننگ دی گئی ہے؟یا آج تک ایسی پالیسی بنائی گئی ہے۔ میرے خیال میں ایسا سوچا تک نہیں ہوگا ۔ہمارے تعلیمی نظام کا دوسرا لیول مڈل ہے جہاں چھٹی جماعت سے لیکر آٹھویں تک پڑھایا جاتا ہے ۔ گلگت بلتستان میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں مڈل سکولز میں صرف دو یا تین اساتذہ پڑھاتے ہیں اور ان میں بچوں کی تعداد بھی خاصی ہے ۔ ان سکولوں میں بچوں کو بیٹھنے کیلئے خاص مناسب انتظام موجود نہیں۔ کیا کوالٹی ایجوکیشن کےلئے طلبا کو وہ تمام سہولیات بھی دینی چاہئےں جو شہروں کے سکولوں کو مل رہی ہےں ۔ یہاں کے سکولوں میں زیادہ تعداد ایسے بچوں کی ہے جو غریب ،نادار اور جن کے والدین ان پڑھ ہیں ۔ کیا کوالٹی ایجوکیشن پہ یہ فیکٹر اثر انداز ہوگا یا نہیں؟ قابل اور ذہین بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخلہ کےلئے ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے جس کےلئے والدین، کمیونٹی، اساتذہ کرام ، علما اور با اثر افراد کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرا لیول جس کو ہائی کا درجہ دیا گیا ہے اس میں طلبا صرف دو سالوں کےلئے آتے ہیں اور اس کے بعد فارغ ہوجاتے ہیں۔ جناب چیف سےکرٹری گلگت بلتستان کے حالیہ بیان خوش آئند ہیں جس سے ہمیں اتفاق کرلینا چاہیے۔ جناب وانی صاحب علم دوست شخص لگتے ہیں ان کی مثبت سوچ کو اللہ کامیاب کرے۔ ٹیچرز، طلبا اور والدین کو بھی چاہیے کہ ان کی باتوں کا برا نہ مانےں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرے لیکن کچھ باتیں بہت اہم ہیں۔میٹرک کے نتائج کو بیس بنا کر اساتذہ کی انکرےمنٹ بند کرنا اور انہی سزا دینے کی دھمکی دینا جیسی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ نہم اور دہم میں بچے صرف دو سال کےلئے آتے ہیں اور فارغ ہو کر چلے جاتے ہیں۔ کیا ہائی سکول کے ٹیچرز ہی رزلٹ کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے صرف دو سال پڑھایا یا کسی نے صرف ایک سال ۔ اگر ایسا کرےں تو ہائی سکول میں پڑھانے والے ٹیچرز کے ساتھ ظلم نہیں کہ سزا صرف انہیں ملے گی۔ کیا پرائمری اور مڈل کے ٹیچرز خراب رزلٹ کے ذمہ دار نہیں؟ ہاں اگر ہےں تو ان کی نشاندہی کیسے ہوگی ؟ کیا خراب رزلٹ کے ذمہ دار صرف اساتذہ ہیں؟ پچھلی حکومت کی طرف سے شروع کیا گیا مفت کتاب پروگرام بہت ہی قابل تحسین قدم اور علم دوست ہونے کا ثبوت ہے ۔ اس حکومت نے کتابیں مفت فراہم کرنے کی شروعات تو کی اور آج بھی سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو مفت کتابیں مل رہی ہیں۔ لیکن اس کتاب کے انتظار میں بچوں کا کتنا نقصان ہوا اور آج بھی کتابیں وقت پر نہیں مل رہیں ،اس پر آج تک کسی کو معمولی احساس تک نہیں ۔ تعلیمی سال شروع ہونے کے تین سے چار ماہ بھی اگر کتابیں نہیں ملتیں اور بچوں کو جھوٹی کہانیاں سنا کر بہلایا جاتا ہو ۔کیا یہ فیکٹر رزلٹ کو متاثر نہیں کرتا ؟ کیا مفت کتابوں کی پالیسی بنانے والے ، کتابیں لانے والے اور تقسیم کرنے والے اس جرم میں شریک نہیں؟ ہاں اگر ہیں تو آج تک کسی نے آواز کیوں نہیں اٹھائی ۔ان تمام کے علاوہ سرکاری سکولوں میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس نظام کو کون ٹھیک کرے ؟ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ آیا کسی نے اس پر سوچنے کی بھی زحمت کی ؟ کیا ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے؟ رزلٹ کو بہتر بنانے اور کوالٹی ایجوکیشن کےلئے کیا کرنا چاہیے، فیصلہ آپ پر ۔۔۔۔۔