ریاض احمدچودھری
بابائے قوم حضرت قائداعظم کی فراست، تدبر، خلوص اور دور اندیشی کی بدولت انگریزوں اور ہندﺅں کی سازشوں اور پر زور مخالفت کے باوجود 14اگست 1947کو پاکستان ظہور میں آیا۔ رواں برس قیام پاکستان کے 75 سال پورے ہونے پرپاکستان بھر میں خصوصی طور پر ڈائمنڈ جوبلی تقاریب کا اہتمام کیا جن کا آغاز 11 اگست کو ہو چکا ہے۔ صوبائی وزیر ثقافت، کھیل اور امور نوجوانان ملک تیمور مسعود خاں صاحب نے الحمراکلچرل کمپلیکس قذافی سٹیڈیم فیروزپور روڈ میں ثقافتی پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیاکے مسلمانوں نے حضرت قائد اعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کےلئے بے شمار اور عظیم قربانیاں دیں۔ لاکھوں مسلمانوں نے علیحدہ وطن پانے کےلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ افتتاحی تقریب میں صوبائی سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب راجہ منصور احمد صاحب نے بھی شرکت کی۔چار روزہ ڈائمنڈ جوبلی تقریبات میں علاقائی دستکاریوں و روایتی کھانوں کے سٹالز ، فوک موسیقی کے پروگرام بھی ہیں۔ وزیر ثقافت نے پروگرام میں شرکت کرنے والے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ فن کی آبیاری کےلئے ہمارے آرٹسٹوں کی خدمات مثالی ہیں۔ حکومت پنجاب کی ثقافتی اقدار، حسین رسوم و رواج اور قدیم تہذیب و تمدن کو اجاگر کرنے کےلئے پرعزم ہے۔گولڈن جوبلی کے سلسلے میں بزم اقبال نے راقم الحروف کی لکھی ہوئی کتاب تحریک پاکستان ، چند یادیں۔کچھ ملاقاتیں شائع کی۔ اس کتاب میں تحریک پاکستان کے قائدین کے کارناموں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ تحریک پاکستان میں نوجوانوں بالخصوص طلبہ نے قائد اعظم کی قیادت میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔قائداعظم کو نوجوانوں سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ 1945-46 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی نے قیام پاکستان کی راہ مزید ہموار کر دی اور ان انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کیلئے طالبعلموں بالخصوص اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ راقم الحروف نے بھی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قائداعظم کے شانہ بشانہ مسلم کاز کے لئے روز و شب کام کیا۔ نوجوانی کے دور میں 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگی امیدواروں کی مہم چلائی۔ گھر گھر جا کر ووٹر ز کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچایا۔ اس طرح لیگی امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنایا۔ اسی طرح قیام پاکستان کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اور بعد میں مہاجرین کی بحالی میں بھی کردار ادا کیا۔ یہ جنگ عظیم دوم کا زمانہ تھا اور تحریک پاکستان بھی اپنے عروج پر تھی۔ میرے والد محترم کی رحلت اکتوبر 1939 میں ہوئی ۔ مجھے اپنے دادا چودھری دین محمد مرحوم کے ساتھ مارچ 1940 میں لاہور کے منٹوپارک میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ منٹو پارک میں برصغیر کے کونے کونے سے آئے ہوئے مسلمانوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ یہ سب اپنے رہنما قائد اعظم کی ایک جھلک دیکھنے اور ان کا خطاب سننے کےلئے بے تاب تھے۔ قائد نے اگرچہ انگریزی میں خطاب کیا لیکن تمام شرکاجو انگریزی نہیں بھی جانتے تھے وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان کے قائد نے جو کچھ کہا ہے سو فیصد درست کہا ہے۔ تحریک پاکستان زوروں پر تھی ۔ان دنوں ہمارے ہاں لاہور سے روزنامہ زمیندار اور روزنامہ احسان آیا کرتے تھے۔ روزنامہ احسان مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت دیتاتھا۔ میں اس وقت لوگوں کو مسلم لیگ کی سرگرمیوں سے آگاہ کیاکرتا تھا۔ امرتسر میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طلباتحریک پاکستان میں جوش و خروش سے شامل ہوتے تھے۔ سٹی مسلم لیگ کے صدر شیخ صادق حسن مرحوم اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرپرست اور بزرگ سیاسی رہنما مولوی سراج الدین پال ایڈووکیٹ سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔مولوی سراج الدین پال، مولوی عزالدین پال، مولوی ذکی الدین پال اورمولوی تقی الدین پال کے والد محترم تھے۔ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات لاہور، پشاور اور ڈھاکا سٹیشنوں سے رات بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری اعلان نشر کیا۔ بارہ بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی اور ظہور آذر کی آواز میں انگریزی زبان میں فضا میں ایک اعلان گونجا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت معرض وجود میں آ جائے گی۔ رات کے ٹھیک بارہ بجے لاکھوں سامعین کے کانوں میں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں یہ الفاظ گونجے یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔ انگریزی میں یہ اعلان ظہور آذر نے اور اردو میں یہ اعلان مصطفی علی ہمدانی نے کیا۔ اس اعلان کے فورا بعد مولانا ظاہر القاسمی نے قرآن مجید کی سورہ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔ جس کے بعد ان کا ترجمہ نشر کیا گیا۔ بعد ازاں خواجہ خورشید انور کا مرتب کیا ہوا ایک خصوصی سازینہ بجایا گیا۔چودہ اگست 1947کو بلوچ رجمنٹ نے فیصلہ کیا کہ امرتسر سے مسلمانوں کی پہلی ٹرین شام آٹھ بجے روانہ ہوگی۔ سکھوں نے راستے میں چھ ہرٹہ اور خالصہ کے مقامات پر اس ٹرین پر حملے کیے لیکن بلوچ رجمنٹ کی جوابی کارروائی سے وہ منتشر ہوگئے۔ اٹاری تک سکھوں نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کیں اور اس ٹرین پر فائرنگ کی بالآخر یہ ٹرین رات گئے لاہور پہنچ گئی۔ پہلی ٹرین چار گھنٹوں میں ہربنس پورہ سے والٹن ریلوے سٹیشن پہنچی۔ ہجرت کے دوران لوگوں میں بہت خوف و ہراس تھا۔ اتنی زیادہ بچیاں قتل ہوئیں کہ اللہ کی پناہ۔ کئی نے کنوں میں چھلانگیں لگائیں۔ لوگوں میں تڑپ تھی کہ اسلام کے نام پر بننے والی پاک سرزمین پر ہر صورت جانا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مشرقی پنجاب سے مہاجرین کی بہت زیادہ تعداد کی آمد کی ایک وجہ ریڈکلف کمیشن کی غلط تقسیم تھی۔ غلط تقسیم کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔ گورداسپور مسلم اکثریت کا علاقہ تھا اور پاکستان میں شامل ہونا تھا جس پر گورداسپور سے آنے والے لوگ جسٹر کے مقام پر راوی پل کے ذریعے پاکستان آئے۔ اس علاقے میں بہت قتل و غارت ہوا۔ دریائے راوی کا پانی سرخ ہوگیا تھا۔ دریائے بیاس بھی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ لوگ لاشوں کو بہا دیتے تھے۔ جو کچھ ان آنکھوں نے دیکھا بیان سے باہر ہے۔میرا اندازہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ مشرقی پنجاب اور دیگر مسلم اقلیتی علاقوں سے تقریبا ستر لاکھ مسلمانوں نے ہجرت کی۔