ڈاکٹر سلیم خان
عالم اسلام کے بجائے آج کل قتل و غارتگری ، جنگ و جدال اور تختہ پلٹ کی خبریں دیگر ممالک سے آرہی ہیں ۔گزشتہ ایک میں غیر مسلم دنیا سے آنے والی اس قسم کی مختلف خبریں ذرائع ابلاغ پر چھائی رہیں مثلا امریکہ کے ہائی لینڈ پارک سے فریڈم پریڈ یعنی جشن آزادی کے جلوس پر گولیاں برسانے کا اندوہناک واقعہ منظرِ عام پر آیا ۔ اس کے بعد برطانیہ میں اقتدار کی کرسی ہلنے لگی اور بڑی ردو کد کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے بادلِ نخواستہ استعفی دیا۔ اس پر جہاں ایک طرف روس اور یوروپی یونین نے خوشی منائی وہیں یوکرین غم میں ڈوب گیا ۔مشرق وسطی میں اسرائیل کے صدر نیفتالی کو بھی اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا اور اب وہاں تین سال کے اندر پانچوے انتخاب کی تیاری شرو ع کردی گئی ۔ برِ صغیر ہندو پاک میں وزیر اعظم مہندا راج پکشے کے بعد ان کے بڑے بھائی گوٹابایا بھی فرار ہوگئے نیز جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبے کو انتخابی مہم کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ان سانحات کے تناظر میں مسلم دنیا کے اندر امن و امان کا ایک سبب دہشت گردی پھیلانے والے ممالک کا اپنے داخلی مسائل میں الجھا ہواہونا بھی ہے۔دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ میں یوم آزادی کے دن گولیوں سے ہلاکت کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال یوم آزادی کے آخر ہفتہ میں امریکہ کی تقریبا تمام ہی ریاستوں میں گولی باری کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان میں کم ازکم 220لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور570 لوگ زخمی ہوگئے تھے ۔امسال کے پہلے نصف میں امریکہ کے اندر اجتماعی گولی باری کے 315 واقعات درج کیے جاچکے ہیں اوربندوق کے ذریعہ جملہ 22500 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو مہذب ترین کہنے والے امریکہ میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے وہاں کی 30 کروڑ آبادی کے پاس 40 کروڈ بندوقیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہاں ہردن 53 لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔2019 میں 23 ہزار سے زیادہ لوگوں نے بندوق کی مدد سے خودکشی تھی۔ علامہ اقبال کی یہ اشعار امریکہ کے نام نہاد ترقی یافتہ سماج پر لفظ بہ لفظ صادق آتے ہیں
یہ عیشِ فراواں، یہ حکومت، یہ تجارت
دل سِین بے نور میں محرومِ تسلی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادیِ ایمن نہیں شایانِ تجلی
ایسی دگرگوں صورتحال اگر کسی مسلم ملک میں ہوتی تو اسے دین اسلام اور قرآن حکیم کی تعلیمات سے جوڑا جاتا اور ہمارے دانشور احکامات الہیہ کے الٹے سیدھے مطالب بیان کرنے میں جت جاتے لیکن جمہوریت تو ایک ایسی مقدس گائے ہے کہ اس پر تنقید کرنے کی جرات اس کے حامی تو دور مخالفین بھی نہیں کرتے۔ یہ مرعوبیت ہی عصر حاضر کی فکری دہشت گردی ہے۔پچھلے پچاس سالوں میں امریکہ کے اندر بندوق سے ہونے والی تشدد کی وارداتوں میں پندرہ لاکھ لوگوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس قدر قتل و غارتگری کے باوجود امریکہ میں بندوق کی خرید و فروخت پر پابندی کیوں نہیں لگتی ؟ اس تلخ سوال کا میٹھا جواب وہاں رائج جمہوری نظامِ سیاست ہے جس پر ساری دنیا ناز کرتی ہے ۔ جمہوریت نواز لوگوں کااس پر اعتراض ہوگا لیکن سچائی یہی ہے کہ امریکہ میں برسرِ اقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے 91 فیصد ارکان پارلیمان بندوقوں کی تجارت پر سخت قوانین بنانے کے حامی ہیں ۔ حزب اختلاف ریپبلکن کے بھی 24 فیصد فیصد ارکان کی حمایت انہیں حاصل ہے اس کے باوجود وہاں دستور میں ترمیم نہیں ہوپاتی اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جس سے اس مصیبت سے چھٹکارہ مل سکے ۔دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں اس راہ کا واحدروڑا اندرونِ ملک پائے جانے والے 63ہزاربندوقوں کے تاجر ہیں ۔ اس دو فیصدآبادی نے اپنی دولت کے زور پر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ امریکی معیشت کے مقابلے ان کا کاروبار بہت معمولی یعنی صرف 83 ہزار کروڑ ہے لیکن یہ لوگ کروڑوں روپیہ عوامی نمائندوں کو رشوت دے کر اپنا ہمنوا بنائے رکھنے پر خرچ کرتے ہیں ۔ اعدادو شمار کے مطابق سال 2020 میں بندوق کی حامی لابی نے اپنے کاروبار کا دس فیصد سے بھی کم یعنی تقریبا3.2 کروڑ ڈالر عوامی نمائندوں کو لبھانے پر خرچ کیا ۔ اس کے برخلاف بندوقوں پر پابندی لگانے والے صرف 2.2 کروڑ خرچ کرپائے اس طرح نوٹ نے ووٹ کو ہرا دیا ۔ امریکہ کے اندر جمہوریت کا یہ تماشا ممکن ہے تو مہاراشٹر میں کیوں نہیں؟امریکہ کے برعکس جاپان کو نہایت محفوظ ملک ہے ۔ وہاں چونکہ سیکیورٹی بہت نرم ہوتی ہے اس لیے انتخابی مہم کے دوران سیاست دان گلیوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر تقاریر کرتے ہیں اور راہگیروں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔جاپان میں اسلحہ کا حصول خاصہ مشکل ہے۔ وہاں مجرمانہ ریکارڈ سے پاک تربیت یافتہ فرد کو نفسیاتی جائزہ لینے اورخاندانی پسِ منظر کی تفصیلی چھان بین کے بعد ہمسائیوں کی معلومات کو پیش نظر رکھ کر لائسنس دیا جاتا ہے۔ اس لیے جاپان میں ہتھیاروں سے اموات کا سالانہ اوسط صرف 10 ہے جبکہ2017 میں تو صرف تین اموات ہوئی تھیں لیکن شنزو آبے کے قاتل نے یوٹیوب پر دیکھ ازخود دو پائپ جوڑ کر بندوق بنا ڈالی ۔ جاپان میں سب سے مشہور سیاسی قتل1960 میں ہوا۔ اس وقت سوشلسٹ پارٹی کے رہنما انیجور اسانوما کو ایک دائیں بازو کے شدت پسند نے تلوار سیحملہ کرکے ہلاک کردیا تھا۔جاپان میں اب بھی دائیں بازو کے شدت پسند موجود ہیں لیکن سابق وزیر اعظم آبے خود پچھلے تین دہائیوں کے سب سے زیادہ مقبول دائیں بازو کے قوم پرست رہنما تھے۔ اس لیے انہیں کسی ایسے گروہ کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے باوجود انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے وزیر اعظم کے عہدے پر دوبارہ فائز ہونے سے قبل ان کا قتل یہ بتاتا ہے کہ جمہوریت میں پرامن طور پر اقتدار کی تبدیلی سے قبل جاپان جیسے ملک میں بھی اس طرح کا خون خرابہ سارا کھیل بگاڑ سکتا ہے۔دنیا بھر سے گھوم کر بر صغیر میں لوٹیں تو وہاں سب سے بڑا سیاسی انقلاب سر لنکا میں رونما ہوا۔ سری لنکا کی عوام نے پہلے وزیر اعظم مہندا راج پکشے کو مار بھگایا اور پھر ان کے بھائی صدر مملکت گوٹا بایا راج پکشے کے محل میں گھس گئے۔ سری لنکا کے راج پکشے خاندان کا وہاں کی سیاست پر ویسا ہی رسوخ تھا جیسا کہ ہندوستان میں سنگھ پریوار کا ہے۔ ان کے فسطائی نظریات میں بھی کمال کی یکسانیت ہے۔ گوٹابایا نے سنہالی بودھوں کی خوشنودی کے لیے پہلے تو تمل باشندوں کو کچلا اور اس کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کا ڈنکا بجایا ۔ اس کو قائم رکھنے کے لیے مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے اورملت کے خلاف میانمار جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش میں جت گئے۔ نفرت کی بنیاد سیاسی دوکان چمکانے میں مودی اور شاہ کی طرح مہندا اور گوٹا بایا بھی مشاق تھے۔ انہوں نے میڈیا کو قبضے میں لے کر غیر معمولی انتخابی کامیابی حاصل کی تھی ۔ ان کی جماعت کو ایوان پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی لیکن وہ دنوں بھی نہایت نااہل تھے ۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں جذباتی چورن کھلاکر اپنا کام چلاتے تھے لیکن جب لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو ساری عیاری اور مکاری دھری کی دھری رہ گئی ۔ گوٹابایا اور مہندا کے انجام میں دنیا بھر کے کرتب باز نااہل سیاستدانوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔سری لنکا میں برپا ہونے والا حالیہ انقلاب نہ بیلیٹ کے صندوق سے نکل کر آیا اور نہ بندوق کی بولیٹ کے بدولت برپا ہوا۔ اس عوامی انقلاب کو کسی زاویہ سے جمہوری نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ایک نہایت مثبت اور ضروری تبدیلی تھی۔ اس نے یہ ظاہر کردیا کہ عوام کو بیوقوف بناکر بہلایا پھسلایا تو جاسکتا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے اور اس کے بعد جھولا اٹھاکر سرنگ کے ذریعہ راہِ فرار اختیار کرنے کی نوبت آن کھڑی ہوتی ہے۔حکومتِ ہندمیں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے سری لنکا میں جاری سیاسی بحران پر اپنے بیان میں کہاکہ سری لنکا میں حالیہ پیش رفت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے آگے انہوں نے کہا سری لنکا کے عوام جمہوری طریقوں اور اقدار، قائم شدہ اداروں اور آئینی ڈھانچے کے ذریعے اپنی خوشحالی اور ترقی کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں ہندوستان سری لنکا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہندوستان کا سری لنکا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا رہنا قابلِ ستائش ضرور ہے لیکن کیا جمہوری طریقہ اور اقدار لوگوں کو صدارتی محل میں اس طرح داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا سری لنکا کے آئین میں اس کی اجازت ہے؟ اور قائم شدہ ضابطوں میں یہ بات شامل ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے باوجود سری لنکا کے عوام نے یہ ضروری کارنامہ کردکھایا اور اس کے لیے وہ قابلِ صد مبارکباد ہیں۔ دہلی سرکارکے وزیر صحت ستیندر جین کی 30 مئی 2022 کو گرفتار ی عمل میں آئی۔ اس موقع پر نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے ٹویٹ کرکے الزام لگایا کہ جین کے خلاف آٹھ سال سے فرضی مقدمہ چل رہا ہے۔ اب تک کئی بار انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ستیندر کو بلا چکا ہے۔ اس درمیان ای ڈی نے کئی سالوں تک فون کرنا بند کر دیا کیونکہ انہیں کچھ نہیں ملا۔ اب یہ معاملہ دوبارہ شروع ہوا کیونکہ ستیندر جین ہماچل کے الیکشن انچارج ہیں۔انہوں نے کہا ہماچل میں بی جے پی بری طرح ہار رہی ہے۔ اسی لیے ستیندر جین کوگرفتار کرلیا گیا تاکہ وہ ہماچل نہ جا سکیں۔ انہیں چند روز میں رہا کر دیا جائے گا کیونکہ کیس مکمل طور پر جعلی ہے۔منیش سسودیہ کے چند دن 83روز بعد بھی پورے نہیں ہوئے لیکن اس سے قبل ان کی اپنی گرفتاری کا ماحول بن گیا۔ یہ اتنا سنگین معاملہ ہے کہ وزیر اعلی کو اپنے نائب کی حمایت میں پریس کرکے احتجاج کرنے کی نوبت آگئی ۔ اروند کیجریوال نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی پر کہا کہ : ہم جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ یہ لوگ ساورکر کی اولاد ہیں جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے انگریزوں سے معافی مانگی تھی۔ ہم بھگت سنگھ کے بچے ہیں جو انگریزوں کے آگے نہیں جھکے بلکہ ان سے لڑتے ہوئے تختہ دار چوما تھا۔منیش سسودیہ کو تادمِ تحریر گرفتار تو نہیں کیا گیا مگرجب دہلی کے ایل جی نے ایکسائز پالیسی کے حوالے سے سی بی آئی انکوائری کا فرمان جاری کردیا تو دہلی کے اروند کجریوال سمجھ گئے کہ عنقریب سسودیہ کو بھی جیل میں جاناہوگا ۔ اس لیے انہوں نے پیشگی پریس کانفرنس کرکے دباو بنانے کی کوشش کی تاکہ اس کا خاطر خواہ سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔کیجریوال نے کہا کہ وہ اس بات کا اعلان کئی ماہ پہلے کرچکے تھے ۔ یہ دعوی درست ہے۔ جون کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا۔ کیجریوال کے مطابق جب بی جے پی کے ذرائع سے ان کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے پوچھا کہ منیش سسودیا کو کس الزام میں گرفتار کیا جائے گا؟ اس کا جواب ملا ابھی تک یہ طے نہیں ۔ وجوہات کی تلاش کی جاری ہے مگر بہت جلد ان پر ہاتھ ڈالا جانا طے ہے ۔ اروند کیجریوال نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اب ہمارے ملک میں ایک نیا طریقہ رائج ہوچکا ہے ۔ اس کے تحت پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس کو گرفتار کرنا ہے ۔ اس کے بعد اس فرد خاص کے خلاف جھوٹے الزامات گھڑے جاتے ہیں اور بالآخر گرفتاری ہوجاتی ہے ۔وزیر اعلی اروندکیجریوال کے مذکورہ دعوی ویسے تو درست ہے لیکن اسے نیا کہنا غلط ہے۔ یہ پرانا طریقہ کار ہے ۔ خود ان کی ریاست دہلی میں فرقہ وارانہ فساد کی تحقیقی رپورٹ دہلی سرکار کے اقلیتی کمیشن نے شائع کرکے فسادیوں کی صاف نشاندہی بھی کردی ۔ اس کے باوجود فساد کی سازش رچنے کے بے بنیاد الزام میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک چلانے والے بے قصور لوگوں کو مرکزی حکومت کی پولیس نے اسی طرح گرفتار کرلیا جیسے اب جین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ فی الحال شور شرابہ کرنے والے اروند کیجریوال سمیت ان کے سارے ساتھی اپنے ہندو رائے دہندگان کی ناراضی سے بچنے کے لیے خاموش تماشائی بنے رہے ۔ تبلیغی جماعت کے کارکنان پر دہلی کے اندر کورونا جہاد کا جھوٹا الزام لگایا گیا اور ستیندر جین اپنی پریس کانفرنس میں اعدادو شمار پیش کرکے مرکزی حکومت کا بلاواسطہ تعاون کرتے رہے ۔یہ تو خیر پرانی باتیں ہیں لیکن ابھی حال میں دہلی کے مدن پور کھادر علاقے میں جب انسداد تجاوزات آپریشن کے دوران لوگوں نے پولیس پر پتھراو کیا تو کشیدگی پھیل گئی ۔ اس دوران عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خاں، عوام کی مدد کے لیے موقع واردات پر پہنچ گئے۔ اس وقت پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا بس پھر کیا تھا لوگوں کی مخالفت اور پتھراو میں اضافہ ہوگیا اور صورتحال بے قابو ہوگئی۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے امانت اللہ خاں نے میونسپل کارپوریشن پر غریبوں کے مکانات گرانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کی گرفتاری سے لوگوں کے گھر بچ سکتے ہیں تو وہ جیل جانے کو تیار ہیں۔ انہوں نے تجاوزات ہٹانے میں اپنا تعاون پیش کیا لیکن ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ جن غریبوں کے گھر گرا ئے جا ر ہے ہیں ان میں سے ایک بھی تجاوزات نہیں ہیں۔ آگے چل کر پولیس نے پورے علاقے کو گھیرنے کے بعد کچھ پتھرائو کرنے والوں کو حراست میں لینے کا دعوی کیا ۔یہ معاملہ تو فرقہ وارانہ بھی نہیں تھا کہ ہندو رائے دہندگان کی ناراضی کا خطرہ ہوتا اس کے باوجود عام آدمی پارٹی کے کسی بڑے رہنما کی جانب سے اس کی مذمت نظر نہیں آئی۔ دہلی پولیس نے اے اے پی کے ایم ایل اے امانت اللہ خاں کو ہسٹری شیٹر اور برے کردار کا حامل قرار دیا اور عدالت کو بتایا کہ ان کے خلاف 18 ایف آئی آر درج ہیں۔ ان سارے بے بنیاد الزامات کے بعد انہیں عدالتی حراست میں بھیجا گیا لیکن ایک دن کے بعد انہیں ساکیت کورٹ سے ضمانت مل گئی ۔یہ سب ہوتا رہا مگر جھاڑو والی ابن الوقت جماعت اس وقت سوچ رہی تھی کہ مودی کی رام بھگت مرکزی سرکارکیجریوال کی ہنومان بھگت صوبائی سرکار پر ہاتھ نہیں ڈالے گی لیکن اب پتہ چلا کہ یہ کل یگ ہے۔ اس میں اپنا کام نکل جانے پر کسی کو بھی جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی اس وقت تک بی جے پی کی منظورِ نظر تھی جب تک کہ کانگریس کی جڑ کاٹ رہی تھی۔ اب چونکہ وہ کمل کے راستے کا روڑا بن گئی ہے تو اس کو ہٹانے کا کام شروع ہوگیا ہے۔عام آدمی پارٹی اگر اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی تو آج اس کے ساتھ مسلمان سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوتے تو اوریہ نوبت نہیں آتی۔ اس خود غرض جماعت نے تو اپنے میونسپل کاونسلر طاہر حسین کو بھی پارٹی سے نکال کر دامن جھٹک لیا ۔ طاہر حسین کے ہندو پڑوسی گیانیندر کوچر نے تو میڈیا سے کہاجہاں تک میں جانتا ہوں، طاہر حسین فسادات میں ملوث نہیں ہیں۔ وہ امن کی کوششوں میں شامل تھے۔ کوچر نے گواہی دی کہ 24 فروری کو، دن ہنگامیوالے دن ، میں نے طاہر حسین کو ہندو مسلم مذہبی رہنمائوں اور اسسٹنٹ پولیس کمشنر کے ساتھ امن کی گزارش کرتے ہوئے دیکھا۔ پولیس عہدیداروں کی موجودگی میں انہوں نے ہندو اور مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماں سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن عام آدمی پارٹی ان کی حمایت میں آگے نہیں آئی ۔ جس ہندو متوسط طبقہ کی خوشنودی کے لیے عام آدمی پارٹی نے ظلم و جبر کی مخالفت سے گریز کیا تھا آج وہ اس کے ساتھ نہیں ہے۔اروند کیجریوال نے ایل جی اور مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے کی وجہ عام آدمی پارٹی مکمل ایماندارہونا ہے۔ بی جے پی اس کو بدنام کر کے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہر کوئی اس کی مانند بدعنوان ہے ۔ یہ ایک مبالغہ آمیز دعوی ہے لیکن جب مرکزی حکومت اور اس کے ادارے زعفرانی بدعنوانی سے آنکھیں موند کر صرف مخالفین کے پیچھے پڑجائیں تو اس انتقامی تفریق و امتیاز کی مخالفت ضروری ہوجاتی ہے۔ کیجریوال یہ سوال تو پوچھ ہی سکتے ہیں کہ مرکزی حکومت کمل کے اونٹ کو نگل کر جھاڑو کی مکھی کیوں چھانتی ہے؟ کیجریوال کے مطابق مرکزی حکومت پنجاب میں جیت کے بعد عام آدمی پارٹی کی پورے ملک میں توسیع کو روکنا چاہتی ہے۔ یہ دعوی درست نہیں ہے ۔ پنجاب کے ساتھ اترپردیش میں انتخاب ہوا وہاں سنجے سنگھ کی انتھک کوشش کے باوجود عآپ کو ایم آئی ایم سے بھی کم ووٹ ملے ۔ اس کے علاوہ گوا سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں مگروہاں بھی آپ کاکھاتہ تک نہیں کھل سکا ۔گجرات میں عام آدمی پارٹی کے داخلہ سے بی جے پی کا بھلارہا ہے۔ اس لیے ہر کسی کو حیرت ہے کہ آخر بی جے پی کو عآپ جیسی معمولی پارٹی سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ دراصل بی جے پی کا معاملہ یہ ہے کہ ان تو وہ اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگی ہے اور جب اروند کیجریوال گجرات میں زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کے اہل خانہ سے ہمدردی جتاتے ہیں اور گجرات کی شراب بندی پر تیکھی تنقید کرتے ہیں تو بی جے پی کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں کیونکہ ایک زمانے میں دہلی بھی بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ۔ وہاں سے لال کرشن ایڈوانی اور سشما سوراج جیسے لوگ انتخاب لڑا کرتے تھے۔ مدن لال کھرانا بہت مشہور وزیر اعلی تھے لیکن اب عام آدمی پارٹی نے جھاڑو سے اس کا سپڑا صاف کردیا ہے۔ بی جے پی کو ڈر ہے کہ کہیں گجرات میں جھاڑو چل جائے تو مودی اور شاہ دنیا کو منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔
