محب وطن علی سدپارہ کا سال

  شیخ میرزا علی 

گلگت  بلتستان میں کوہ پیمائی کیلئے آنے والے خطروں کے غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے سامان لادنے سے زندگی کا آغاز کرنے والا ، پہاڑوں کی سختی کو قریب سے دیکھنے والا باہمت نوجوان ، قلی سے قومی ہیرو تک کا کامیاب سفر کرنے والا ، بشری فطرت کو بروئے کار لاتے ہوئے کوہ شکن کا کردار رکھنے والا ، چہرہ پر مسکراہٹ بکھیرنے والا سکردو سے دنیا کی چھت کی طرف گامزن چڑھائی پر دیوسائی کے دامن سد پارہ گائوں میں پیدا ہونے والا محمد علی سد پارہ جس نے پوری دنیا کو ایسے ہلا کر رکھ دیا جیسے زمین پر ایک نیا پہاڑ ابھر رہا ہو جس نے مائونٹ ایورسٹ کی بلندی کو بھی مات دی ہو فروری 2021کا پہلا ہفتہ کوہ پیمائی کی سرنوشت میں ایک نئی تاریخ رقم کر گیا جو صرف ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جس نے تربیت پر عشق کو ترجیح دی ، سہولیات اور مراعات پر جذبات کی حکومت قائم کی اگر چہ سال جاری کے آغاز میں نیپالی کوہ پیما ٹیم نے پہلی بار K2سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا مگر اتنی پذیرائی نہیں پا سکی جو علی سد پارہ کے حصہ میں آئی جس میں زمین کی فطرت کابنیادی کردار ہے کیونکہ زمین کی اپنی خاصیت اور اثرات ہیں سدپارہ کو زمین سے بے پناہ عشق تھا جس کا اظہار کرنے میں کبھی کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکی حالانکہ زمینی حقائق اور اصول کوہ پیمائی کے مطابق محمد علی سدپارہ کے سامنے تمام بنیادی رکاوٹیں بدرجہ اتم موجود تھیں لیکن ساری رکاوٹوں کو عبور کرنے کی تاریخ بھی سدپارہ نے رقم کر دی .کوہ پیمائی کی دنیا میںگلگت  بلتستان کے حصے میں ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے نام روشن کرنے میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن میں نذیر صابر ، حسن سد پارہ ، میرزا علی ، ثمینہ بیگ ، محمد علی سد پارہ اور ساجد علی سد پارہ شامل ہیں جن میں سے ثمینہ بیگ پہلی مسلم کوہ پیما خاتون اور ساجد علی سدپارہ کم سن ترین کو ہ پیما ہونے کا اعزاز پا چکے ہیں یہ اعزاز تو مملکت خداداد پاکستان کو جاتا ہی ہے لیکن بہت تلاش کے باوجود مملکت میں کوئی ایسا سرکاری ادارہ نہیںجس کو اس اعزاز کا حقدار جانا جاتا ہوجو صرف قابل تعجب ہی نہیں بلکہ قابل افسوس بھی ہے اگر دیکھا جائے تو کوہ پیمائی سے وابستہ کلب تو موجود ہیں لیکن کسی حکومتی ادارہ کا نشان بھی ڈھونڈنے کو نہیں ملتا ہے حالانکہ گلگت  بلتستان دنیا کے نقشہ پر ایسا خطہ ہے جہاں پہاڑی سلسلے سب سے زیادہ ہیں اسی اعصاب و حوصلہ شکن K2کو لے لیں جو عالمی سطح پر بلندی میں دوسرے نمبر پر ہے اور پہاڑوں کی رفعت و جسامت میں عالمی درجہ بندی میں آنے والے کئی پہاڑ گلگت  بلتستان میں موجود ہونے کے ساتھ حکومتی اداروں کی راہ تک رہے ہیں امید رکھی جاسکتی ہے کہ محمد علی سدپارہ نے جس طرح پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انسانی زندگی کا نظام رک چکا ہے جسے انتظار ہے کہ سدپارہ جو دنیا کی نظروں سے روپوش ہے ابھی نمودار ہونے کو ہے اس مرحلہ کو ٹرننگ پوائنٹ سمجھا جائے یا قدرت کی طرف سے پیغام سمجھا جائے کوہ پیمائی کے شعبہ کی تخلیق کی جائے اور باقاعدہ سرکاری سرپرستی دی جائے تا کہ حکومتی فریضہ کی انجام دہی کا مشاہدہ ہو سکے ورنہ کوہ شگاف جذبہ اپنا وجود دکھاتا رہے گا اور گلگت  بلتستان کے عظیم کوہ پیما اپنا سفر عشق جاری رکھے ہوئے ہیں ویسے بھی بغیر سند کے گلگت  بلتستان پچھلے 74سالوں سے حب الوطنی کا کردار ادا کر رہا ہے تو کوہ پیمائی کیلئے کسی سند کی ضرورت کہاں رہتی ہے ۔گلگت  بلتستان میں موجودحب الوطنی کا اگر نچوڑ بیان کیا جائے تو محمد علی سد پارہ کا تاریخی انٹرویو جو انہوں نے کسی نیوز چینل کو ریکارڈ کروایا تھا کافی ہے جس میں یوں گویا ہوتے ہیں کہ ایک عرصہ سے بطور پورٹر غیر ملکی کوہ پیمائوں کے ساتھ پہاڑ کے سینہ پر چڑھتے اور مختلف ملکوں کے پرچم کو آویزاں ہوتے دیکھ کر ارادہ کیا کیوں نہ اس ملک کا پرچم اس پہاڑ کی چوٹی پر  لہرایا جائے جہاں یہ پہاڑ واقع ہیں اسی جذبہ نے سدپارہ کو اکسایا بے سروسامانی اور کسمپرسی کے باوجود اس حب الوطنی کا حق گذشتہ کئی سالوں سے ادا کرتا آیا ہے جو گلگت  بلتستان کے جذبات اور حب الوطنی کی مکمل ترجمانی ہے اس قومی ہیرو کا حق ہماری گردنوں پر ہے سب سے پہلے ریاست پر ہے پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ہے کیسا پہاڑ جیسا حوصلے کا مالک تھا جس نے سابق وزیر اعلیٰ جی بی سے شکوہ بھی نہایت مودبانہ انداز سے کیا کہ مجھے شکایت اس بات کی نہیں ہے کہ میری مالی معاونت کیوں نہیں کی بلکہ اتنا کہا کہ گلہ صرف اتنا ہے کہ کاش وعدہ نہ کرتے 6فروری سے جاری سرچ آپریشن کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن کروڑوں انسان دوست زبانوں سے سدپارہ کے نمودار ہونے کی دعا ہی نکل سکتی ہے جو اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ سال 2021محمد علی سدپارہ نے اپنے نام سے موسوم کرلیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکار اس عظیم قومی ہیرو کو قومی اثاثہ قرار دینے کیلئے کیا اقدامات اٹھاتی ہے ؟