محمد قاسم نسیم
جھیل کے پانی کے ذخیرے کو بڑھانے کی خاطر شہر میں روزانہ دن دو بجے سے شام چھے بجے تک پانی کی سپلائی بند رہے گی لیکن پچھلے کئی روز سے بلکہ جب سے گرمی کا زور بڑھ گیا ہے شہر کے بیشتر حصوں میں دن اور رات میں پانی کی سپلائی مکمل طور پر بندہے اور لوگ پینے کے پانی کے لئے ترس رہے ہیں۔ جگہ جگہ احتجاج بھی ہورہے ہیں۔ جب یہ کالم فائنل کررہاہوں طفیل کالونی کی خواتین مین شاہراہ کو بند کئے احتجاج میں مصروف ہیں مگر ذمہ دار حلقوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور کئی گھنٹے بعد بھی کوئی ان کی اشک شوئی کے لئے نہیں پہنچا ۔ یہی صورت حال دو روز قبل رات کو ژھے تھنگ کے لوگوں نے پبلک سکول کے سامنے مین شاہراہ کو بند کر کے بجلی کے حصول کے لئے احتجاج شروع کیا جس میں سد پارہ اور دیوسائی سے آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد میں گاڑیاں بھی پھنس گئیں تو گھنٹوں تک وہاں مظاہرین کے مطالبات سننے کوئی نہیں آیا ۔روز شہر کے کسی نہ کسی حصے میں پانی کے لئے احتجاج جاری ہے لیکن متعلقہ اداروں کے حکام لوگوں کو محدود وقت کے لئے ہی سہی پانی دینے میں ناکام ہیں اور ضلعی انتظامیہ اپنے اجلاسوں کے فیصلوں کے مطابق لوگوں دن دو بجے تک اور رات کے اوقات پانی کی سپلائی دلانے میں ناکام ہیں۔ ایسے اجلاسوں کا فائدہ ہی کیا جن کے فیصلوں پر عمل در آمد نہیں ہونا ہو تو ایسے اجلاس کا مقصد دفتروں میں آنے والے سائلین کو فقط باہر روکناہی رہ جاتا ہے۔ صرف پانی ہی نہیں بلکہ بجلی بھی اس وقت مکمل غائب ہے۔ جون اور جولائی کے مہینوں میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سکردو کی تاریخ میں پہلی بار ہور ہی ہے۔ سکردو شہر میں اس وقت دن میں دو گھنٹے اور رات میں تین سے چارگھنٹے بجلی ملتی ہے ۔ یہ سلسلہ بھی پچھلے چند روز سے جاری ہے وگرنہ رات کو بمشکل ایک گھنٹہ بجلی مل رہی تھی۔ابھی بھی انہی چند گھنٹوں میں بھی کئی بار بجلی جاتی ہے ۔ اب پھر سے یہ کہا جارہا ہے کہ واپڈا بجلی گھر ایک یونٹ میں خرابی آئی ہے لہذا اس کے ٹھیک ہونے تک بجلی لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مزید اضافہ ہوگا۔ جس کے باعث لوگ احتجاج پر مجبور ہورہے ہیں۔ اوپر سے انٹرنیٹ سروس اور گلگت سکردو روڈ کی بار بار بندش سے لوگ اور زیادہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہورہے ہیں۔ آج کے دن میں سکردو میں تندور بند ، ہسپتال دکانیں بند، شہر میںپانی بند، بجلی بند، صفائی کا سلسلہ بند، پیٹرول پمپ بند ہے لیکن لوگوں کو تڑپتا ہوا چھوڑا ہوا ہے ۔مہنگائی کا مسئلہ علیحدہ سے لاحق ہے ۔ پھر بار بار سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کی وجہ کیا ہے ۔ ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ نمائندے کہاں غائب ہیںجنہیں عوام نے اپنی رشتہ دار یاں متاثر ہونے کی پرواہ کئے بنا ووٹ دے کر منتخب کرائے اور ایوانوں میں پہنچایا اور آج اقتدار کے مزے اُٹھارہے ہیں ۔ وہ آج عوام کے درمیان کیوں نہیں ؟ عوام کی آواز میں آواز ملا کر ان کے مسائل کے حل کے لےے جدوجہد کیوں نہیں کررہے اور سرکاری خزانے سے تنخواہ مراعات کی مد میں لاکھوں روپے اُڑانے والے حکام اور افسران کہاں خواب خرگوش میں پڑے ہیں۔ دونوں جانب سے عوام سے یہ ذمہ دار لوگ لاتعلق بنے ہوئے ہیں تو سکردو شہر مکمل طور پر لاوارث بنا ہوا ہے۔ ان حکام کی دلچسپی صرف ان کا موں میں ہیں جن میں پیسہ ہے۔ عوام کی داد رسی کرکے اُنہیں کیا حاصل ہونا ہے ۔ اس کا احساس تو منتخب عوامی نمائندوں کو ہونا چاہیے تھا جب وہ بے حِس ہو گئے ہیں افسر شاہی سے ہی ساری توقعات وابستہ کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔تاہم عوام کے نام پر تنخواہ اور مراعات لینے والے یہ لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں جواب دہ ضرور ہیںاور یہ دنیا کا دستور ہے کہ جب کبھی مظلوم اُٹھیں گے تو اِنہیں شائد جائے پناہ نہ ملے ۔ لوگ سکردو کو سیاحت کے لےے مناسب ترین شہر تصور کرکے یہاں آتے ہیں۔ اب اس شہر کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ شدید گرمی کے باعث کوئی پینے کے لئے پانی طلب کرے تونلکوں میں پانی نہیں۔گرمی میں نہانے کیلئے لوگوں کو پانی دستیاب نہیں۔ گرمی تنگ کرے اور پنکھا چلانا مقصود ہو توبجلی نہیں۔ روٹی لینے کے لئے تندور بند،طبیعت خراب ہوجائے ہسپتال اور کلینکس بند اور حالات سے تنگ آکر واپس اپنے شہروں کو جانا چاہے تو پیٹرول پمپ بند اور اگر پٹرول بھی مل جائے تو جگلوٹ سکردو بند۔ تو آخر بندہ کرے تو کیا کرے۔ ایسے میں سکردو شہرمیں سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث لوگوں کی زندگی عذاب بن چکی ہے اور خوبصورت شہر سیاحت کے عین سیزن میں احتجاجوں کا شہر بن چکا ہے ۔ سکردو کے نمائندوں ، علما، عمائدین اور عوام کویہ دیکھنا ہوگا کہ یہ سب کچھ فقط حُسن اتفاق ہے یا پھر پچھلے دو سالوں سے سکردومیں سیاحت کے بڑھتے ہوئے مواقع کو دیکھتے ہوئے ایک سازش ۔؟دوسری جانب وزیر اعلی خالد خورشید اور چیف سےکرٹری کو صورت حال کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے وگرنہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق متاثرین جب اُٹھ کھڑے ہونگے تو عوام کے نام پر ووٹ لینے والے نمائندے اور انتظامی اور متعلقہ اداروں کے حکام کوعوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا ہوگا۔