طلباءکوکھانا نہیں معیاری تعلیم دیں

علی یونس علی 

 حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کے لئے ایک وقت کا مفت کھانا دینے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ہے جو کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سرسری طور پر غریب بچوں کی ایک وقت کی کفالت کی کوشش ضرور ہو سکتی ہے مگر ایک عام یا غریب بچے کیلئے سکول میں ایک وقت کے کھانے سے زیادہ اہم نکتہ معیاری تعلیم کی فراہمی ہے ۔ بدقسمتی سے پورا ملک اور بالخصوص گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں میں تعلیم کے معیار کو دیکھ کر دلی صدمہ ہوتا ہے کہ حکومتی سطح پر چلنے والے تمام کے تمام تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہمارے بچے جدید دور کی تعلیم جیسی دولت سے یکسر محروم ہیں اور ان سرکاری سکولوں کا حکومتی یا عوامی سطح پر کوئی پرسان حال نہیں ۔ کتنی ہی افسوس کی بات ہے کہ سرکاری سکولوں میں کروڑوں روپوں کی لاگت سے بڑی عمارتیں تو بنائی جاتی ہیں اور محکمہ تعلیم کا پورا ادارہ (نظامت تعلیمات)موجود ہے اس کے علاوہ اساتذہ کو ہزاروں سے لاکھوں روپے تنخواہیں اور مراعات بھی ہیں لیکن وہ اساتذہ جو ایک سرکاری سکول میں بحیثیت معلم یا معلمہ تعینات ہیں اپنے بچے کو سرکاری سکول پڑھنے کیلئے نہیں بھیجتے ۔ کیا اس قوم کا اتنا حق ہے کہ وہ حکومت ‘محکمہ تعلیم کے ذمہ داران یا ایک سرکاری اسکول کے استاد یا استانی سے یہ پوچھ سکے کہ حکومت کی جانب سے اتنی ساری مراعات کے باوجود آپ خود اپنی معلمی سے کیوں مطمئن نہیں ہیں کہ آپ اپنے بچوں اور عزیزوں کو سرکاری سکول میں داخل نہیں کرتے کیوں آپ کے بچے اچھی تعلیم کیلئے پرائیویٹ سکولوں کا رخ کرتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے اکثر نجی اسکولوں کے اساتذہ کو وہ سہولیات بھی میسر نہیں جو آج ایک سرکاری سکول کے ٹیچر کو حاصل ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں تاکہ لوگوں کو کتاب حکمت اور تزکیہ نفس کی تعلیم دوں اس حدیث کے مطابق معلمی کا پیشہ کتنا عظیم اور متبرک ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔اسی طرح ایک اور حدیث کے مطابق علم کاحاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دور میں ایک غریب مزدور اپنے بچے کو اس فرض شدہ میراث کا حصول کیسے ممکن بنائے جبکہ اس کے محلے کے سکول ٹیچر نے اپنے بچے خود نجی سکول داخل کر رکھے ہیں وہ عام غریب آدمی ضرور سوچتا ہے کہ میرے بچے کو سرکاری سکول میں معیاری تعلیم میسر ہوگی ؟ حکومت کے موجودہ فیصلے سے عام آدمی کیا تاثر لے کہ ایک عام آدمی اپنے بچے کو ایک وقت کے کھانے کیلئے سکول بھیجے یا علم کی بھوک مٹانے ؟شاید ہمارے حکمرانوں اور محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کو احساس نہیں ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میں سرکاری تعلیمی اداروں کا جو بیڑا غرق ہے اس کا تعین کس نے کرنا ہے ؟ اس جھلستی مہنگائی کے دور میں اپنا پیٹ کاٹ کر تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے حصول کیلئے غریب عوام آخر بھاری فیسیں دیکر سرکاری سکول کی نسبت پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں ؟ لہذا دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی معاشرے کے اہل افراد کو لیکر اس اہم اور بنیادی ادارے کی از سر نو تعمیر کرے تاکہ معاشرے کا ہر بچہ اچھی اور معیاری تعلیم سے مستفید ہو سکے جو کھانا دینے سے زیادہ اہم ہے ۔ میں آج فخر سے کہتا ہوں کہ ہم نے سرکاری سکول سے نہ صرف اچھی تعلیم حاصل کی بلکہ اچھی تربیت بھی حاصل کی جس پر میں اپنے اساتذہ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جب ہم اپنے زمانے میں سرکاری سکول جاتے تھے 1990 سے 2000 تک ہمارے دور میں گلگت شہر میں صرف دو یا تین ہائی سکول تھے اور دنیور میں جہاں ہم تعلیم حاصل کر رہے تھے ایک ہی بوائز ہائی سکول تھا اور لڑکیوں کا ایک مڈل سکول ہوا کرتا تھا اس دور میں تعلیم کے معیار کا اندازہ لگانا اس لئے بھی مشکل نہ تھا کہ اس وقت بھی گلگت میں نامی گرامی پرائیویٹ اسکول موجود تھے لیکن سرکاری سکول میں داخلہ پرائیویٹ سکولوں کی نسبت مشکل سے مل جاتا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول دنیور میں چھٹی کلاس میں پہنچا تو ہماری کلاس میں طلبہ کی زیادہ تعداد کے باعث تین سیکشنز بنائے گئے تھے اور میٹرک تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور ایک ایک سیکشن میں پچاس ساٹھ طلبہ زیر تعلیم تھے اور مجھے یہ بھی یاد ہے میرے کلاس فیلوز میں اکثر نجی تعلیمی اداروں سے چوتھی ‘پانچویں کلاس میں گورنمنٹ سکول میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے اور ہم نے میٹرک تک ساتھ تعلیم حاصل کی اور اس وقت ایک عام غریب کے بچے سے لیکر صاحب ثروت اور اساتذہ کے بچے بھتیجے سب سرکاری اسکولوں میں ایک ہی نصاب پڑھتے تھے اس کی وجہ یہ تھی سرکاری سکولوں میں وقت کے مطابق یکساں نصاب تعلیم کے ساتھ نظم وضبط سکھایا جاتا اور اساتذہ دل جمعی سے پڑھانا اپنا اصولی اور شرعی فریضہ سمجھتے تھے لیکن بدقسمتی سے آج وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری سکولوں میں تعلیم کا معیار آخری حد تک گر گیا ہے اور حالت یہ ہے کہ سرکار بچوں کو کتابیں بھی مفت دے رہی ہے ایک وقت کا کھانا بھی ہے لیکن ایک غریب بچے کو دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دینے میں ایک استاد اور حکومت دونوں قاصر ہیں ۔ حکومت گلگت بلتستان بالخصوص اور محکمہ تعلیم بالعموم معاشرے سمیت ہماری نسلوں اور ہمارے بچوں پر رحم کریں ان کو ایک وقت کے کھانے سے زیادی جدید تعلیم کی ضرورت ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے والدین آپ سے ملتمس ہیں کہ ایک پرائیویٹ سکول کی انتظامیہ اور استاد کم وسائل رکھنے کے باوجود وہ کونسی ایسی تعلیم دے رہا ہے جو آپ زیادہ وسائل کے باوجود دینے سے قاصر ہیں اس وقت دنیا کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی والدین اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم دلا رہے ہیں کیونکہ وہاں کا تعلیمی نصاب دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے لیکن کتنی بدقسمتی ہے کہ گلگت بلتستان جیسے پسماندہ خطے میں غریب لوگ سرکاری سکولوں کی موجودگی کے باوجود مجبور ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوانا ضروری سمجھتے ہیں ۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت سمیت ارباب اختیار اور محکمہ تعلیم کو اگر فرصت ملے تو اس اہم بنیادی مسئلے کی جانب توجہ دے ہمارے بچوں کو آپ کے کھانے کی نہیں اچھی مفت تعلیم کی ضرورت ہے آپ اچھی اور معیاری تعلیم دیں جو بچوں کا حق ہے ہمارے بچے ایک وقت کی بھوک بھی برداشت کر لینگے ۔ وما علینا الا البلاغ