خود کشیاں،اسباب و سدباب

 شیخ میرزا علی 

گلگت بلتستان میں اس وقت زیر بحث موضوع خود کشی ہے جو نہایت سنگین سماجی و معاشرتی ہے جس کے معاشرہ پر اور خطہ کی خوبصورتی پرنہایت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بالخصوص جن علاقوں کا تعلیمی تناسب بلند ترین شرح پر ہے اور علم دوست معاشروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے علاقوں میں خود کشی کی شرح میں مسلسل اضافہ کسی آفت سے کم نہیں ہے جو انسانی وجود کو جھنجوڑنے کیلئے کافی ہے۔ اس حساس نوعیت کے مسئلہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ ہر سطح پرتمام تر توجہ اس سنگین مسئلہ پر مرکوز کرنا ہو گی کیونکہ یہاں انسانی زندگی بچانے کا اہم فریضہ کی ادائیگی ہم سب کے کندھوں پر عائد ہے اور مذہبی اداروں کا فریضہ دوسرے اداروں سے اس لئے بڑھ جاتا ہے کہ مذہبی اداروں کی تعلیمات کی بنیاد نص صریح (قرآن و حدیث )ہوتی ہے جس میں نسل انسانی کی بقاءاور نفس انسان کے احترام کو شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ مائدہ کی 32ویں آیت میں صراحت کے ساتھ انسانی نسل کی بقاءمیں ایک انسان کو بچانا تمام انسانیت کی بقاءقرار دیا گیا ہے اس واضح حکم کی رو سے یہ کہا جاسکتا ہے انسانی معاشرہ ، یا انسان کہلوانے والوں نے یا انسانی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کرنے اور بین الاقوامی امداد پر پلنے والی رفاہی تنظیموں نے نہایت غفلت برتی ہے جس سے بری الذمہ ہونے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ہے اور پوری انسانیت ان دلسوز واقعات کے سامنے شرمندہ ہے ۔گذشتہ دنوں سے خود کشی کی وجوہات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اپنی تحریروں تجزیوں اور رپورٹوں میں ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے نتیجہ میں کوئی بھی انسان خود کشی کی سوچ پیدا کرتا ہے اور اقدام اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے اور اپنی قیمتی جان ، قیمتی زندگی کا فیصلہ اپنے ہاتھوں سے کرگزرتا ہے اگر چہ ایک انسان کے غلط قدم اٹھانے کے سبب انسانی معاشرہ پر پڑنے والے برے اثرات، ایک جیتے جاگتے انسان کا اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کے بعد سوگ کی کیفیت اور پے در پے واقعات کی خبریں پورے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں لیکن بحیثیت انسان ہم اب بھی بہت سے سنگین نوعیت کے اہم مسائل سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ہمیں دستیاب انسانی معاشرے میں کئی نوعیتوں کی خود کشیاں بھی بے شمار اور ان گنت ہو رہی ہیں جس کی شرح ان خودکشیوں سے کہیں زیادہ ہیں جو اس وقت موضوع بحث ہے جس کو محسوس نہیں کیا جارہا ہے اوریہاں سے ایک بڑے انسانی المیہ کو جنم دینے کی شروعات ہوتی ہیں ۔خود کشی کی عام تعریف کسی شخص کا اپنی جان کو قصدا ہلاک کرنے کا عمل انجام دینا ہے جس کے اسباب مختلف ہیں دماغی توازن کا بگڑنا ، بیماری سے دلبراشتہ ہونا ، اپنی زندگی کو بے مقصد سمجھنا ، زندگی پر موت کو ترجیح دینا ، مالی تنگدستی کے سامنے بے بسی اپنانا ، والدین کی نظروں میں اپنی حقارت محسوس کرنا ، خاندانی سرپرستوں کی جانب سے بلا جواز سختی سے بچنا ، دوستوں ہمکلامیوں کے طنزیہ جملوں کا برداشت نہ کرنا ، رشتوں میں سمجھوتہ اور مفاہمت اور توازن کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر اپنی جان اور زندگی کی قدر و قیمت کا نہ جاننا خود کشی کی طرف انسان کے کمزور اعصاب کومائل کرنے کی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں اس حوالے سے انسان کی قدر و قیمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے بالخصوص آج کے زمانے میں انسانی جان کی قدر و قیمت سے آگاہی ہر سطح پر ضروری ہے کیونکہ موجودہ سماج ،مادی سماج کی مکمل تعریف پر پورا اترتا ہوا معاشرہ ہے انسان کو شعور کے پیدا ہوتے ہی مادہ پرست بنایا جاتا ہے جس کا آغاز تعلیم سے شروع ہوتا ہے اچھی تعلیم دلوانے کیلئے اچھے پیسے کا ہوناضروری سمجھا جائے اچھی تعلیم کے حصول کیلئے اچھی اور بھاری فیسوں کو اسٹینڈرڈ قرار دیا جائے غریب اور نادار بچوں کیلئے اسٹینڈرڈ اداروں کے دروازے بند سمجھے جائیںتعلیم کے حصول کا اعلی ترین مقصد اور ہدف زیادہ تنخواہوں اور مراعات اور بین الاقوامی معیار کے اداروں کو قرار دیا جائے دوستوں کی صحبت میں انسانی دوستی کے جذبات کم اور گھریلو سرمایہ کے اظہار کے رویے زیادہ غالب ہوں تو اسے صاحبان عقل و شعور ، فہم و فراست مادی سماج سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ دین اسلام صاحبان استطاعت کے سرمایہ میں تنگ دستوں کا حصہ شامل سمجھتا ہے جس کو قرآن مجید متعدد آیات میں متعدد طریقوں سے بیان کرتا ہے مگر مجال ہے ایسی آیتوں کی معاشرہ میں تشریح و ترویج کی جائے پھر اس سرمایہ کے سالانہ منافع پر احناف کے نزدیک زکواة اور فقہ جعفریہ کے نزدیک خمس پر لاگو ہے لیکن معاشرتی مشاہدے میں بھی یہ حقیقت آئی ہے کہ اس مد میں جمع کرنے والی رقوم کو امانت کے بجائے ذاتی سرمایہ سمجھا جاتا ہے اور جائیداد بڑھانے کا ذریعہ قرار پایا ہے اس معاشرتی بگڑے حالات میں مادیت کو ہدف سمجھنے کے بجائے اہداف تک رسائی کا ذریعہ سمجھانا ضروری ہے تاکہ انسانی احترام اور انسانی جان کی قدر و قیمت متاثر نہ ہو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خود کشی کے اقدام کرنے والا فرد اچانک قدم نہیں اٹھاتا ہے وہ ایک عرصہ سے اپنے آپ سے لڑتا ہے اپنے ذہن پر حاوی کردہ خیالات کے لشکر کو تمام اعضاءو جوارح پر مسلط کر دینے کے بعد اپنا کمزور فیصلہ قیمتی جان پر حاوی کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرتا ہے پھر کہیں جا کر اقدام کرتا ہے اور مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے اپنی جان سے ہی چھٹکارا حاصل کرتا ہے اپنی اعصابی کمزور ی کے ذریعہ پورے خاندان کو سوگ میں مبتلا کر دیتا ہے اس حوالے سے تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے لیکن اس تحریر کا مقصد خودکشیوں کے دوسرے پہلوﺅں کی طرف بھی معاشرہ اور ارباب اختیار کو متوجہ کرنا مقصود ہے ۔گلگت بلتستان میں ایک ماہ کے اندر پے در پے خود کشی کے واقعات نے پوری فضا سوگوار کر دی ہے جس پر حکومت کو اپنی کمزوریوں پر غور کرنے ، والدین کو اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے اور سماج کو اپنے فرائض انجام دینے کی ضرورت ہے لیکن از خود زندگی کا چراغ گل کردینا انتہائی درجہ کی خود کشی ہے اس کے علاوہ بھی خودکشیاں ہمارے معاشرہ میں نہایت سرایت کر چکی ہیں۔ ٹریفک قوانین کی رعایت نہ کرنا ، دوران سفر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا ، روڈ کی تعمیر میں حفاظتی اقدامات کو یکسر نظر انداز کرنا خود کشی کو عام کرنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے موٹر بائیک سے رونما ہونے والے حادثات میں اموات کی شرح خود کشی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہے لیکن ٹریفک حادثہ کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے اس لئے خود کشی کا پہلو مغلوب رہتا ہے تیز رفتاری کے سبب رونما ہونے والے حادثات بھی خودکشیاں ہیں لیکن اسے بھی ٹریفک حادثہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خودکشی کے ان دونوں پہلوﺅں سے زیادہ خطرناک ہمارے معاشرہ میں دستیاب غیر معیاری اشیاءخود و نوش ہیں ایک انسان اپنے کمزور فیصلہ کے نتیجہ میںخود کشی کر بیٹھتا ہے جس سے ایک قیمتی جان سے معاشرہ ہاتھ دھو بیٹھتا ہے لیکن اشیاءخور و نوش کی مضر صحت مصنوعات پورے معاشرہ کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں زہریلے مصنوعات مختلف نوعیتوں کی بیماریوں کا سبب بنتی جارہی ہیں جس پر کافی تحقیق بھی کی جاچکی ہیں اور متعدد سروے رپورٹس بھی شائع ہو چکی ہیں اس عام اور بر ملا خود کشی کے اسباب کی طرف نہ انتظامیہ متوجہ ہے نہ حکومت کو اس کا احساس ہے اور نہ انجمن تاجران کو اس وسیع پیمانے کی خود کشی کا ادراک ہے جو نہایت افسوس ناک امر ہے اس کے علاوہ بھی خود کشیوں کے اقسام ہیں جن میں مذہبی ، سیاسی خود کشیاں عام ہیںسیاسی و مذہبی اقدار سے مکمل انحراف کرتے ہوئے جان کی قربانی دینا خود کشی کی ایک قسم ہے جن سے بچنے کی ضرورت ہے اور یہ تب ممکن ہے جب انسان اپنی زندگی اور جان کی قدر و قیمت جان سکے انسانی زندگی کا مالک رب العزت کو سمجھے اور موت و حیات کا اختیار پروردگار کو تفویض کرے ۔