شیخ میرزا علی
گلگت بلتستان ، قومی سطح پر ایک بار پھر سے موضوع بحث بن چکا ہے ماضی اور حال کی بیٹھکوں میں قابل ذکر فرق محسوس نہیں کیا جاسکتا ہے گزشتہ اور حالیہ نشستوں کا محور گلگت بلتستان ہے عالمی بدلتے حالات آج بھی ان نشستوں کی بنیادی وجہ قرار دی جاسکتی ہے عالمی سطح کی طاقتوں کی باہمی پنجہ آزمائی اور اقتدار کے حصول کی کشمکش میں گلگت بلتستان کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے لیکن عالمی اقتدار کیلئے کی جانے والی منصوبہ بندی کے تحت ا سٹریٹیجکٹ اہمیت کا حامل خطہ ہر عالمی حکمرانی کا خواب دیکھنے والے کے نقشہ میں اہمیت رکھتا ہے جس کو ہر پہلو سے تحفظ دینا ریاست پاکستان کی کامیاب حکمت عملی قرار دی جاسکتی ہے جس کے ذریعہ دشمن قوتوں کوواضح پیغام دینا اور عالمی سطح پرمسلمہ اسڑیٹیجکٹ اہمیت کے حامل خطہ کو اپنے حدود میں ثابت کرنا کسی بھی کامیاب و کارآمد ریاست کیلئے پلس پوائنٹ رکھتا ہے کیونکہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے نہایت حساس خطہ پر حکمرانی کسی بھی حکومت کی اہمیت کیلئے مستند دلیل سمجھی جاسکتی ہے جو 1947کے بعد سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حاصل رہی ہے اور مملکت خداداد پاکستان کے ابدی دشمن بھارت کی نیندیں اڑانے والی کامیاب حکمت عملی بھی ایسی پالیسی میں مضمر ہے کہ گلگت بلتستان کو ملک کا اٹوٹ انگ قرار دیا جائے جس کیلئے بیان بازی کی حد تک اکتفاءنہیں کیا جائے بلکہ اٹوٹ انگ قرار دینے کے تمام آئینی و قانونی اقدامات اٹھائے جائیں اس دشمن شکن پالیسی کو یقینی بنانے کیلئے سب سے پہلے بین الاقوامی حائل رکاوٹوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دور کرنے کیلئے جامع حکمت عملی اپنانی ہو گی،قومی مفاد کی اہمیت کے حامل جڑے تمام معاملات کو متاثر کئے بغیر آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خطہ کو آئینی تحفظ دینے پر سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سنجیدگی کی کمی گذشتہ 74سالوں سے اب تک محسوس کی جارہی ہے جو خطہ کے عوام کیلئے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ قومی عزت و وقار کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہو رہا ہے ۔گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں آئینی طور پر شامل کرنے کا تعلق صرف پاک چین دوستی سے نہیںبلکہ عالمی سطح پر ریاست پاکستان کا وقار بڑھانے کے ساتھ ملکی استحکام و سلامتی کے کئی پہلوﺅں کو یقینی بنانے کی ضمانت ہے جیسے پاک ہند آبی تنازعات جس سے قومی زراعت کی بہتری و ترقی وابستہ ہے جس کو یقینی بنانے کیلئے گلگت بلتستان کو مستقل بنیادوں پر آئین پاکستان کا مسلمہ حصہ قرار دینا ہو گا۔ عارضی ، وقتی ، عبوری اقدامات ریاست پاکستان کی جانب سے اہم تریں خطہ کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر غیر سنجیدگی کا تاثر قائم کرےں گے جس کا بھر پورفائدہ اجنبی و دشمن قوتیں اٹھانے کی کوشش کریں گے جس سے نوجوان نسل میں احساس محرومی بڑھے گا ۔گلگت بلتستان کے حوالے سے یکم جون 2022کووفاقی دارالحکومت میں دو الگ نوعیت کے اجلاس ہوئے ایک اجلاس میںگلگت بلتستان کی اسٹریٹیجکٹ اہمیت موضوع بحث تھی جس میں قانونی ، دفاعی و سفارتی ماہرین نے اپنی آراءو تجاویز پیش کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ گلگت بلتستان کو عبوری سیٹ اپ دینے میں کوئی بین الاقوامی رکاوٹ نہیں ہے البتہ مستقل و آئینی صوبہ دینے میں درپیش رکاوٹوں کا پریس میں چھپنے والی خبر میں کوئی ذکر نہیں ہے دوسرا اجلاس جس میں وفاقی مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک بار پھر کشمیری قیادت نے گلگت بلتستان کو کشمیر سے جوڑتے ہوئے ایک چھتری کے نیچے لانے کی تجویز دی ۔کشمیری قیادت کی تجاویز گلگت بلتستان کے حوالے سے کس حد تک موثر ہو سکتی ہیں یہ الگ موضوع ہے لیکن جب کبھی بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی فورم وفاقی سطح پر بٹھایا جاتا ہے کشمیری قیادت اپنا موقف پیش کرتی آئی ہے اور اسلام آباد میں جاری گفت وشنید پر اثر انداز ہونے کی کوشش جاری رکھی ہے مذکورہ دونوں اجلاس اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے وفاقی سطح پر ملکی حالات جیسے بھی ہوں گفتن نشستن کا سلسلہ جاری ہے جو وقت کا تقاضا بھی ہے ملکی استحکام کی ضمانت اور عالمی بدلتے منظر نامہ میں قومی مفاد کا تحفظ بھی ہے مگر اتنے بڑے پیمانے پر بیٹھکوں ، مفاہمت و مشاورت ، تجاویز و آراء، تبصرے و تجزیے ، عالمی و ملکی قوانین کا جائزہ ، 74سال کے طویل و اعصاب شکن انتظار اور سب سے بڑھ کر نہایت حساس اور جغرافیائی اہمیت کے حامل گلگت بلتستان کے 28000مربع میل 72971مربع کلو میٹر کو صرف عبوری سیٹ اپ دینے کی غرض سے کسی بھی پہلو سے قومی سنجیدگی کا مظاہرہ قرارنہیں دیا جاسکتا ہے ایسے اقدامات ریاست کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں یا گلگت بلتستان کی اہمیت کو کھو دینے کا تاثر قائم کر سکتے ہیں جبکہ دونوں صورتیں گلگت بلتستان کے عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتی ہیں۔ اگر چہ خطہ کے ہر محب وطن شہری کی یہی آرزو بھی ہے دلی خواہش بھی کہ نہ ریاست کو غیر سنجیدہ دیکھنا چاہتا ہے نہ خطہ کی اہمیت کو کسی بھی قیمت پر کھونے کو برداشت کر سکتا ہے اس کے باوجود کہ ہر شہری اپنی آنکھوں سے ریاست کی جانب سے گلگت بلتستان کے ساتھ روا رکھے جانے والا دوہرے معیار کا بغور مشاہدہ بھی گذشتہ 74سالوں سے کر رہا ہے جب بھی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کا مرحلہ آتا ہے خطہ کی آئینی حیثیت کومسئلہ کشمیر سے جوڑدیا جاتا ہے ‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیا جاتا ہے قراردادا کی شقوں کی پاسداری کا جذبہ ابھر آتا ہے کشمیری قیادت بھی اپنا وجود دکھانا شروع کر دیتی ہے آئینی حیثیت کے تعین سے ہٹ کر دیگر معاملات میںکشمیری قیادت کی خواہشات اور بیانیہ کے بالکل بر عکس ، یا یوں کہا جائے کہ کشمیری قیادت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے گلگت بلتستان کا پاکستان سے سر دھڑ کا رشتہ بھی قائم ہو جاتا ہے بلکہ پاکستان شروع ہی گلگت بلتستان سے ہوتا ہے مارشل لاءبھی یہاں نافذ ہو جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان بھی یہاں لاگو ہو جاتا ہے ایکسائز اور ٹیکسیشن کا دائرہ بھی پھیل جاتا ہے ،بقول کشمیری قیادت شناختی کارڈ کاا جراءبھی قراردادوں کی روشنی میں نہیں کیا جاتااستصواب رائے کے ممکنہ مرحلہ کی پاسداری نہیں کی جاتی بلکہ بعض حلقوں کی جانب سے آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ کی تجویز کو اس لئے مسترد کیا جاتا ہے کہ ایک ریاست میں تین صدور تین وزراءاعظم کیسے ممکن ہیں جب ایک ملک میں صدور دو ہوسکتے ہیں وزراءاعظم دو ہو سکتے ہیں تو کیا حرج ہے تین ہو جائیں جب دوسرا صدر قومی مفاد کی خاطر برداشت ہو سکتا ہے تو تیسرا کیوں نہیں جب ایک نہیں تو بے شک گنتی جتنا چاہیں اور بڑھا دیں (اگر چہ راقم نے آزاد کشمیر طرز کی بات کی ہے نہ کبھی حمایت کی ہے ) لیکن بات رویوں کی ہو رہی ہے دوہرے معیار کی ہو رہی ہے تو زمینی حقائق بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں لیکن گلگت بلتستان کی جانب سے الحاق پاکستان کا اعلان نومبر1947کوہو چکا تھا جس کی آج کشمیری قیادت کسی خاص مقصد کے تحت تردید کر رہی ہے اس الحاق کے اعلان کی جانب مثبت جواب کے طور پر مارشل لاءکے نفاذ ، نیشنل ایکشن پلان اور ایکسائز اور ٹیکسیشن اور حکومت پاکستان کی مردم شماری کا حصہ بنتے ہوئے نادرا کا شناختی کارڈ حاصل کرنے کو اپنی منزل کی جانب ایک قدم سمجھا گیا اور اسی قومی جذبہ کے تحت 1994کو پانچواں صوبہ کا تصور پیش کیا گیا جس پر آج بھی قائم ہیں اور پانچواں صوبہ کو ملکی استحکام ، معاشی ترقی ، ملکی سرحدوں کی تقویت سمجھتے ہیں ۔