پاکستان میں کس کی جان کو خطرہ نہیں ؟

اسلم لودھی



عمران خان کا اقتدار جب سے ختم ہوا ہے ، اس وقت یہ تکرار مسلسل سننے میں آ رہی ہے کہ ان کی جان کو خطر ہ ہے، اس لیے ان کو فول پروف سیکےورٹی دی جائے ۔ عمران خان کی اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مریم نواز کا یہ کہنا ہے کہ چار سال عوام کے پیسوں سے پروٹوکول کی جو عادت پڑ گئی ہے ، اسی سیکےورٹی اور پروٹوکول کے عمران اب بھی طلبگار ہیں ۔ مریم نواز نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ عمران خان سے قتل کی سازش کے ویڈیو ثبوت لیے بغیر نہ چھوڑنا ، قوم کے مجرم اور سب سے بڑے فتنے کو سیکےورٹی ضرور دیں لیکن ان کو اپنی اوقات سے باہر مت کرنا ۔ایک جانب مریم نواز کا یہ بیان تو دوسری جانب ترجمان وزارت داخلہ نے عمران خان کی سیکےورٹی کے حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کی سیکےورٹی کو فول پروف بنادیا گیا ہے ۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے

 اداروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں ۔بنی گالہ کی سیکورٹی کے لیے پولیس اور ایف سی کے 94 جوان تعینات کیے گئے ہیں ، ان کے علاوہ خیبر پختون خوا پولِیس کے 36، اسلام آباد پولیس کے 22،گلگت بلتستان کے چھ اہلکاروں کو بھی عمران خان کی سیکےورٹی کے لیے بنی گالہ میں تعینات کیا گیا ہے۔عمران خان جب ذاتی مصروفیات اور جلسوں وغیرہ سے خطاب کے لیے گھر سے نکلتے ہیں، توپو لیس کی چار گاڑیاں ، 23 اہلکار، رینجر کی ایک گاڑی اور پانچ اہلکار ہمہ وقت ان کے ہمراہ ہوتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گاکہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے تو پاکستان میں وہ کونسا شخص ہے جس کی جان کو خطرہ نہیں ہے ، کیا حکومت ہر شخص کو سیکورٹی فراہم کرسکتی ہے ہرگز نہیں ۔مجھے کہنے دیجیئے کہ اب تو سیکورٹی اداروں کو بھی سیکورٹی کی ضرورت پڑگئی ہے بلکہ ہزاروں افسر اور جوان چھوٹے بڑے سرکاری افسروں کے گھر اور دفتروں کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک عام شخص گھر سے دفتر جانے کے لیے نکلتا ہے ،راستے میں کو ئی تیز رفتار گاڑی اسے ٹکر ما ر دیتی ہے تو اس کی موت کا ذمہ دار کون ہو گا ۔ مشرف کے دور میں تو بے تحاشا لیکن اب بھی کہیں کہیں بم دھماکوں اور خود کش دھماکوں کی باز گشت سنی جا رہی ہے ، اس کی زد میں آکر راہ گیر بھی جام

 شہادت نوش کرتے ہیں اور سیکےورٹی اہلکار بھی ، کیا ان کی جانیں قیمتی نہیں کہ ان کو بچانے کے لیے بھی پولیس اور فوج کے اہلکارتعینات کیے جائیں ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر امریکی صدرکینےڈی کوگولی ماری جا سکتی ہے ، وزیراعظم پاکستان نوبزادہ لیاقت خان کو راولپنڈی میں شہید کیا جاسکتا ہے، بے نظیر بھٹو کو عوام کے درمیان میں ہلاک کیا جاسکتا ہے تو عمران خان کس باغ کی مولی ہیں ۔ میرا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ جب موت کا مقررہ وقت آتا ہے تو دنیا کی کوئی سیکےورٹی انسان کو موت سے نہیں بچا سکتی ۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ۔ مجھے مریم نواز کی یہ بات ٹھیک لگتی ہے کہ عمران خان کو وزرات عظمی کے دوران جو وی آئی پی سیکورٹی اور پروٹوکول حاصل تھا ، کسی نہ کسی بہانے وہی فول پروف سیکورٹی اور پروٹوکول اب بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر جان کو اتنا ہی خطرہ ہے تو ہر روز جلسوں سے خطاب کے لیے ہر جگہ کیوں پہنچ جاتے ہیں ۔

 دنیا کی کوئی طاقت اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ جلسہ عام میں جن لوگوں سے خطاب کیا جا رہا ہے ان میں کوئی ملک دشمن عناصرموجود نہیں ہے ۔ آجکل تو عورتیں بھی خود کش دھماکوں کے لیے استعمال ہو رہی ہیں جبکہ عمران خان کے جلسوں میں زیادہ تر عورتیں ہی آتی ہیں، ان عورتوں میں کون سی اچھی ہے اور کونسی دہشت گرد اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ہر جلسے میں عمران خان لوگوں کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ جب میں تمہیں اسلام آباد بلواﺅں توموت سے ڈرے بغیر چلے آنا ، بیس لاکھ انسانوں کو میں اسلام آباد میں اکٹھا کرکے میں امپورٹڈ حکومت ختم کرنا چاہتا ہوں ۔یہ ارشادات عمران خان کے اپنے ہیں اگر عمران خان کی جان کو خطرہ ہے تو جو ماں کے بیٹے عمران کے جلسوں کی رونق بنتے ہیں ، جو بہنوں کے بھائی پی ٹی آئی کے پرچم اٹھائے جوش و خروش سے عمران خان کی تقریریں سنتے ہوئے نعرہ زن ہوتے ہیں کیا ان کی جان کو خطرہ نہیں ۔ کیاان کی جانیں عمران خان سے کم قیمتی ہیں ۔ کیا 94سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود عمران خود کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں تو انہیں روزانہ کسی نہ کسی جگہ جلسے میں خطاب کرنے کی عادت کو بدلنا ہو گا ۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے جب وہ لمحہ آن پہنچتا ہے تو پھر کوئی سیکےورٹی، فرشتے کو جان قبض کرنے سے نہیں روک سکتی۔حیرت تو اس بات کی ہے کہ عمران اپنے چاہنے والوں سے بہادری کا تقاضا کرتے ہیں لیکن خود موت کا خوف انہیں چین نہیں لینے دے رہا۔اللہ نئے پاکستان کے اس ڈرپوک معمار سے وطن عزیز کو محفوظ رکھے۔آمین۔