
خود مختارلداخ
بھارتی مقبوضہ کشمیر کا علاقہ لداخ آج کل پھر سے خبروں میں ہے ،مگر اس بار چینی PLA کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہاں کی عوام BJP/RSSحکومت سے خود مختار ریاست اور اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے لداخ تبت کا حصہ ہے اور اس پر تبتی اور چینی بادشاہوں کی حکومت رہی ہے۔ تاریخ دان اروڑالکھتے ہیں کہ یہاں سے ملنے والے مجسموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلگت اور استور کے دارد لداخ پربھی حکومت کرتے تھے ۔مسلم صوفیاء اور اولیاء نے لداخ اور بلتستان میں اسلام کی تبلیغ کی اور اس کا اصل سہر ا سید علی ہمدانی کے سر جاتا ہے۔1834میں ایک سکھ جنرل زورآور سنگھ نے لداخ پر حملہ کیا اور اسے سکھ سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ 1841میں سکھوں کو چینیوں نے شکست دی اور لداخ پر قبضہ کر لیا۔ خطے میں یورپیوں کی آمد کا آغاز 1850میں ہوا اور لہہ برطانیہ کی سرحدی پوسٹ بنا۔ مشہور شاہراہِ ریشم سرینگر، لہہ، دولت بیگ اولدی، قراقرم پاس سے ہوتی یارکند، خوتن سے کاشغر جایا کرتی ہے۔1937تک کشمیر سے کاشغرتک تجارتی قافلوں کا آنا جانا معمول کی بات تھی۔ گلگت بلتستان اور کارگل کے لوگوں کا آپس میں مذہبی ، قومی اور لسانی رشتہ ہے۔ تاریخی اعتبار سے لداخ زیادہ عرصہ سکردو کے حکمران کے زیرِ اقتدار رہا ہے خصوصاََ مقپون حکمرانوں کے۔ تقسیم ہند سے پہلے لداخ کی تین تحصیلیں ہوا کرتی تھی، سکردو ، کارگل اور لداخ ۔ لداخ پر وزیر وزارت (آج کل کے ڈپٹی کمشنر ) کے ماتحت ہوتا تھا جو کہ بلتستان کو بھی سنبھالتا تھا۔ سردیوںمیں وزیر وزارت سکردو رہائش پذیر ہوا کرتا تھا۔ لداخ کے لوگ بدھ مت کے پیرو کار ہیں اور منگول نسل سے تعلق رکھتے ہیں اوروادی نوبرہ کے مقیموں کے علاوہ سب ہی پست قامت ہوتے ہیں۔ بلتستان کے لوگ دراصل تبتی نسل سے ہیں، اور ان میں فرق دراز قامت، مختلف معاشی عادات اور مذہب کا ہے۔ بلتستان پہلے وادیٔ سندھ اور دیو سائی کے رستے دراس( کارگل ) سے ملحق ہوا کرتا تھا۔ دریائے سندھ کا سرچشمہ ماناسروورجھیل ہے جوکہ تبت میں واقع ہے۔ یہ دریا لداخ سے ہوتاہوا بلتستان آتا ہے۔ دریائے شیوک بھی فرنو کے مقام پر لداخ سے بلتستان داخل ہوکر کیریس( سکردو) میں دریائے سندھ سے ملتا ہے۔ آزادی کی جنگ کے دوران آزادی فورسز نے گلگت بلتستان، دراس اور کارگل قبضہ کرلئے تھے اوروہ لہہ تک پہنچ چکے تھے۔ کارگل جنگ میں بھی پاک فوج نے بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا اور اس میں ملی برتری آج تک پاکستان کو فائدہ پہنچا رہی ہے ۔ پاکستان اس مقام سے بھارت لداخ اور سیاچن جانے والے سپلائی کے راستے کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس پر غلبہ پا سکتا ہے۔ 5اگست2019کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور 35-A منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد انہوں ایک نیا نام نہاد سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں آزاد جموں کشمیر کو بھارتی نئی یونین ٹیریٹری مقبوضہ جموں و کشمیر کا حصہ دکھایا گیا تھا، اور گلگت بلتستان کو لداخ کی یونین ٹیریٹری کا۔ پاکستان اور چین دونو ں نے ان نئی یونین ٹیرٹریز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لداخ میں اکسائی چن ، جو کہ 43000مربع کلومیٹر مشتمل ہے ، 1962 کی جنگ میں بھارت کی عبر ت ناک شکست کے بعد سے چین کے زیرِ انتظام آ گیا ہے۔چین بین الاقوامی سرحد کی حیثیت صرف مکارتنے مکڈونلڈ لائن کو تسلیم کرتا ہے جس میں اکسائی چن چین کا حصہ ہے۔ لداخ جنگ کے حوالے سے پاکستان، چین اور بھارت تینوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ تبت سے زنجیانگ تک رسائی اکسائی چن کے رستے ہو تی ہے جو بھارتی مقبوضہ کشمیر (لداخ) اور چین کے زنجیانگ صوبے کے درمیان واقع ہے۔مشرقی لداخ کی 826کلومیٹر طویل سرحد چین سے ملتی ہے۔ قراقرم پاس اس کے شمال میں اور دمچوک جنوب مغرب میں واقع ہے۔ چین کو لداخ کے علاقے میں برتری مل گئی ہے کیونکہ اس نے G219شاہراہ تعمیر کر لی ہے جو کہ اکسائی چن سے گزر کر six finger road بناتی ہوئی آگے کے علاقوں تک جاتی ہے۔ لداخ میں موجود سیاچن گلیشئر پر بھارت کی موجودگی اہمیت کی حامل ہے۔ سیاچن گلیشئر لداخ کے تحفظ کے لئے بہت اہم کیونکہ اس سے کارگل اور لہہ کے رستے پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ چینیPLA کی حالیہ کارروائیوں اور بھارت کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد اب دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاچن کو اب چین اور پاکستان کے جوائنٹ آپریشن کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔ لداخ کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھارت سری نگر، کارگل اور لہہہ ہائی وے پر14.5کلومیٹر طویل زوجیلا سرنگ بنا رہا ہے جو کہ سارا سال کھلی رہے گی۔ تاریخی اعتبار سے جموں و کشمیر پر بھارتی تسلط کے بعد لداخ کے لوگوں نے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ نہرو کو دی گئی ایک یاداشت میں لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن نے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیاتھا۔ 60کی دہائی میںبھی لداخ کے لوگوں نے خودمختاری کا مطالبہ کیا تھا۔ 1979میں لداخ کو دو ضلعوں میں تقسیم کر دیا گیا، لہہ جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت تھی اور کارگل جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ لداخ میں1989 میں ہونے والے بدھ اور مسلمانوں کے درمیان فسادات کی بھی تاریخ رہی ہے۔ ماضی میں بدھ آبادی مسلمانوں کو زبر دستی مسلمان کرنے کی کوششیں بھی کرتی رہی ہے۔ یہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادی 39.7 فیصد ہے اور ہندووں کی آبادی 12.1 فیصد ہے۔ حال ہی میں کچھ ایسا ہوا جو پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا، کہ مسلمان اور بدھ دونوں قوموں نے آزاد اور خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار پورے لداخ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال دیکھنے کو ملی۔ متحرک تنظیم لہہ کی اپیکس باڈی جو تمام سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی رکھتی ہے اور بدھسٹ ایسوسی ایشن اور کارگل ڈیمو کریٹک الائینس شامل ہیں۔ان سب جماعتوں نے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا ہے جس کا علیحدہ قانون ہوگا۔وہاں کی عوام نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی طرح ڈومیسائل کا قانون ان کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ انہیں ڈر ہے کہ اس علاقے میں بھی بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرح صورتحال نہ پیدا ہو جائے جہاں ہر کوئی ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے۔ لداخ کے لوگوں کو اب آرٹیکل 370اور35-Aکی اہمیت کا اندازہ ہواہے جو کہ لوگوں کو اس علاقے میں زمین کی خریداری اور سرکاری نوکری کے حصول سے روکتا تھا ۔ اب لداخی اس خوف میں ہیں کہ کہیں وہ اپنی شناخت، آبادیات، زمین اور نوکریاں باہر سے آنے والوں کے ہاتھوں نہ کھو دیں۔ انہوںنے بھارتی آئین کے چھٹے شیڈیول میں شرکت کا بھی مطالبہ کیا ہے جو قبائلی علاقوں کی خودمختاری کو یقینی بناتی ہے۔ لداخ کی97 فیصد آبادی شیڈیول قبائل میں آتی ہے۔ لہہ کے لوگوں نے بھارتی حکومت کے آرٹیکل 370اور35-Aکی منسوخی کی حمایت کی ہے جبکہ کارگل کے لوگوںنے اسکی کھلی مخالفت کی ہے۔ ماضی میں بھارت نے یہاں فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی تا کہ شیعہ مسلم آبادی کو آزادی کی جد وجہد سے روکا جا سکے۔ لیکن BJP/RSSکے حالیہ اقدامات نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور خصوصاََ کارگل کے تمام مسلمانوں کو متحد کر دیا ہے۔ اب لوگوں نے مزید قوت کے ساتھ اپنے مطالبات اور حقوق کا تذکرہ شروع کر دیا ہے اور زیادہ تر آبادی بھارت کی غاصب فوج سے آزادی حاصل کرنے کی جد وجہد کرنا چاہ رہی ہے۔وادی کی مرکزی آبادی کے آس پاس کے تمام علاقوں میں بھارت مخالف جذبات جنم لے رہے جو کہ ایک مسلح بغاوت کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔