العباس ایجوکیشنل کمپلےکس

احسان علی دانش

گلگت بلتستان سے اپنے مرکز اسلام آباد کے درمیان جیسا جغرافیائی فاصلہ پایا جاتا ہے ویسے ہی انتظامی و اقتصادی امور میں بھی فاصلے پایے جاتے ہیں۔گلگت اور بلتستان کے درمیان شاہراہ بلتستان بننے کے باوجود بھی ان دونوں مراکز کے درمیان بھی اسی طرح کے فاصلے جوں کے توں ہیں ۔ بلتستان کا مرکز سکردو ہے جو ایک بڑے شہر کا روپ دھارتا جارہا ہے ایسے میں شہر اور مضافات بلکہ دور دیہات میں فرق اور فاصلے یہاں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔بلتستان کا مرکزی شہر سکردو ہونے کے ناتے تمام تر لوڈ بھی اسی شہر پر ہے۔چونکہ تمام اداروں کے مراکز اسی شہر میں موجود ہیں۔لہذا روزانہ صبح صبح لوگوں کو دفتری اور کاروباری کام نمٹانے کے لئے سکردو شہر آنا پڑتا ہے اور شام کو لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔سکردو شہر میں کاروباری حضرات اور سرکاری ملازمین کے علاوہ طلبا کی ایک کثیر تعداد سکردو شہر میں رہائش پذیر ہیں اور یہاں کے مختلف تعلیمی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔جن کے لیے یا تو اپنے گھر بار ہیں،یا ہاسٹل ہیں یا دیگر لوگوں کے گھروں میں رہائش مانگتے ہیں۔دیگر لوگوں کے گھروں میں قیام کرنے والے طلبا شاذ و نادر ہی کامیاب ہوتے ہیں۔شگر کا دور افتادہ علاقہ برالدو ہے۔کہنے کو یہ نہایت پسماندہ گاﺅں ہے جہاں وسائل نہ ہونے کے برابر ہے مگر اسی برالدو میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو موجود ہے اس کے علاوہ بھی کئی دیگر بلند چوٹیاں اور گلیشیئر بھی اسی وادی میں پائے جاتے ہیں جہاں سال بھر دنیا کے سیاح آرہے ہوتے ہیں اور مقامی لوگ منفعت حاصل کررہے ہوتے ہیں۔برالدو کے باشعور لوگ ایک عرصے سے اسی سوچ و بچار میں مبتلا تھے کہ ہمارا علاقہ علمی مراکز سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہیں ایسے میں اس جدید صدی میں بھی ہماری اولاد جدید علوم سے روشناس نہ ہو سکی تو یہ اندھیرے مزید تاریکی اور جہالت میں بدلتے جائیں گے جس کا خمیازہ مستقبل میں بہت برا بھگتنا ہوگا اس لیے اب بھی نئی نسل کو زمانے کے حساب سے چلانے کے لیے اولا بلتستان کے مرکز سکردو میں ایک ایسے مرکز کا قیام ناگزیر ہوگا جس میں زندگی کی تمام تر سہولتیں میسر ہوں اور طلبا بنا کسی دشواری اور پریشانی کے صرف اور صرف تعلیم حاصل کر سکیں اور مزید پندرہ سے بیس سالوں کے اندر علاقہ جدید تعیلم کی روشنی سے جگمگا سکے اور اس دور افتادہ علاقے میں زندگی کی تمام تر سہولیات اپنے قدموں سے خود چل کر پہنچ سکے۔ اس علاقے کا ایک جہاں دیدہ بلکہ دیدہ ور عالم الدین مولانا غلام عباس صاحب جن کے حق میں علاقے کی عوام کی دعائیں شامل ہیں انہوں نے اس عظیم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا بیڑا اٹھایا اور ان کے عزم صمیم اور جہد مسلسل نے یہ منصوبہ خیال سے کاغذ،کاغذ سے زمین اور زمیں سے فضا تک پھیل گیا۔یعنی سکردو شہر کے بھی مرکز میں ایک عالیشان ہاسٹل کے قیام کا خواب حقیقت کا روپ دھارتا نظر آنے لگا۔مولانا صاحب کی خوش بختی یہ تھی انہیں کراچی کے ایک مخیر ایر کموڈور کی قولی،فعلی،اخلاقی اور مالی معاونت حاصل ہوسکی اور تین سال کی قلیل مدت میں ایک پانچ منزلہ العباس ایجوکیشن کمپلکس کی پر شکوہ عمارت کھڑی ہوگئی جس کا افتتاح نامور عالم الدین،قبلہ شیخ محمد حسن جعفری صاحب امام جمعہ و جماعت سکردو کے دست مبارک سے فیتہ کاٹ کر ہوا۔مولانا غلام عباس جہاں ریا،کبر اور لالچ سے دور ایک متقی انسان ہیں وہاں ان کی نظر مستقبل کے دور افق پر جمی ہوئی ہے جہاں اپنے علاقے کی قسمت کا روشن سورج طلوع ہوتا دیکھ رہے ہیں۔اس سورج کے طلوع ہونے کے بعد علاقے سے جہالت کی تاریکی ہمیشہ کے لیے چھٹ جائے گی۔اس ایجوکیشنل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب میں بلتستان بھر سے علمائے کرام،سیاسی نمائندے،سرکاری حکام دانشور اور برالدو بیانگساپا کے عمائدین موجود تھے۔اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ شیخ محمد حسن جعفری صاحب نے کہا کہ برالدو کی عوام علی الخصوص مولانا غلام عباس مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے جس طرح کی جدو جہد کی وہ قابل صد ستائش و آفریں ہے۔ملت کو چاہیے کہ روشن مستقبل کی خاطر اپنی نئی نسل کو جدید علوم سے ہم آہنگ کریں۔اس موقع پر وزیر تعلیم راجہ اعظم خان صاحب نے عندیہ دیا کہ تعلیم سے مربوط اس عظیم مقصد کے لیے ذاتی طور پر بھی اور اپنے محکمے کی طرف سے بھی جتنا ممکن ہو سکے تعاون کرنے کی کوشش کریں گے۔اس منصوبے کے سب سے بڑے ڈونر کموڈور جناب عاصم رضا صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس فلاحی کام میں مدد کر کے جو خوشی حاصل ہو رہی ہے وہ لفظوں میں بیان ہونا مشکل ہے۔میں آج اپنے آپ کو خوش بخت گردانتا ہوں۔جبکہ اس منصوبے کے روح رواں مولانا غلام عباس نے اس بڑے منصوبے کی تکمیل پر اپنے رب کا شکر بجا لایا اور جناب عاصم رضا صاحب سمیت اپنے انجنیر اور بیانگسا پا کی عوام کا خصوصی شکریہ ادا کیا جن کے بھر پور تعاون سے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔اس افتتاحی تقریب میں دیگر لوگوں کے علاوہ سابق سپیکر قانون ساز اسمبلی حاجی فدا محمد ناشاد،سابق مشیر جناب عمران ندیم،علامہ شیخ جواد حافظی،نامور سکالر محمد حسن حسرت،شیخ مظفری معرفی فاﺅنڈیشن کے جی ایم جناب فاصل علی،ڈاکٹر شریف استوری، ڈاکٹر حسن خان، وزیر حمید، حاجی فضل علی، سمیت شہر کے اکابرین سٹیج پر جلوہ افروز تھے ۔اس افتتاحی تقریب کی نظامت کی سعادت راقم کے حصے میں آئی ۔مولانا غلام عباس کی اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے بیش بہا دلچسپی دیکھ کر میں نے فی البدیہہ شعر کہا۔

بلندی کے بھی قابو سے بلند تر ہو ہی جائے گا

کرشمہ یہ بھی جادو سے بلند تر ہو ہی جائے گا

بلند ہونے لگا ہے آج سے اب خطہ برالدو

کسی دن اپنے کے ٹو سے بلند تر ہو ہی جائے گا

قبلہ شیخ حسن جعفری صاحب کے اس خطے پر بڑے احسانات ہیں ۔اس خطے کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کی کاوشیں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں لہذا جب آپ خطاب فرمانے سٹیج پر جلوہ افروز ہو رہے تھے تو استقبال اس شعر سے کیا گیا۔

اتنا سا گفتگو کا سیاق و سباق ہے

وہ شخص شہر مہر میں لاکھوں میں طاق ہے

ہے نام اس کا شیخ حسن جعفری حضور

وہ قصر اتحاد و در اتفاق ہے

اس کمپلکس کی تعمیر میں برالدو بیانگساپا کے کاریگر،مزدور،عوام بلکہ علما اور سرکاری ملازمین تک نے دن رات ایک کی تھی اور باہمی راوداری اور اتحاد و اتفاق کی لازوال مثال قائم کی تھی۔ایسے میں ایک قطعہ کا یہ طبقہ بھی حقدار بنتا تھا۔

رگہ لوکھ تھودلوکھ چی لا زیربں 

رگالوکھسی ژھنگسا پونگ لا تریس

کھورے دوکسے نہ سپلبی خنم 

دیرینگ رنگ تھنگسا پونگ لا تریس

میلوکھ ببلوکھ نہ تھد لوکھ 

ترقسے فلق چک گوے تمی ہرکنگ پو

تھولے سونگسے ناتی برالدو

 غویونگو بیانگسا پونگ لا تریس۔