ملکی تعمیروترقی میں علاقائی اخبارات کی اہمیت

محمد شاہد صدیقی

آج کے اس ترقی ےافتہ دور میں ےہ کہا جاتا ہے کہ ےہ دور جدےد ذرائع ابلاغ کا دور ہے لہذا اخبارات کی ضرورت و اہمےت کم ہوتی چلی جا رہی ہے اس موقف و نکتہ نظر میں کوئی حقےقت نہےں ہے کےونکہ لکھے ہوئے لفظ کی اہمےت کسی طور کم نہےں ہو سکتی اگر اےسا ہوتا تو اللہ رب العزت کبھی بھی اپنے کلام میں قلم اور جو کچھ لکھتے ہےں اس کی قسم نہ کھاتا۔اس نے تےر‘ تلوار‘نےزے ‘بم‘ مےزائل کی قسم نہےں کھائی بلکہ قلم کی قسم کھا کر ےہ بتا دےا کہ لکھا ہوا ہر دور میں اپنی وقعت رکھتا ہے ۔ذرائع ابلاغ کی دنیا میں علاقائی اخبارات کو ہمیشہ سے ایک خاص مقام حاصل رہا ہے ، آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی کے باعث الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میدان صحافت میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہونے کے باوجود علاقائی اخبارات اور ان سے وابستہ ہزاروں کی تعداد میں اہل قلم اور صحافیوں کی اہمیت کسی بھی طرح کم نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ اسے جارحانہ انداز میں بے لگام سوشل میڈیا جیسے ملک دشمن عناصر پشت پناہی حاصل ہے نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کے طول و عرض میں سنسنی خیزی کے ذریعے افراتفری پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ایسے میں ایک عام آدمی کیلئے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے، پس پردہ سوشل میڈیا آپریٹر معاشرتی تباہی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کیلئے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ملک میں انارکی اور بے یقینی پھےلانے میں مصروف عمل ہیں ان حالات میں علاقائی اخبار مزید اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں، علاقائی اخبار دراصل صحافت کی نرسری کی مانند ہیں اکثر نامور صحافیوں نے اپنی صحافت کا آغاز انہی علاقائی اخبارات سے کیا چنانچہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ علاقائی اخبارات ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت خاموشی سے اپنا یہ قومی فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ملک کے دورافتادہ علاقے جہاں آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی خبررسانی کا کوئی موثر اور مربوط نظام موجود نہیں ہے وہاں تک حکومتی کارکردگی اور حکومت کی طرف سے شروع کیے جانے والے عوامی فلاحی منصوبوں کو عوامی سطح پر روشناس کرانے کا ایک موثر ذریعہ ہیں عوام اور حکومت کے درمیان علاقائی اخبار روابط کا ایک مضبوط ذریعہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ادارے عوامی مسائل کی نشاندہی اور منصوبہ سازی کے وقت انہی اخبارات سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ رفاہ عامہ کے حکومتی منصوبے مثلاً فراہمی آب، صحت ، ذرائع آمدروفت ، کھیل ، توانائی ، امن عامہ و دیگر ملکی تعمیر و ترقی کے حکومتی منصوبوں کو عوامی تائید و حمایت دلانے میں یہ اخبار ہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومتی کارکردگی سے متعلق علاقائی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ملک کے تمام صربوں کے چھوٹے بڑے شہروں سے شائع ہونے والے علاقائی اخبار اور ان سے وابستہ صحافی، کارکن محدود وسائل کے باوجود قلم کی طاقت و حرمت کا ادراک رکھتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پوری دیانتداری سے اپنا یہ فرض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ملکی قانون ساز اداروں میں استحصال زدہ طبقات اور انسانی حقوق سے متعلق جتنے بھی قوانین منظور ہوئے ہیں ان میں علاقائی اخبارات کی رہنمائی کلیدی حیثیت رکھتی ہے، مقامی سطح پر سماجی ، تعلیمی ، تجارتی ، زرعی و دیگر شعبوں کے علاوہ اپنے گلی محلوں کے مسائل مقامی انتظامیہ اور سیاسی قیادت کے ذریعے حکام بالا تک پہنچاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً صاحب اختیار کی چوکھٹ پر دستک بھی دیتے رہتے ہیں ۔اس طرح حکومت کی طرف سے شروع کیے جانے والے مفاد عامہ کے منصوبوں کا آغاز اور ان کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہیں علاقائی اخبار ہوتے ہیں۔ یہ براہ راست سماجی ، سیاسی، ثقافتی اور معاشی حوالوں سے قومی سطح کے اخبارات سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں علاقائی سطح پر تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات خواہ ان کا تعلق سیاست ، تعلیم ، سماجی خدمات، تجارت ، زراعت وغیرہ وغیرہ سے ہو قومی سطح پر ان کی پہچان اور متعارف بھی انہی اخبارات کے مرہون منت ہے یہ اخبارات اپنے علاقے کی تہذیب و تمدن ، رسم و رواج اور شفافیت کا آئیٰنہ دار ہوتے ہیں۔ یہ علاقائی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہوئے علاقائی سیاست پر اثر انداز ہونے کے ساتھ مقامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے اور سیاسی تبدیلی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی اور اس کا استعمال جس قدر وسیع ہورہا ہے، دنیا اسی قدر سمٹ رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے جہاں مختلف آلات اور مشینیں استعمال ہو رہی ہیں وہاں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بھی دور جدید کی ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کررہا ہے اوراپنے قارئین و سامعین اور ناظرین کے سامنے نت نئی خبریں، اطلاعات اور معلومات رکھ رہا ہے۔ عوام الناس تک جو خبریں، اطلاعات اور معلومات بہم پہنچائی جارہی ہیں اس کے پیچھے کوئی تو نیٹ ورک ہے جو ایک منظم و مربوط طریقے سے خبر رسانی کا یہ کام کررہا ہے۔ یہ نیٹ ورک مقامی و علاقائی صحافیوں کا ہے جن کی اہمیت آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں بھی کم نہیں ہوئی یعنی جو ٹیکنالوجی خبر رسانی اور معلوما ت کی فراہمی کے لئے بنائی گئی ہے اس میں اگر اطلاعات و معلومات اور خبروں کا ماخذ، علاقہ اور ذریعہ نکال دیا جائے تو یہ ٹیکنالوجی بذات خود بے سود ثابت ہوگی البتہ دیگر فوائد کی حامل ٹیکنالوجی اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر بہت سود مند ہوسکتی ہے۔ لہذا علاقائی اخبارات اور صحافی اس سارے کھیل کے مرکزی کھلاڑی ہےں جن کے بغیر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود اس سے بھرپور استفادہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔علاقائی صحافت کی اہمیت کو دورِ حاضر میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک وقت تھا جب اطلاعات کی ترسیل کا نظام مربوط و منظم تھا نہ آسان، اس وقت علاقائی اخبارات ہی تھے جو اپنے علاقوں کی سیاست، سماج، تہذیب و تمدن، فن و ثقافت، رسم ورواج ، تجارت و معاش، معاشرتی رجحانات اور علاقائی مسائل کو اجاگر کرکے اپنی آواز نہ صرف مقتدر حلقوں تک پہنچاتے تھے بلکہ دیگر علاقوں کو بھی اس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو اخبارات آج بھی یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ یہ علاقائی اخبارات ہی کا نیٹ ورک ہے جس سے قومی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا استفادہ کرتا ہے۔الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے موجودہ ترقی یافتہ دور میں علاقائی اخبارات کی اہمیت دو چندہوئی ہے۔اسی لےے علاقائی صحافت تیزی سے پنپ رہی ہے لہذا علاقائی اخبارات مزید اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ آج ہماری قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین، بچوں، کسانوں، استحصال زدہ طبقات اور انسانی حقوق سے متعلق جتنے بھی قوانین منظور ہوئے ہیں ان میں علاقائی اخبارات کی رہنمائی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ شہروں سے سینکڑوں میل دور جہاں کی آبادی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہوتی ہے، جہاں جاگیردار اپنے ہاری، مزارع اور بستی کے عام باسیوںکو اپنا غلام سمجھتا ہے وہاں ظلمت کے اس انسانیت سوز نظام میں علاقائی اخبارات ہی ہیں جنہوں نے جرات کی شمع روشن کی اور انسان کو اس استحصالی نظام سے نجات دلائی۔ علاقائی اخبارات نے مقامی قیادت، سیاسی ، سماجی، تعلیمی، معاشی اور دیگر شعبوں کے مسائل ہمیشہ خوش اسلوبی سے اجاگر کئے، یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ علاقائی اخبارات سے زیادہ منسلک ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سطح کی معلومات انہیں ٹی وی اور قومی اخبارات سے حاصل ہو رہی ہیں مگر قومی اخبارات میں جگہ نہ ہونے اور ٹی وی پر وقت نہ ہونے کے باعث ان کے اصل مسائل قومی میڈیاکی مجبوریوں کی دبیز تہہ تلے جم کر ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔موجودہ حالات کے پیش نظر سوشل میڈیا کے منفی پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت علاقائی اخبارات کے مسائل کے حل کی طرف خصوصی توجہ دے۔ سابقہ تبدیلی سرکار کے دور میں علاقائی اخبارات کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اور ان کو ختم کرنے کیلئے دانستہ طور پر جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ان کا ازالہ کرتے ہوئے حکومت وسائل مہیا کرے تاکہ علاقائی اخبار اور ان سے وابستہ صحافی اپنی صحافتی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کرتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں علاقائی سطح تک مصدقہ خبریں اور حکومتی نقطہ نظر عوام تک پہنچانے کا قومی فریضہ ادا کرتے رہیں۔پرنٹ میڈیا انڈسٹری بالخصوص وہ علاقائی اخبار جو باقاعدگی سے پورے سازوسامان کے ساتھ اپنی اشاعت کا اہتمام کرتے ہیں آج جن معاشی مسائل کا شکار ہیں شاید ایسے پہلے کبھی نہ تھے چنانچہ حکومت کی جانب سے معیاری اور باقاعدگی سے شائع ہونے والے علاقائی اخبارات کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔