ڈاکٹر سلیم خان
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا استقبال کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے آزادی کا امرت مہوتسو 75 ویں سال کا جشن کا ذکر کیا۔ اس موقع پر جس برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی لڑی گئی تھی اس کے سربراہ مملکت سے وزیر اعظم نے کہا ان کا ، یہاں آنا، اپنے آپ میں ایک تاریخی لمحہ ہے۔ وزیر اعظم نے دورہ ہند کے دوران جانسن کے ذریعہ سابرمتی آشرم میں مہاتما گاندھی کو گلہائے عقیدت پیش کرنے کی توصیف کی کیونکہ گاندھی جی نے انگریزوں سے لوہا لیا تھا اور اس کی پاداش میں انہیں کئی بار سابرمتی جیل میں جانا پڑا تھا ۔ اس تقریب سے دو دن قبل وزیر اعظم نے گرو تیغ بہادر سے متعلق لال قلعہ میں منعقد ہونے والی تقریب میں بڑی تفصیل کے ساتھ اورنگ زیب کا ذکر کر کے ایک ظالم و سفاک بادشاہ ثابت کرنے کی سعی کی لیکن انگریزی سامراج کے خلاف ایک لفظ زبان پر لانے کی جرات نہیں کرسکے۔ کیا یہ اس لیے کیا گیا کہ ان سے معافی تلافی کے بعد وفاداری کے عہدو پیمان اور ساز باز ہوچکی تھی ؟مودی جی کے ذریعہ بورس جانسن کی تعریف و توصیف کا سبب یہ بھی تھا کہ ایک دن قبل وہ جے سی بی فیکٹری کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے بلڈوزر پر چڑھ کر مسکراتی تصویر کھنچوائی تھی ۔ فی الحال ملک کے اندر بلڈوزر اسی ظلم و جبر کی علامت بنا ہوا انگریزحکمراں آزادی کے متوالوں کے ساتھ روا رکھتے تھے ۔ یہ جان کر بورس جانسن کا احساسِ جرم کم ہوا ہوگا بلکہ خوشی ہوئی ہوگی کہ ہندوستان میں سامراجی روایات کا اب بھی بول بالا ہے۔ اس کے باوجود برطانوی وزیراعظم نے ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا ۔ 100 سال قبل، جس جگہ برطانوی حکومت نے گاندھی جی کو غداری کی سزا دی تھی اسی سابرمتی آشرم میں چرخہ کات کر بورس جانسن گاندھی جی کے نظریات سے اتفاق کا اظہار کیا۔اس وقت بورس جانسن کے شانہ بشانہ فی زمانہ اظہار رائے کی آزادی اور حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے والے بے قصور لوگوں پر غداری کے مقدمات چلا کر جیل بھیجنے والے کھڑے تھے۔بی جے پی نے بلڈوزر کو کس بات کی علامت بنادیا ہے اگر برطانوی وزیر اعظم نہیں جانتے کہ تو انہیں راجیہ سبھا کے رکن جی وی ایل نرسمہا راو کا ٹویٹ دیکھ لینا چاہیے جس میں لکھا ہے،جے سی بی کا مطلب جہاد کنٹرول بورڈ جے سی بی جہاد کنٹرول بورڈ۔ اس ٹویٹ پر تنازع کے بعد اسے ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ کاش کے برطانوی وزیر اعظم اتنے بھولے نہ ہوتے یا نہ بنتے ۔ کیا انہوں نے آزادی کے 75سال بھی ہندوستانی عوام کو بیوقوف سمجھ رکھا ہے یا احمق بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسا اگر ہے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے جس عظیم جمہوریت کی تعریف کی اس کو ثابت کرنے کا کام ان کے پرانے باجگذاروں نے گجرات کے رکن اسمبلی اور دلت رہنما جگنیش میوانی کو گرفتار کرکے کردیا۔ ایک ٹویٹ کی پاداش میں انہیں گرفتار کرکے آسام لےجایا گیا اور ضمانت ملنے پر ایک اور مقدمہ میں پھنسا کر ثابت کردیا کہ انگریز استاد تو گڑ تھے مگرشاگرد شکر نکل گئے۔ جگنیش میوانی پر یہ عتاب وزیر اعظم کے خلاف ایک ٹویٹ پر درج مقدمے کے سبب آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آسام پولےس کو مرچ کیوں لگ گئی؟ اس ٹویٹ کا پہلا جملہ تھا کہ ، گوڈسے کو اپنا معبود ماننے والے وزیر اعظم نریندر مودی 20تاریخ سے گجرات کے دورے پر ہیں۔اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم نے گوڈسے کو اپنا معبود نہیں کہا بلکہ جب بی جے پی رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر نے ناتھو رام گوڈسے کی تعریف کی تو اس پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زبانی جمع خرچ کے باوجود پرگیہ ٹھاکر پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی الٹا ایوان پارلیمان میں قومی سلامتی کے امور کی کمیٹی کا رکن نامزد کردیا گیا ۔ پرگیا کے علاوہ بی جے پی کے اور بھی کئی منہ زور رہنما گوڈسے کی تعریف اور گاندھی جی کی توہین کرتے رہتے ہیں ۔ ہندو مہا سبھا کے رہنماتو گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر ہر سال گاندھی جی کی تصویر پر گولی چلا کر ویڈیو کی تشہیر کرتے ہیں لیکن ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ جگنیش تو خوش قسمت ہیں جو ان پر یو اے پی اے یا غداری کا الزام نہیں لگا ورنہ شاہین باغ کی جدوجہد میں شامل عمر خالد جیسے کئی بے قصور قید و بند کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ بھیما کورے گاﺅں کے فرضی مقدمات میں پھنسائے گئے نولکھا جیسے دانشور جیل میں ہیں لیکن گوڈسے نوازوں کو بی جے پی کی ریاستی اور مرکزی حکومت کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔ اس لیے مودی جی اس الزام سے بہ آسانی بچ نہیں سکتے ۔جگنیش میوانی نے آگے لکھا ،ان وزیر اعظم سے اپیل ہے کہ گجرات میں ہمت نگر ، کھمبات اور ویراول میں جو قومی حادثات فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں اس کے خلاف شانتی اور امن کی اپیل کریں ۔ مہاتما مندر کے معمار سے اتنی امید تو بنتی ہے۔ ہنومان جینتی کے موقع پر گجرات کے ان مقامات پر فساد پھوٹ پڑا تھا۔ ایسے میں وزیر اعظم سے گاندھی مندر کاواسطہ دے کر امن و امان کی اپیل کی گزارش جرم ہے؟ لیکن آسام میں بی جے پی رہنما اروپ کمار ڈے کی دل آزاری ہوگئی ۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ جگنیش میوانی کا ٹویٹ ممکنہ طور پر ایک مخصوص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے عوام کے ایک حصے کو بھڑکا سکتا ہے۔ وہ مخصوص کمیونٹی کون ہے؟ اس کا ایک حصہ بھلا امن و امان کی اپیل پر کیوں بھڑکے گا ؟ یہ سوالات اہم ہیں ۔ بظاہر تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ جن لوگوں نے جلوس نکالا اور اشتعال انگیز نعرے لگا کر فساد برپا کیا وہی اس سے بھڑکے گا ؟ اگر ایسا ہے توکیا وزیر اعظم سے انہیں سمجھا بجھا کر پر امن نہیں کرنے کی گہار لگا نے میں غلط کیا ہے؟بی جے پی کے ترجمان ٹی وی چینلز پر اروپ ڈے کی شکایت سے پلہ جھاڑتے ہیں پھر بھی میوانی پر مجرمانہ سازش، عبادت گاہ سے متعلق جرائم، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور امن میں خلل ڈالنے کے الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں ۔ کسی ٹٹ پونجیا بی جے پی رہنما کے خلاف بھی اس طرح کی بے بنیاد ایف آئی آر نہ لکھی جائے گی اور نہ کوئی اقدام ہوگا لیکن چونکہ ایک سیاسی سازش کے تحت جگنیش کو پھنسانا اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کو ڈرانا مقصود تھا اس لیے بلاتاخیر آسام کی پولیس ٹیم کو کوکراجھارسے پالن پور کا قصد کرکے گرفتار کیا اور لے گئی۔ اس ظالمانہ کارروائی کو جگنیش میوانی نے بجا طور پر وزیر اعظم کے دفتر کی انتقامی سیاستقرار دیا۔ پچھلی بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہونے والے رکن اسمبلی میوانی کا اس بارکانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑنااصل مسئلہ ہے ۔ اس سال گجرات انتخاب میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے اس لیے وہ گاجر اور ہنٹر کی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔ ہاردک پٹیل کو زعفرانی گاجر کھلاکر اپنا بنا لیا۔ میوانی پر یہ حربہ نہیں چلا تو ہنٹر برسائے جارہے ہیں ۔ انگریزوں نے بھی ساورکر کو گاجر کھلا کر گاندھی پر ہنٹر برسائے تھے۔جگنیش میوانی کو پہلی ہی سماعت میں عدالت نے ضمانت دے دی لیکن برپیٹا پولیس انہیں نے انہیں ایک نئے معاملہ میں فورا گرفتار کر لیا ۔جگنیش پر اب آسام پولیس کی ایک خاتون سے گالی گلوچ کرنے ، سرکاری کاموں میں رکاوٹ ڈالنے اور حملہ کرنے کا الزام ہے۔ جگنیش پر کوکرا جھار میں حراست کے دوران ان جرائم کے ارتکاب کا الزام تو لگا دیا گیا لیکن کیا پیشے سے وکیل میوانی ایسی جرات کرسکتا ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ اس خاتون اہلکار نے کوکرا جھار سے برپیٹا جاکر مقدمہ درج کرانے کی زحمت کیوں کی؟ انتظامیہ کی اس حرکت نے میوانی کے انتقامی کارروائی والے الزام کی توثیق کردی ۔جگنیش میوانی کا قصور یہ ہے کہ دلت سماج کے ایک نوجوان ، پر جوش اور مضبوط رہنما ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کی ڈانڈی یاترا سے تحریک لے کر دلتوں کی اسمیتا یاترا یاترا کا اہتمام کیاتھا۔کانگریس نے جگنیش کی گرفتاری کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار جرم نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت خود امبیڈکر کے آئین پر حملہ کررہی ہے۔ ایک دلت کو اس طرح ہراساں کرنا سراسر جرم ہے۔ آخری سوال یہ ہے کہ گجرات سے آسام تک بی جے پی کے کروڑوں بہی خواہ ہیں۔ اس ٹویٹ سے آخر ان کے جذبات کو ٹھیس کیوں نہیں پہنچی ؟ گجرات سے انہیں آسام لے جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ گجرات میں ان کی گرفتاری کا زبردست ردعمل ہوسکتا تھا۔ ان کے تئیں ہمدردی کا کانگریس کو فائدہ ہوسکتا تھا اس لیے آسام لے جایا گیا لیکن بی جے پی کو یاد رکھنا چاہیے کہ فی الحال جدید ذرائع نے دنیا کو ایک گاوں بنادیا ہے۔ اب اگر جگنیش جیسے کسی رہنما کو آسام کے بجائے ٹمبکٹو بھی لے جایا جائے تو اس کی قیمت بی جے پی کو چکانی پڑے گی ۔سیاست میں علامت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ہندوستان جب آزاد ہوا تو معیشت پر زراعت غالب تھی ۔ کسانوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی خاطر کانگریس نے اپنی پارٹی کا انتخابی نشان حل جوتنے والے دو بیلوں کی جوڑی رکھا۔ اس زمانے کی سب سے بڑی حزب اختلاف کمیونسٹ پارٹی کے نشان میں درانتی کے بطن میں مکئی کی بالیاں دکھائی گئیں۔ سرمایہ داروں کی حامی بھارتیہ جن سنگھ کو لگا کہ کسانوں میں اپنی دال نہیں گلے گی اس لیے اس نے چراغ کو انتخابی نشان بنایا اور جہالت کا اندھیر پھیلانا شروع کردیا ۔ آگے چل کر ملک میں صنعتی ترقی ہوئی اور کمیونسٹ پارٹی منقسم ہوگئی ۔ اس نے درانتی کے اندر اناج کی بالی کو ہتھوڑا سے بدل دیا ۔ اسی زمانے میں چرن سنگھ نے لوک دل بنائی توحل والے کسان کو ایک صنعتی پہیے سے گھیر دیا۔ جن سنگھ کا پونر جنم ہوا تو اس نے کمل کو نشان بنایا ۔ اس وقت سیاسی بدعنوانی کے کیچڑ میں مختلف شناخت کے ساتھ صاف ستھری شبیہ والی نئی پارٹی کو پیش کیا گیا۔ بی جے پی فی الحال اپنی شبیہ بدل رہی ہے اور اس نے غیر اعلانیہ طور اپنا نیا انتخابی نشان بلڈوزر ایجاد کرلیا ہے۔بی جے پی فی الحال ڈراو اور راج کرو کی حکمت عملی پر کام کررہی ہے ۔ بی جے پی کے منہ زور رہنما اور اس کے حامی دھرم گرو ہندو عوام کو مسلمانوں سے خوفزدہ کرتے ہیں ۔ ان کو ڈراتے ہیں کہ بہت جلد مسلمان برسرِ اقتدار آجائیں گے اور ان پر ظلم و ستم ہونے لگے گا۔ اس کے بعد انہیں بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں پر بے دریغ بلڈوزر چلا کر قابو میں رکھتی ہے ۔ اس لیے سرکار دربارکی تمام تر ناکامیوں کے باوجود محض تحفظ فراہم کرنے کے سبب انتخاب میں کامیاب کیا جائے۔ یہی خوف مسلمانوں کو ان سے بدعہدی کرنے والی پارٹیوں کو ووٹ دینے پر مجبور کرتا ہے ۔ اس طرح گویا سیاست کے بازار میں خوف کا کاروبار کرکے ہر کوئی اپنی دوکان چمکا رہا ہے لیکن اگر کھرگون میں ہندو دوکانداروں پر بلڈوزر چل گیا اور جہانگیر پوری میں بھی یہ ہوگیا تب تو بی جے پی نہ گھر کی رہے گی نہ گھاٹ کی ۔ انتخاب کے دوران مبادہ یہ بلڈوزر کمل پر ہی چل جائے گا ۔قومی سیاست میں بلڈوزر کااستعمال اتر پردیش سے شروع ہوا ۔ بی جے پی کا الزام تھاکہ سماجوادی پارٹی کے راج میں غنڈوں بدمعاشوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے اور عدالتیں ان کو بروقت سزا دینے سے قاصر ہیں۔ اس لیے یوگی نے مافیا کے خلاف بلڈوزر کا استعمال شروع کیا اور تابڑ توڑ سزا سے غنڈہ گردی کا شکار لوگ خوش ہونے لگے۔ یوگی کا بلڈوزر مختار انصاری کے ساتھ وکاس دوبے کے گھر پر بھی چلا۔اترپردیش میں یہ کارروائی افراد تک محدود تھی۔ مدھیہ پردیش میں اسے فساد سے جوڑ کر مسلمانوں کے خلاف اجتماعی عمل بنایا گیا لیکن آسام کی این آر سی کی مانند یہ بھی الٹا اسی کے گلے پڑ گیا۔ دہلی کے جہانگیر پوری میں یہ ایک قدم آگے نکل کر سپریم کورٹ کی توہین بن گیا ۔ وہاں پر بلڈوزر چلانے کی کارروائی روکنے کا حکم صادر کیے جانے کے باوجود بلڈوزر چلتا رہا اور کئی دوکانوں کو تباہ کر دیا گیا۔ وکیل پی وی سریندر کے مطابق انہوں نے 10.45 بجے صبح برندا کرات کو عدالتی حکم کی خبر دی تھی۔ کرات نے افسران کو مطلع کر دیا لیکن پھر بھی 12.45 تک بلڈوزر چلتا رہا حالانکہ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر جنگل میں آگ کے مانند پھیل گئی تھی۔اس حکم کے بعد مسلم فریق نے سوچا ہوگا کہ اب تو بلڈوزر رک جائے گا لیکن وہ غلطی پر تھا اس لیے کہ زعفرانی آقاﺅں کے تحت کام کرنے والے انتظامیہ کو اس کی پروا نہیں ہے۔ مجبورا بلڈوزر کو روکنے کے لیے رکن پارلیمان برندا کرات کو خودجہانگیر پوری جانا پڑا ۔ اس وقت یہ بلڈوزر مسجد کے باہر کا دروازہ توڑ کر مندر کو توڑنے جارہا تھا ۔ کاش کے کوئی مسجد پر کارروائی سے قبل آر ڈر کی کاپی لے کر وہاں پہنچ جاتا تو ہوسکتا ہے وہ انہدامی کارروائی بھی نہ ہوتی۔ مسجد کے خلاف ہونے والی اس کارروائی سے جہاں بستی کے مسلمان ناراض دکھائی دئیے وہیں ہندو بھی خوش نہیں تھے ۔ للن ٹاپ کی ایک ویڈیو میں ایک ہندو نوجوان انشو افسوس ظاہر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ صاف طور پر کہتا ہے کہ اس علاقہ میں ہندو مسلمان مل جل کر بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں لیکن آر ایس ایس پھوٹ ڈال رہی ہے۔ اس کا مسلم دوست مسجد کے ٹوٹنے پر غم و غصے کے ساتھ مندر کے بچ جانے پراطمینان کااظہار کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنگھ پریوار اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عام لوگوں کے اندر دراڑ ڈالنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔بی جے پی کے تحت کام کرنے والی این ایم سی ڈی کی بدمعاشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اسے پتہ چلا کہ لوگ سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہاہے ہیں تو اس نے اپنی کارروائی دوبجے کے بجائے نوبجے شروع کر دی اور عدالتی ا حکامات کو پامال کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کو جاری رکھا۔ اس معاملے میں معروف وکیل دشینت دوے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ دہلی کی 1731 غیر قانونی کالونیوں میں تقریبا 50 لاکھ لوگ رہتے ہیں لیکن ان سب کو چھوڑ کر محض ایک بستی کو نشانہ بنایا گیا ۔ بلدیہ نے جنوبی دہلی کے امیر کبیر علاقوں میں کارروائی کرنے کے بجائے غریبوں کو تو ہدف بنایا ۔ کپل سبل نے تجاوزات کو غلط طریقے سے ایشو بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے روک لگانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق بلڈوزر کے استعمال سے پہلے نوٹس جاری کرکے تجاوزات ہٹا نے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔سالیسٹر جنرل نے جب بلڈوزر کی کارروائی کو فٹ پاتھ صاف کرنے کی مہم قرار دیا تو جسٹس بی آر گووئی نے پوچھا آپ کو کرسیاں، ڈبوں وغیرہ کے لیے بلڈوزر کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ یہ دراصل کیمرے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا ویڈیو وائرل کیا جاسکے اور اس کا حوالہ دےکر ووٹ مانگا جائے۔ یہ ایک گندا سیاسی کھیل ہے جو غریب عوام کے پیٹ پر لات مار کر اورسر کوچھت کو اجاڑ کر کھیلا جارہا ہے۔جہانگیر پوری میں اپریل کو برپا ہونے والے فساد کے بعد غیر قانونی تجاوزات کے نام پر انہدام کے خلا ف حزب اختلاف نے پوری شدت سے آواز بلند کی ۔ اس معاملے میں بائیں محاذ کی رہنما برندا کرات نے دیگر لوگوں پر سبقت حاصل کی حالانکہ بعد میں حنان ملا نے بھی فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا۔ برندا کرات نے بجا طور پر این ڈی ایم سی کی انہدامی کارروائی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس غیر قانونی انہدامی کارروائی کے ذریعہ ملک کے آئین اور قانون پر بلڈوزر چلایا گیا ہے۔کم از کم سپریم کورٹ کے حکم پر بلڈوزر نہیں چلنا چاہئے۔ یہ الفاظ سخت ہونے کے باوجود مبنی برحقیقت ہیں ۔ عدالتِ عظمی نے سماعت کو دو ہفتوں کے لیے ٹال تو دیا ہے لیکن اب پوری دنیا کی نگاہیں اس کی جانب ہیں کہ اپنے حکم کی توہین پر وہ کوئی ٹھوس اقدام یعنی سزا دیتی ہے یا بس وعظ و تلقین پر اکتفا کرکے بیٹھ جاتی ہے؟ شرپسندوں پر سخت کارروائی کا وقت آگیا ہے کیونکہ موجودہ خود سر حکام لاتوں کے بھوت ہیں ۔ ان کو کتنی بھی دلسوزی کے ساتھ سمجھایا جایا اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔جہانگیر پوری میں انہدامی کارروائی جاری رکھنے کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان جے ویر شیرگل نے یہ کہنے کے بعد کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے باوجود انہدام جاری رکھنا عدالت کے حکم کی کھلی توہین ہے عدالت سے قانون کی بالادستی اورآئین کے تحفظ کی خاطر سختی کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی۔ اس کے ساتھ شیر گل نے یہ دلچسپ سوال بھی کیا کہ چینی قبضہ جات پر بلڈوزر کب چلےگا؟ انہوں نے پوچھا اروناچل اور لداخ میں ہندوستانی سرزمین پر چین جو غیر قانونی قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے،اس پر بلڈوزر کب چلےگا؟ یہ مودی سرکار کی دکھتی رگ ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں کئی بار اروناچل پر دیش میں ہندوستانی سرحد کے اندر چین کی آباد کردہ بڑی بڑی کالونیوں کی خلائی تصاویر شائع ہوچکی ہیں ۔ اس پر سرکاری حکام کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو پرانا قبضہ کہہ کر دامن چھڑا لیتے ہیں اوروزیر اعظم سمیت بعض حقیقت کا انکار کردیتے ہیں۔ ملک کے اندر چلنے والا بلڈوزر نئے قبضے پر ہی نہیں چلتا۔ دہلی میں تو تیس سال سے زیادہ پرانی دوکانیں بھی ڈھا د ی گئیں تو آخر اسی جرات کا مظاہرہ سرحد پر کیوں نہیں ہوتا ؟ وہاں تو بلڈوزر کے علاوہ ٹینک بھی موجود ہیں ۔ چھپن انچ کا سینہ ان کے استعمال کی اجازت دینے سے کیوں کتراتا ہے ؟شیر گل کے دیگر سوالات کہ ایندھن کی قیمتوں پر بلڈوزر کب چلے گا؟سلنڈروں کی قیمتوں پربلڈوزر کب چلے گا؟ بڑھتی بے روزگاری اور افراط زر پر بلڈوزر کب چلایا جائےگا؟اس حکومت کے لیے بے معنی ہیں کیونکہ ان بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر ہی بلڈوزر کا یہ تماشہ کیا جارہا ہے۔ سیاسی رہنماوں میں مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسدالدین اویسی نے کرات کے بعد فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا۔ انتظامیہ نے جب انہیں روک دیا تو انہوں نے ٹوئٹر پر این ڈی ایم سی کی انہدامی کارروائی کو غریبوں کے خلاف حکومت کی کھلی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کی جرات کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے انہدامی کارروائی کا موازنہ کے ترکمان گیٹ سانحہ سے کرتے ہوئے اسے کا ترکمان گیٹ قرار دیااور بی جے پی و عام آدمی پارٹی کو متنبہ کیا کہ اقتدار کبھی بھی مستقل نہیں ہوتا۔ جمعیت علما ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے مرکزی وزیر داخلہ کو خط لکھ کراسے فاشزم پر مبنی قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے قائد سلیم انجنیر نے جہانگیرپوری تشدد کے بعد مسلمانوں سے ملاقات کے بعد اس حادثہ کو انتہائی تکلیف دہ ، افسوسناک اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ قرار دیا ۔ اس طرح ملی اور سیاسی جماعتوں نے تو اپنی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک ادا کی ہے اب دیکھنا یہ ہے عدالت اس بلڈور کے عفریت کو بوتل میں بند کرپاتی ہے یا نہیں؟ یہ عدلیہ کے لیے موت و زیست کا سوال ہے اس لیے کہ ناکامی کی صورت میں بعید نہیں کہ یہ بلڈوزرپلٹ کر اسی کو روند دے۔